خون میں دماغی بیماریوں کی علامات موجود ہوتی ہیں، تحقیق

ویب ڈیسک  پير 18 اکتوبر 2021
خون میں کچھ خاص آر این اے مالیکیولز کی اضافی مقدار دماغی بیماریوں سے پیشگی خبردار کرسکتی ہے۔ (فوٹو: فائل)

خون میں کچھ خاص آر این اے مالیکیولز کی اضافی مقدار دماغی بیماریوں سے پیشگی خبردار کرسکتی ہے۔ (فوٹو: فائل)

برلن: جرمن سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے کہ خون میں پائے جانے والے کچھ خاص ’مائیکرو آر این اے‘ سالموں کی اضافی مقدار دماغی بیماریوں کا پیش خیمہ ہوتی ہیں۔

یہ مائیکرو آر این اے ہمارے جسم میں پروٹین کی پیداوار اور استحالہ (میٹابولزم) کنٹرول کرنے کے ذمہ دار بھی ہیں۔

ابتدائی طور پر یہ تجربات چوہوں پر کیے گئے جنہیں بعد میں انسانی خون کے نمونوں پر دوہرایا گیا تو وہی نتائج حاصل ہوئے جیسے چوہوں میں ہوئے تھے۔

مزید تصدیق کی غرض سے 132 صحت مند رضاکاروں کے علاوہ 53 ایسے ادھیڑ عمر افراد کا مشاہدہ بھی کیا گیا جو ’’مائلڈ کوگنیٹیو امپیئرمنٹ‘‘ (ایم سی آئی) میں مبتلا تھے۔

ایم سی آئی ایک ایسی کیفیت ہے جب سیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت متاثر ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ یہی کیفیت آئندہ چند سال میں مزید شدت اختیار کرتے ہوئے کئی دماغی بیماریوں کی بنیاد بن سکتی ہے جن میں الزائیمر، شیزوفرینیا (اسکیزوفرینیا) اور ڈیمنشیا وغیرہ شامل ہیں۔

چوہوں اور انسانی خلیوں (سیل کلچرز) پر تحقیق کے دوران تین اقسام کے ایسے مائیکرو آر این اے سامنے آئے جو دماغی خلیوں میں باہمی رابطے بننے کے عمل میں رکاوٹ ڈال رہے تھے اور جن کی وجہ سے اکتسابی صلاحیتیں متاثر ہورہی تھیں۔

ایم سی آئی میں مبتلا افراد کے خون میں بھی ان ہی تینوں مائیکرو آر این ایز کی اضافی مقدار نوٹ کی گئی۔

ریسرچ جرنل ’’ای ایم بی او مالیکیولر میڈیسن‘‘ کے تازہ شمارے میں آن لائن شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق، ان مائیکرو آر این ایز پر نظر رکھتے ہوئے نہ صرف دماغی بیماریوں کا بہت پہلے پتا چلایا جاسکتا ہے بلکہ ان کا علاج بھی ممکن ہے۔

چوہوں پر مزید تجربات کے دوران جب یہ مائیکرو آر این ایز بلاک کردیئے گئے تو چوہوں میں اکتسابی صلاحیتیں بہتر ہوگئیں۔

واضح رہے کہ اکثر دماغی بیماریوں کی علامات نمایاں ہوجانے کے بعد ہی ان کا پتا چلتا ہے جس کی وجہ سے ان کے تدارک میں بھی شدید مشکلات پیش آتی ہیں۔

اگر کسی طرح دماغی بیماریوں کی قبل از وقت تشخیص ممکن ہوجائے تو مختلف احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے انہیں مزید بڑھنے سے روکا جاسکتا ہے۔ یہ تحقیق ایسی ہی عالمی کوششوں کا ایک حصہ ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔