سندھ محکمہ تعلیم کی غلط پالیسی

ڈاکٹر توصیف احمد خان  جمعرات 21 اکتوبر 2021
tauceeph@gmail.com

[email protected]

گزشتہ صدی کی آخری دہائی میں حکومت نے فیصلہ کیا کہ ہائی اسکولوں میں انٹرمیڈیٹ کی تدریس شروع کی جائے گی۔ سندھ کے محکمہ تعلیم نے مختلف مضامین میں پوسٹ گریجویٹ کرنے والے نوجوانوں کو بطور سبجیکٹ اسپیشلسٹ مقررکرنے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کے لیے سندھ پبلک سروس کمیشن نے گریڈ 17 کی آسامیاں اخبارات میں مشتہرکیں۔

کراچی کی 35 سے زائد پوسٹ گریجویٹ کرنے والی خواتین کمیشن کے امتحان میں پاس ہوئیں۔ان خواتین اساتذہ نے کراچی کے مختلف علاقوں میں ہائر سیکنڈری اسکولوں میں انتہائی محنت سے اپنے فرائض انجام دیے۔

سرکاری اسکولوں میں انٹرمیڈیٹ کی سطح پر ناکافی سہولتوں کی بناء پر ان اساتذہ کو طلبہ کو تعلیم کی طرف راغب کرے میں خاصی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا مگر ان اساتذہ کی کوششوں سے انٹرمیڈیٹ کی سطح پر گزشتہ 30برسوں سے یہ پروگرام فعال ہیں۔ سندھ کے محکمہ تعلیم میں اساتذہ کی ترقیوں کا معاملہ ہمیشہ سے پیچیدہ رہا ہے۔ ان اساتذہ کو اپنی ترقیوں کے لیے ایک طویل جدوجہد کرنی پڑتی ہے، یوں سندھ بھر میں سو سے زائد سینئر اساتذہ کوگریڈ 19میں ترقی کا پروانہ برسوں انتظار کے بعد ملا۔

اس خبر پر ان اساتذہ اور ان کے اہل خانہ کے لیے ابھی خوشی کا مرحلہ آنا باقی تھا کہ کراچی کی 35کے قریب خواتین اساتذہ اور ان کے اہل خانہ کے ارمانوں پر بجلی گری۔ محکمہ تعلیم کے افسران نے ان کے تبادلے اندرون سندھ کے دور دارز علاقوں میں کردیے۔ محکمہ تعلیم کا یہ فیصلہ قانونی طور پر بھی غلط ہے کیونکہ یہ خواتین کراچی کا ڈومیسائل اور سکونت کا مستقل سرٹیفکیٹ رکھتی ہیں اور انھوں نے ساری زندگی کراچی میں خدمات انجام دی ہیں ۔

جب ان خواتین نے سندھ سیکریٹریٹ میں محکمہ تعلیم کے افسروں سے رابطہ کیا تو اس مسئلہ کا آسان ، سادہ اور شفاف حل پیش کیا گیا۔ انھیں مشورہ دیا گیا کہ تمام خواتین فوری طور پر ترقی سے دستبردار ہوجائیں اور پرانے گریڈ میں اپنے پرانے اسکول میں رہیں۔ان خواتین اساتذہ کو نئے گریڈ سے ملنے والی مالیاتی مدد ان کے اہل خانہ کی زندگی کے معیار کو بلند کرنے میں اہم کردار ادا کرے گی۔ دوسرے شہر جاکر ملازمت سے گھر اور دیگر مسائل پیچیدہ ہوجاتے  ہیں۔ بچوں کی تعلیم، بوڑھے والدین کی نگہداشت کا مسئلہ پیدا الگ پیدا ہوتا ہے اور اس صورت میں ترقی سے حاصل ہونے والے فوائد بے معنی ہوجاتے ہیں۔

80ء اور 90ء کی دہائی میں کراچی کے ملازمین کے اندرون سندھ تبادلے اور میڈیکل و انجنیئرنگ کالجوں میں کراچی کے طالبات کے داخلے صوبہ کے لیے  بڑا بحران پیدا کرچکے ہیں۔ کراچی اور پورا سندھ لسانی فسادات کا شکار ہوا ، اس وقت کی حکومت نے یہ فیصلہ کیاکہ خواتین اساتذہ کا اندرون سندھ تبادلہ نہ کیا جائے۔ نو اب شاہ میڈیکل کالج میں زیر تعلیم کراچی کی طالبات کے کراچی کے میڈیکل کالجوں میں تبادلے کیے جائیں اور مستقبل میں کراچی کی طالبات کو اندرون سندھ میڈیکل کالجوں میں داخلے نہ دیے جائیں ، یوں یہ مسئلہ حل ہوا تھا۔

محکمہ تعلیم کے افسران پر امتیازی سلوک کا الزام اس بنیاد پر لگایا جا رہا ہے کہ ترقی پانے والی اندرون سندھ سے تعلق رکھنے والی خواتین اساتذہ کے کراچی تبادلے نہیں کیے گئے بلکہ صرف مردوں کو نوازا گیا ہے۔ سرکاری ملازمت میں تبادلے معمول کا حصہ ہوتے ہیں ۔

سول سروس آف پاکستان CSP کے افسران اگلے گریڈ میں ترقی کے حقدار اس وقت تک نہیں ہوتے جب تک وہ اپنے ڈومیسائل والے صوبہ کے علاوہ دیگر صوبوں یا وفاقی دارالحکومت میں فرائض انجام نہ  دیں، یہی اصول مسلح افواج میں بھی نافذ ہے۔ مسلح افواج کی فورس بری، بحری اور فضائیہ میں کمیشنڈ افسروں کے تبادلے بھی معمول کا حصہ ہیں ، وہ اپنی پوسٹنگ قبول کرنے اور متعلقہ اسامی پر ایک مقررہ مدت تک فرائض انجام دینے کے بعد ترقی کے حقدار ہوتے  ہیں ۔

ان افسروں کو نئے شہروں میں رہائشیں فراہم کی جاتی ہیں۔ ان کے بچوں کے اسکولوں میں بغیر کسی دشواری کے اسی گریڈ میں داخلے ہوتے ہیں ۔ نئے طلبہ کو نئے اسکولوں میں وہی سبق پڑھایا جاتا ہے جو سبق تبادلہ سے پہلے والے اسکول میں پڑھایا جاتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ تبادلے ہونے والے افسران اور ان کے اہل خانہ سب کچھ مسرت کے ساتھ قبول کرتے ہیں۔

پیپلز پارٹی کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ جب وہ حزب اختلاف میں ہوتی ہے تو اچھی پالیسیاں پیش کرتی ہے، مظلوم طبقات کے لیے اس کے رہنما آواز اٹھاتے ہیں۔ تعلیم ، صحت اور ٹرانسپورٹ اور روزگار فراہم کرنے کے وعدے کرتے ہیں، یوں عوام کے تمام طبقات اور تمام نسلی اور مذہبی گروہ اس سے امیدیں وابستہ کرلیتے ہیں مگر پیپلز پارٹی جب اقتدار میں آتی ہے تو اس کے صدر ، وزیر اعظم، وزراء اعلیٰ اور وزراء اپنے منشور کو بھول جاتے ہیں۔

چند ماہ قبل یونیورسٹیوں اور تعلیمی بورڈز کے نگراں وزیر نے کراچی بورڈ کے شعبہ امتحانات کے نگراں اور افسروں کا تبادلہ میرپور خاص اور لاڑکانہ کردیا ، اور وہاں کے تعلیمی بورڈز کے نگراں امتحانات افسروں کو کراچی میں تعینات کر دیا۔

یہ اقدامات ایسے وقت کیے گئے جب میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے امتحانات کے انعقاد کے لیے تیاریاں آخری مراحل میں تھیں۔ اس سے ایک طرف اندرون سندھ تعلیمی بورڈز میں بحران پیدا ہوا تو دوسری طرف کراچی بورڈ بھی بحران کا شکار ہوا اور تمام نتائج رک  گئے۔ اس صورتحال کی بناء پر این ای ڈی یونیورسٹی کی سنڈیکیٹ نے فیصلہ کیا ہے کہ اس سال طلبہ کو میٹرک کی بنیاد پر (دو سال قبل کے نتائج) عارضی بنیادوں پر داخلے دیے جائیں گے۔

محکمہ تعلیم کا اسکول کے طلبہ کے لیے ڈیسک 7000 روپے کے بجائے 29000 روپے میں خریدنے کے اسکینڈل کی بازگشت اب اعلیٰ عدالتوں میں سنائی دے رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کے دور میں ان کی یکطرفہ پالیسیوں کی بناء پر تضاد ابھرے ہیں۔ اس طرح کے تبادلہ صورتحال کو مزید گھمبیر کررہے ہیں ، اگر سرکاری افسروں کے تبادلوں کی میرٹ پر پالیسی تیار کی جائے اور ترقی کے لیے کچھ عرصہ شہروں میں ایک مدت تک فرائض انجام دینے کی شرط لگائی جائے تو پھرکسی اعتراض کی گنجائش نہیں رہے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔