کوئلے کی قیمت میں اضافے سے سیمنٹ کی صنعت بری طرح متاثر

ویب ڈیسک  پير 18 اکتوبر 2021
کوئلے اور بجلی کے نرخ بڑھنے سے سیمنٹ کی لاگت بڑھ گئی جس کے باعث سیمنٹ کی ایکسپورٹ میں کمی آئی ہے، سیمنٹ مینوفیکچررز (فوٹو : فائل)

کوئلے اور بجلی کے نرخ بڑھنے سے سیمنٹ کی لاگت بڑھ گئی جس کے باعث سیمنٹ کی ایکسپورٹ میں کمی آئی ہے، سیمنٹ مینوفیکچررز (فوٹو : فائل)

 کراچی: عالمی مارکیٹ میں کوئلے کی قیمت میں مسلسل اضافہ پاکستان کی سیمنٹ انڈسٹری کو بری طرح متاثر کررہا ہے جو پیداواری لاگت کے سخت دباؤ سے نبرد آزما ہے۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق عالمی مارکیٹ میں کوئلے کی فریٹ ان بورڈ قیمت 224 ڈالر فی ٹن پہنچ  گئی ہے، جس کی وجہ سے پاکستان میں سیمنٹ انڈسٹری پر برے اثرات مرتب ہورہے ہیں، جو پہلے ہی پیداواری لاگت کے سخت دباؤ سے نبرد آزما ہے۔

رپورٹ کے مطابق سیمنٹ سیکٹر میں کوئلے کو 2004 سے کلنکر بنانے کے لیے بطور ایندھن استعمال کیا جارہا ہے جو جنوبی افریقا، آسٹریلیا، موزمبیق اور انڈونیشیا سے درآمد کیا جاتا ہے۔ جب کہ مقامی سطح پر پایا جانے والا کوئلہ انفرااسٹرکچر کی عدم دست یابی، مستقل فراہمی نہ ہونے اور کم معیار کی وجہ سے استعمال نہیں کیا جاتا۔

سیمنٹ مینوفیکچررز کے مطابق پاکستان میں سیمنٹ انڈسٹری کے لیے سالانہ 8 ملیں ٹن کوئلہ درآمد کیا جاتا ہے اور اگر سیمنٹ کی موجودہ پیداواری صلاحیت جو کہ 70 ملین ٹن ہے سے بڑھا کر 23-2022 تک 100 ملین ٹن تک لانے کی صورت میں کوئلے کی درآمدات میں مزید 4 ملین ٹن کا اضافہ ہوگا۔
ماہرین کے مطابق کوئلے کی قیمت ریکارڈ بلند سطح پر ہے اور گزشتہ 15 ماہ کے دوران کوئلے کی قیمت میں چار گنا اضافہ ہوا اور اس کی ایف او بی قیمت 55 ڈالر فی ٹن سے بڑھ کر اکتوبر 2021 تک 224 ڈالر فی ٹن کی سطح پر آچکی ہے، جس سے سیمنٹ انڈسٹری کی پیداواری لاگت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔
جولائی 2020 سے اکتوبر 2021 کے دوران جنوبی افریقا سے پاکستان تک سمندری کرایہ 13 ڈالر سے بڑھ کر 30ڈالر فی ٹن کی سطح پر آچکاہے۔

دوسری جانب روپے کی قدر میں کمی بھی اپنا کردار اداکررہی ہے، ان سب عوامل کی وجہ سے سیمنٹ انڈسٹری کی ایندھن کی لاگت سو فیصد تک بڑھ گئی ہے۔ جولائی 2020 میں کوئلے کی سی اینڈ ایف قیمت 68 ڈالر فی ٹن تھی جو اب 254 ڈالر کی سطح پر آچکی ہے جس کی وجہ سے سیمنٹ کی ایک بوری پر پر 119 روپے اٖضافی لاگت آرہی رہی ہے۔
سیمنٹ تعمیراتی صنعت کے لیے اہم جز ہونے کے ساتھ معیشت میں بھی اہم حصے دار ہے۔ کوئلہ بجلی کے بعد سیمنٹ کی پیداوار کا ناگزیر اور سب سے بڑا جز ہے۔ ماہرین کوخدشہ ہے کہ اگرکوئلے کی قیمت میں اضافہ کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا توفروری 2022 تک کوئلے کی قیمت 300 ڈالر فی ٹن تک پہنچ سکتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں اضافے سے بھی سیمنٹ کی ترسیل کی لاگت بڑھ رہی ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات مہنگی ہونے سے سیمنٹ کی ایک بوری کی قیمت میں 8 سے 10 روپے کا اضافہ ہوا ہے۔

ماہرین کے مطابق بنگلہ دیش اور سری لنکا جیسے سیمنٹ اور کلنکر درآمد کرنے والے اہم ممالک نقل و حمل کی لاگت بڑھنے کی وجہ سے پاکستان سے سیمنٹ کی درآمدات 60 فیصد تک کم کرچکے ہیں۔ اب سیمنٹ درآمد کرنے والے ممالک کم قیمت پر سیمنٹ ایکسپورٹ کرنے والے متبادل ملکوں کا رخ کررہے ہیں۔

ماہرین کے مطابق سیمنٹ انڈسٹری پر فی ٹن 1500 روپے فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد ہے جب کہ خوردہ سطح پر 17 فیصد سیلز ٹیکس بھی ادا کیا جاتا ہے۔ ان محصولات کا سیمنٹ کی ایک بوری میں حصہ 170 روپے بنتا ہے۔

سیمنٹ انڈسٹری کا شمار قومی خزانے میں سب سے زیادہ ٹیکس جمع کرانے والی صنعتوں میں کیا جاتا ہے، سال 13-2012 میں سیمنٹ انڈسٹری 39 ارب روپے کے محصولات ادا کرتی تھی جب کہ گزشتہ سال سیمنٹ انڈسٹری نے قومی خزانے میں 152 ارب روپے جمع کروائے، ماہرین کے مطابق ٹیکسوں کی بلند شرح بھی سیمنٹ کی مقامی کھپت پر اثر انداز ہونے والے اہم عوامل میں سے ایک ہے۔
ماہرین کے مطابق سیمنٹ انڈسٹری کو حکومت کی فوری توجہ اور ریلیف کی ضرورت ہے۔ حکومت کو سیمنٹ جیسی بنیادی شے پر ایکسائز ڈیوٹی کے خاتمے کا وعدہ پورا کرنے کے ساتھ ساتھ کوئلے اور ایندھن پر سے درآمدی ڈیوٹی کا خاتمہ بھی ناگزیر ہے۔
ماہرین نے حکومت پر زور دیا کہ اگر حکومت تعمیراتی سرگرمیوں کو فروغ دے کر معاشی بحالی کے عمل کو مستحکم بنانا چاہتی ہے تو سیمنٹ انڈسٹری میں بے یقینی ختم کرنے کے لیے اس کو دیگر صنعتوں کے مساوی نرخ پر بجلی اور گیس فراہم کرنا ہوگی اور یہ نرخ کم از کم 3 سال کے لیے منجمد کرنا ہوں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔