بین السطور

ایم جے گوہر  اتوار 17 اکتوبر 2021

انگریز جنرل سر چارلس نیپیئر نے جب 1842 میں سندھ کو فتح کیا اس نے اس وقت کے ہندوستانی گورنر جنرل لارڈ ڈلہوزی کو فتح کا پیغام ان الفاظ میں بھیجا ’’پیکاوی‘‘ یہ لاطینی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہوتے ہیں ’’میں نے گناہ کیا۔‘‘ بظاہر یہ بڑا عجیب پیغام تھا۔

فوجی افسر اور گورنر جنرل میں پہلے سے ایسی کوئی قرارداد نہیں ہوئی تھی جس کے مطابق وہ اس لفظ ’’پیکاوی‘‘ کا مطلب سمجھ لیتا۔ اس کے باوجود گورنر جنرل اس لفظ کا مفہوم سمجھ گیا۔ اس نے ’’پیکاوی‘‘ کا انگریزی ترجمہ کاغذ پر لکھا جو کچھ اس طرح تھا کہ “I have Sinned” اس کو دیکھ کر وہ فوراً سمجھ گیا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ میں نے سندھ کو فتح کرلیا ہے۔

نازک اور بڑے معاملات میں مثبت نتیجہ برآمد کرنے کے لیے ہمیشہ ایسے ذہین، فطین اور نکتہ فہم افراد کی ضرورت ہوتی ہے جو محض اشاروں کے ذریعے تفصیل کو سمجھ لیں جو نہ کہی ہوئی بات کو کہی ہوئی بات کی طرح جان اور سمجھ لیں یعنی اپنی ذہانت کے بل بوتے پر اس بات کو پڑھ سکیں اور اس کی گیرائی و گہرائی کو سمجھ لیں کہ جو بظاہر لکھی ہوئی نہیں ہے اور نہ کبھی موجود ہو سکتی ہے۔

زندگی کی حقیقتوں میں سے ایک حقیقت یہ ہے کہ ہر بات پیشگی بتائی نہیں جاسکتی۔ بہت سی باتوں کو بتائے بغیر جاننا پڑتا ہے، جن لوگوں کے اندر یہ خداداد صلاحیت موجود ہوتی ہے وہی کوئی نمایاں اور قابل ذکر کام کرتے ہیں اور جو لوگ اس صلاحیت سے محروم ہوں وہ نہ صرف نادانیاں کریں گے اور شکایتوں کے دفتر لے کر بیٹھ جائیں گے بلکہ وہ غلط فیصلوں سے اپنی راہوں میں مشکلات کی ایسی دیواریں کھڑی کرلیں گے کہ جن کو عبور کرنا اور گرانا خود ان کے لیے ایک عذاب جاں بن جائے گا۔

دنیا میں سب سے زیادہ خوش قسمت انسان وہ ہے جس کو ایسے ساتھی مل جائیں جو چپ کی زبان جانتے ہوں۔ جو بولے بغیر سنیں اور لکھیں بغیر پڑھیں۔ جو سطروں سے گزر کر بین السطور میں چھپی ہوئی باتوں کو سمجھ لیں۔ اس کے مفہوم کو سمجھ لیں۔ مالکم فوربس (Malcolm Forbes) کا ایک بامعنی قول ہے۔ اس نے کہا کہ مسئلے کا حل پیش کرنا ان لوگوں کے لیے بہت آسان ہے جو مسئلے کے بارے میں بہت کم واقفیت رکھتے ہوں۔

it is so much easier to suggest solution when you don’t know too much about the problem.

انسان کی اجتماعی زندگی میں جب ایک مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو اس کی حیثیت ایسی ہی ہوتی ہے جیسے کانٹوں کے ڈھیر میں آدمی کے دامن کا الجھ جانا۔ ایسی حالت میں اگر آدمی بے سوچے سمجھے کھینچ تان شروع کردے تو دامن اور زیادہ الجھ جائے گا اور اگر اس سے نکلے گا بھی تو پھٹ کر نکلے گا۔

ایسی نازک صورتحال میں ہمیشہ برداشت کی ضرورت ہوتی ہے، موقع کی مناسبت سے تحمل اور حکمت سے کام لینا چاہیے۔ صورتحال اور درپیش معاملے کی باریکی اس کے پیش منظر اور پس منظر کے تناظر میں اور امکانی حالات، جو پیش آمدہ ہو سکتے ہیں، کا گہرائی اور گیرائی سے جائزہ لے کر اپنے آپ دامن کو بچانے کی کوشش کرنی چاہیے۔

گھر سے لے کر حکومت تک کے معاملات نہایت سنجیدہ اور پیچیدہ ہوتے ہیں۔ ہر دو حوالے سے سربراہ کے کاندھوں پر بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ کسی معاملے سے متعلق دونوں فریق کے مفادات کا خیال رکھے۔ مشترکہ معاملات اور مسائل میں اپنی اور دوسروں کی قوت کے تناسب کا اندازہ کرنا ہی دانش مندی ہے۔ کوشش یہ کرنی چاہیے کہ آخری حد تک دوسروں کے ٹکراؤ سے بچتے ہوئے اپنا مطلوبہ مقصد حاصل کرلیا جائے۔

فیصلہ کرتے وقت یہ دیکھنا چاہیے کہ فوری طور پر کیا چیز قابل قبول ہے اور وہ کون سی چیزیں ہیں جن کے حصول کے لیے ہمیں انتظار کی پالیسی اختیار کرنی چاہیے۔ جس شخص کو اپنے انفرادی اور اجتماعی معاملات کی نزاکتوں کا احساس ہو وہ یقینی طور پر کسی بھی معاملے میں فوری طور پر حساس ہو جائے گا اور کوئی بھی تجویز پیش کرنے سے پہلے ہزار مرتبہ سوچے گا، تمام پہلوؤں کا جائزہ لے گا، امکانی خدشات و خطرات کا اندازہ کرے گا اور اپنے دامن کو داغ دار ہونے سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کرے گا۔

اس کے برعکس جس شخص کو مذکورہ بالا نزاکتوں کا احساس نہ ہو، وہ اپنی بے حسی، ضد اور انا کے خول سے باہر نہ نکلنا چاہتا ہو اور افہام و تفہیم سے کسی مسئلے کے حل میں سنجیدہ نہ ہو اور اپنی پیش کردہ تجویز ہی کو ہر صورت درست سمجھ کر اس پر عمل درآمد کا خواہاں ہو تو پھر اسے سمجھ لینا چاہیے کہ بین السطور چھپے اشارے کسی ناگہانی کا سبب اور جواز بن سکتے ہیں۔

آپ اس پس منظر میں ملک کے ادارہ جاتی منظر نامے کے ماضی، حال اور مستقبل کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں تمام آئینی و ریاستی ادارے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی دوڑ میں مصروف رہتے ہیں کبھی پارلیمنٹ کی بالا دستی، کبھی عسکری آمریت، کبھی عدلیہ کا رعب داب، کبھی میڈیا کی حاکمیت اور کبھی اسٹیبلشمنٹ کی طاقت کے درمیان گھری حکومتیں اپنے ہی فیصلوں اور احکامات کو واپس لینے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔

یہ ایک مسلمہ عالمی اصول ہے کہ کاروبار سلطنت چلانے کے لیے آئین ہی وہ مستند اور مقدس دستاویز ہوتی ہے جس میں ہر ادارے کا دائرہ کار طے کردیا جاتا ہے۔ دنیا بھر کے مہذب اور عادلانہ جمہوری معاشروں میں آئین پر عمل درآمد پہلا رہنما اصول ہوتا ہے۔ جہاں آئین سے صرف نظر کیا جائے اور ذاتی و انفرادی خواہش کے تابع فیصلے کیے جائیں وہاں انتشار اور زوال کا پیدا ہونا لازمی امر ہے۔

یہ مسلمہ امر ہے کہ جہاں طاقت، ضد اور آمرانہ طرز عمل کے ذریعے اپنی بات منوانے اور رہنما آئینی اصولوں کو پامال کرنے کی روایت پڑ جائے وہاں آئینی و ریاستی اداروں کے استحکام پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔

پی ٹی آئی حکومت کو آج کل کچھ ایسی ہی صورت حال کا سامنا ہے۔ انٹیلی جنس سروس کے سربراہ کی تقرری پر آئینی و ریاستی اداروں کی جو پھوار اڑائی جا رہی ہے وہ افسوس ناک ہے۔ نہ صرف اندرون وطن بلکہ بیرون وطن بھی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان پیدا ہونے والے تناؤ پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں جو بجا طور پر ملک کی رسوائی کا باعث ہیں۔

اس پہ مستزاد وزرائے کرام کے متضاد بیانات معاملے کو ہوا دے رہے ہیں، ٹکراؤ کا ماحول بنا رہے ہیں، ایسے عاقبت نااندیش لوگ ’’بین السطور‘‘ پیغام کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ حالات کی سنگینی کا تقاضا یہ ہے کہ جوش کی بجائے ہوش سے کام لیا جائے اور خوش اسلوبی و خاموشی سے جلد مسئلے کو حل کرلیا جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔