- پاکستان اور نیوزی لینڈ کے مابین چوتھا ٹی ٹوئنٹی آج کھیلا جائے گا
- سائفر کیس؛ مقدمہ درج ہوا تو سائفر دیگر لوگوں نے بھی واپس نہیں کیا تھا، اسلام آباد ہائیکورٹ
- ضلع خیبرمیں سیکیورٹی فورسز کی کارروائی میں تین دہشت گرد ہلاک، دو ٹھکانے تباہ
- عمران خان کی سعودی عرب سے متعلق بیان پر شیر افضل مروت کی سرزنش
- چین: ماڈلنگ کی دنیا میں قدم رکھنے والا 88 سالہ شہری
- یوٹیوب اپ ڈیٹ سے صارفین مسائل کا شکار
- بدلتا موسم مزدوروں میں ذہنی صحت کے مسائل کا سبب قرار
- چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے پروٹوکول واپس کردیا، صرف دو گاڑیاں رہ گئیں
- غزہ کی اجتماعی قبروں میں فلسطینیوں کو زندہ دفن کرنے کا انکشاف
- اسمگلنگ کا قلع قمع کرکے خطے کو امن کا گہوارہ بنائیں گے ، شہباز شریف
- پاکستان میں دراندازی کیلیے طالبان نے مکمل مدد فراہم کی، گرفتار افغان دہشتگرد کا انکشاف
- سعودی دارالحکومت ریاض میں پہلا شراب خانہ کھول دیا گیا
- موٹر وے پولیس اہل کار کو ٹکر مارنے والی خاتون جوڈیشل ریمانڈ پر جیل روانہ
- کراچی میں رینجرز ہیڈ کوارٹرز سمیت تمام عمارتوں کے باہر سے رکاوٹیں ہٹانے کا حکم
- اوگرا کی تیل کی قیمتیں ڈی ریگولیٹ کرنے کی تردید
- منہدم نسلہ ٹاور کے پلاٹ کو نیلام کر کے متاثرہ رہائشیوں کو پیسے دینے کا حکم
- مہنگائی کے باعث لوگ اپنے بچوں کو فروخت کرنے پر مجبور ہیں، پشاور ہائیکورٹ
- کیا عماد، عامر اور فخر کو آج موقع ملے گا؟
- سونے کی قیمتوں میں معمولی اضافہ
- عمران خان، بشریٰ بی بی کو ریاستی اداروں کیخلاف بیان بازی سے روک دیا گیا
پودوں کو ظاہری شکل سے شناخت کرنے والا نیا نظام
شکاگو: عموماً ایک ہی نوع کی دو مختلف آبادیوں سے تعلق رکھنے والے پودے اتنے یکساں ہوتے ہیں کہ ان کی شناخت کے لیے ڈی این اے ٹیسٹ لازمی ہوجاتا ہے۔ لیکن اب ایک اب ایک دستی آلے سے یہ کام فوری طور پر آسان اور کم وقت میں کیا جاسکتا ہے۔
اس کے لیے شکاگو فیلڈ میوزیم کے سائنسداں ڈوسن وائٹ کی سربراہی میں ان کی ٹیم نے یونیورسٹی آف مین کے لانس اسٹاسنسکی نے جینیاتی طور پرمختلف ’ڈریاس‘ نامی سدا بہار پیڑ کی دو الگ الگ آبادیوں کا جائزہ لیا۔ اس کے لیے ایک لمبا عمل کرنا پڑا۔ یعنی پہلے دومختلف مقامات سے پودوں کے نمونے جمع کئے گئے اور ہر ایک کو تجربہ گاہ میں ڈی این اے مطالعے سے گزارا گیا تو اس عمل میں ہفتے لگ گئے۔
اس کے علاوہ ڈی این اے آزمائش سے گزارے گئے تمام پودوں کو ایک دستی آلے سے بھی دیکھا گیا جسے ’اسپیکٹروریڈیومیٹر‘ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ آلہ پتوں پر روشنی پھینکتا ہے اور وہاں سے لوٹنے والی روشنی کی طولِ موج (ویولینتھ) کا جائزہ لیتا ہے۔ ماہرین حیران رہ گئے کہ مشین نے فوری طور پر الگ الگ طور پر شناخت کرلیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں پودے ایک جیسے دکھائی دیتے ہیں جن کے الگ الگ ہونے کی تصدیق جینیاتی تجزیئے سے بھی کی گئی تھی۔ اس طرح ماہرینِ نباتیات کسی بھی موقع پرفوری طور پر دو یکساں پودوں کے فرق کو جان سکتے ہیں۔ یہ عمل جینیاتی ٹیسٹ کے مقابلے میں تیزرفتار اور بہت ارزاں ہے جس سے پودوں پر تحقیق کی رفتار بڑھائی جاسکتی ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ دوردراز علاقوں، دشوار گزار راستوں اور پہاڑوں پر موجود پودوں کی شناخت کے لیے یہ پورا نظام ڈرون پر لگا کر نباتاتی تحقیق کو تیز کیا جاسکتا ہے۔ یہ تحقیق نیوفائٹولوجی جرنل میں شائع ہوئی ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔