- ڈکیتی کے ملزمان سے رشوت لینے کا معاملہ؛ ایس ایچ او، چوکی انچارج گرفتار
- کراچی؛ ڈاکو دکاندار سے ایک کروڑ روپے نقد اور موبائل فونز چھین کر فرار
- پنجاب پولیس کا امریکا میں مقیم شہباز گِل کیخلاف کارروائی کا فیصلہ
- سنہری درانتی سے گندم کی فصل کی کٹائی؛ مریم نواز پر کڑی تنقید
- نیویارک ٹائمز کی اپنے صحافیوں کو الفاظ ’نسل کشی‘،’فلسطین‘ استعمال نہ کرنے کی ہدایت
- پنجاب کے مختلف شہروں میں ضمنی انتخابات؛ دفعہ 144 کا نفاذ
- آرمی چیف سے ترکیہ کے چیف آف جنرل اسٹاف کی ملاقات، دفاعی تعاون پر تبادلہ خیال
- مینڈھے کی ٹکر سے معمر میاں بیوی ہلاک
- جسٹس اشتیاق ابراہیم چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ تعینات
- فلاح جناح کی اسلام آباد سے مسقط کیلئے پرواز کا آغاز 10 مئی کو ہوگا
- برف پگھلنا شروع؛ امریکی وزیر خارجہ 4 روزہ دورے پر چین جائیں گے
- کاہنہ ہسپتال کے باہر نرس پر چھری سے حملہ
- پاکستان اور نیوزی لینڈ کا پہلا ٹی ٹوئنٹی بارش کی نذر ہوگیا
- نو منتخب امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم نے اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا
- تعصبات کے باوجود بالی وڈ میں باصلاحیت فنکار کو کام ملتا ہے، ودیا بالن
- اقوام متحدہ میں فلسطین کی مستقل رکنیت؛ امریکا ووٹنگ رکوانے کیلیے سرگرم
- راولپنڈی میں گردوں کی غیر قانونی پیوندکاری میں ملوث گینگ کا سرغنہ گرفتار
- درخشاں تھانے میں ملزم کی ہلاکت؛ انکوائری رپورٹ میں سابق ایس پی کلفٹن قصور وار قرار
- شبلی فراز سینیٹ میں قائد حزب اختلاف نامزد
- جامعہ کراچی ایرانی صدر کو پی ایچ ڈی کی اعزازی سند دے گی
بعض لوگوں کو اتنی گدگدی کیوں ہوتی ہے؟
گدگدی سبھی کو ہوتی ہے، کسی کو کم کسی کو زیادہ، کسی کو پیٹ پر تو کسی کو تلووں ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ گدگدی ہوتی کیوں ہے؟
کچھ افراد ایسے ہوتے ہیں کہ آپ ان کے پیٹ یا پیروں کے تلووں کی جانب گدگدی کی نیت سے ہاتھ بھی بڑھائیں، تو وہ قہقہے لگانے لگتے ہیں۔ بعض افراد تاہم ایسے بھی ہوتے ہیں کہ آپ لاکھ گدگدی کر لیں، مجال ہے وہ ٹس سے مس بھی ہوں۔
گدگدی کیوں ہوتی ہے؟
گدگدی سے متعلق مختلف سائنسی تصورات موجود ہیں۔ ایک نظریہ یہ کہتا ہے کہ گدگدی جسم کے حساس اور کم زور حصوں کے دفاع کا ایک فطری نظام ہے مگر ایک اور نظریہ کہتا ہے کہ گدگدی سماجی تعلق اور جوڑ کی حوصلہ افزائی سے جڑی ہے۔
بعض افراد کے لیے گدگدی ناقابل برداشت ہوتی ہے، تاہم پھر سوال یہ اٹھتا ہے کہ ایسی باقابل برداشت شے آپ کو ہنسی پر کیسے مجبور کر سکتی ہے؟
سائنس دانوں کے مطابق گدگدی کی صورت میں دماغ کا ہائپوتھالامْس حصہ سرگرم ہو جاتا ہے۔ یہ دماغ کا وہ علاقہ ہے، جو احساساتی ردعمل سے متعلق ہے اور یہی حصہ لڑائی، یا درد کے احساس پر ردعمل کا تعین کرتا ہے۔
سائنس دانوں کا کہنا ہیکہ جب آپ کو گدگدی کی جاتی ہے تو ضروری نہیں کہ آپ خوشی یا مزے والی ہنسی کا اظہار کر رہے ہوں بلکہ یہ خودکار احساساتی ردعمل ہوتا ہے۔ طبی ماہرین تو یہاں تک کہتے ہیں کہ گدگدی کے وقت انسانی جسم ٹھیک ویسے ردعمل عمل کا مظاہرہ کرتا ہے، جیسا شدید تکلیف یا درد کے دوران۔
سابقہ سائنسی مطالعے یہ بتاتے رہے ہیں کہ گدگدی کے وقت جسم کے درد اور چھونے سے جڑے ریسپٹرز حرکت میں آتے ہیں۔ گدگدی کوئی انسان کرے یا مشین، انسانی ردعمل قریب ایک سا ہوتا ہے۔
گدگدی کی اقسام
محققین گدگدی کو دو اقسام میں تقسیم کرتے ہیں۔ ایک گارگالیسیس اور دوسری کنیسمیسس۔ گارگالیسیس قہقہے تب ہوتے ہیں، جب کوئی شخص آپ کے جسم کے گدگدی والے حصوں کو بار بار چھوئے۔ یہ گدگدی خود بہ خود نہیں ہوتی۔
کنیسمیسیس گدگدی تب ہوتی ہے، جب کوئی دھیرے سے آپ کے جلد پر حرکت کرے، تاہم یہ گدگدی عام طور پر ہنسی یا قہقہے کا باعث نہیں بنتی۔ یہ گدگدی خود بہ خود بھی ہو سکتی ہے۔ اس گدگدی میں آپ کو خارش کا سا احساس ہو سکتا ہے۔ عام حالات میں یہ گدگدی ‘تنگی یا پریشانی‘ کے احساس سے جڑی ہوتی ہے، اس لیے آپ اسے گدگدی سے جوڑتے تک نہیں۔
گدگدی کہاں ہوتی ہے؟
گدگدی جسم کے کسی بھی حصہ پر ہو سکتی ہے، تاہم گدگدی کے عمومی علاقے پیٹ، پہلو، بغل، پاؤں اور گردن ہیں۔ گدگدی کو جسمانی دفاعی نظام کا حصہ قرار دینے والے عموما? یہ دلیل دیتے ہیں کہ یہ تمام حصے نازک ہیں اور جسم ان کو بچانے کے لیے فوری ردعمل کا مظاہرہ کرتا ہے۔
گدگدی کی عمر؟
نومولود بچوں کو گدگدی نہیں ہوتی۔ سائنس دانوں کے مطابق گدگدی کے احساس کا آغاز نومولود بچوں میں چار ماہ کی عمر سے ہوتا ہے جب کہ گدگدی پر ردعمل کا آغاز یہ بچے چھ ماہ کی عمر سے کرتے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ممکن ہے کہ بچوں کو گدگدی کا احساس تو ہوتا ہو، تاہم وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ یہ احساس پیدا کیوں ہو رہا ہے۔
ہر قہقہہ مزہ نہیں دیتا
قہقہے کو عمومی طور پر خوشی یا لطف کے اظہاریے سے جوڑا جاتا ہے، تاہم گدگدی کے معاملے میں ضروری نہیں کہ یہ سچ ہو۔ بعض افراد گدگدی پر پرلطف قہقہے لگاتے ہیں اور اس کا لطف لیتے ہیں مگر بعض افراد گدگدی سے بالکل لطف نہیں لیتے۔ تاہم گدگدی کا لطف لینا ہے، تو جسم کے ان حصوں پر گدگدی کریں، جن پر گدگدی کا احساس قدرے کم ہوتا ہے۔
مثال کے طور پر ہتھیلی یا پاؤں کا اوپری حصہ یا ہاتھ کا پچھلا حصہ۔ گدگدی کو پرلطف بنانے کا ایک اور طریقہ یہ ہے کہ لطیف انداز اپنائیے اور ہاتھ کی بجائے کسی پر کا استعمال کریں تو اور اچھا ہے۔ گدگدی کا لطف لینا ہے، تو جارحانہ انداز ہرگز مت اپنائیے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔