نور مقدم کیس؛ ملزم ظاہر ذاکر جعفر کے دفاع کے لئے سرکاری وکیل مقرر

ویب ڈیسک  بدھ 20 اکتوبر 2021
کیس کی مزید سماعت 27 اکتوبر کو ہوگی  فوٹو: فائل

کیس کی مزید سماعت 27 اکتوبر کو ہوگی فوٹو: فائل

 اسلام آباد: عدالت نے نور مقدم کیس کے مرکزی ملزم ظاہر ذاکر جعفر کے دفاع کے لیے وکیل مقرر کردیا۔

ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج محمد عطا ربانی نے نور مقدم کیس پر سماعت کی، ملزمان کے وکلا نے سب انسپکٹر رضا محمد پر جرح مکمل کی، اس دوران عدالت نے نور مقدم کے والد شوکت مقدم سمیت دیگر گواہان کو عدالت سے باہر جانے کی ہدایت کی۔

دوران سماعت مرکزی ملزم ظاہر جعفر نے کمرہ عدالت میں بار بار بولنے کی کوشش کی جس پر پولیس نے روکا، بعد ازاں اسے عدالت سے بخشی خانے بھجوادیا گیا، عدالت نے شہریار نواز خان کو ظاہر ذاکر جعفر کا وکیل مقرر کردیا ، کمرہ عدالت میں ہی ظاہر ذاکر جعفر سے اس کے وکیل کی ملاقات ہوئی۔

سب انسپکٹر رضا محمد سے جرح مکمل ہونے کے بعد عدالت نے دیگر گواہاں کو اگلی سماعت پر طلب کرلیا، کیس کی مزید سماعت 27 اکتوبر کو ہوگی۔

دوسری جانب اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق نے نور مقدم قتل کیس میں ملزمان ذاکر جعفر، عصمت جعفر اور طاہر ظہور کو تمام دستاویزات فراہم نہ کرنے کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی۔ ملزم کے وکیل کی جانب سے کہا گیا کہ کیس ڈائری میں کچھ چیزیں فراہم نہیں کی گئیں، چالان کی نقول کے ساتھ صرف گواہوں کے بیانات کی نقول فراہم کی گئیں، قانون کے مطابق پولیس اور مجسٹریٹ کے سامنے ریکارڈ کرائے گئے تمام بیانات کی نقول ملنی چاہییں۔

پولیس نے کہا کہ ہیڈ کانسٹیبل محمد جابر سی ڈی آر کا گواہ ہے جس کا بیان 14 اکتوبر کو ریکارڈ کیا گیا، چالان اس بیان سے پہلے جمع ہو چکا تھا، اس بیان کی نقل سپلمنٹری چالان کے ساتھ جمع ہونی ہے، اس بیان کی حد تک تو سپلمنٹری چالان ہی ابھی عدالت میں پیش نہیں ہوا۔

سرکاری وکیل نے کہا کہ شوکت علی مقدم کا ضمنی بیان جس دریافت کے نتیجے میں قلمبند ہوا وہ بھی مانگا جا رہا ہے۔ ڈی وی آر کا ٹرانسکرپٹ بھی فراہم کر رہے ہیں۔

جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ آپ کہنا چاہتے ہیں کہ کچھ لوگوں کے بیانات ریکارڈ ہوئے مگر انہیں گواہ نہیں بنایا گیا، گواہ نہ بنائے گئے افراد کے بیانات کی نقول ملزمان کو نہ دی گئیں؟ فیئر ٹرائل کا تقاضا ہے کہ ملزمان کو تمام ریکارڈ فراہم کیا جائے۔ یہ بات تو طے ہے کہ جس گواہ کا بیان عبوری چالان کے بعد ریکارڈ ہوا وہ تتمہ چالان کے ساتھ جمع ہو گا، ملزم ذاکر جعفر اور ان کی اہلیہ کے وکیل خواجہ حارث نے ضمانت کی درخواست پر دلائل کے دوران کیس ڈائریز کا ذکر کیا تھا، ان کے پاس تو تمام ریکارڈ دستیاب تھا، یہ بتائیں کہ دفعہ 161 کے تحت پولیس کا ریکارڈ کیا گیا کوئی بیان فراہم کرنے سے رہ گیا ہے یا نہیں؟اس کیس میں ٹرائل مکمل کرنے کے لیے آٹھ ہفتوں کی ڈائریکشن بھی ہے،سپریم کورٹ نے اس ڈائریکشن کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی اور اسے برقرار رکھا ہے، ہم آرڈر پاس کریں گے جس کے بعد ٹرائل کورٹ میں دستاویزات ملزمان کے وکلا کو دینی ہیں، ٹرائل کورٹ کی آرڈر شیٹ میں بھی یہ بات آ جائے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔