خاتون اول کے خلاف جو الفاظ استعمال ہوئے اس کا مقصد ان کو گالی دینا ہے، شہباز گل

ویب ڈیسک  جمعرات 21 اکتوبر 2021
گالی لکھو گے تو گالی ہی جواب میں ملے گی، شہباز گل۔ فوٹو : فائل

گالی لکھو گے تو گالی ہی جواب میں ملے گی، شہباز گل۔ فوٹو : فائل

 اسلام آباد: معاون خصوصی شہباز گل کا کہنا ہے کہ خاتون اول کے خلاف جو الفاظ استعمال ہوئے اس کا مقصد ان کو گالی دینا ہے۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران معاون خصوصی شہباز گل نے کہا کہ پچھلے 3 سے 4 ماہ سے لگاتار ایک مہم چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے لہذا اخلاقی گراوٹ کے معاملے پر بات کرنا بہت ضروری ہے، خاتون اول پر بار بار حملہ کیا جاتا ہے اور تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے تاہم محترمہ کلثوم نواز کی ذات پر کبھی کوئی بات نہیں کی گئی، عمران خان اچھے لگتے ہیں یا برے آپ سیاست کریں، عمران خان کے ساتھ کوئی اختلاف ہے تو تنقید کریں۔

شہبازگل نے کہا کہ خاتون اول عمران خان کی بیوی ہونے سے پہلے اس قوم کی بیٹی اور ایک ماں ہیں لہذا جب ان پر بات کی جاتی ہے تو سوچیں ان کے بچے کیا محسوس کرتے ہوں گے، خاتون اول ایک غیر سیاسی خاتون ہیں، ان کے بچے ہیں، نواسے ہیں، سوچیں ذرا آپ کی ماں کی تحقیر کی جائے تو آپ کو کیسا محسوس ہوگا، آپ کے پاس اگر ثبوت ہیں تو آپ بے شک خاتون اول کے خلاف خبر کریں، اس طرح کے الفاظ استعمال کرنے کا مقصد ان کو گالی دینا ہے، آپ بکرے کٹنے، جادو ٹونے اور پتا نہیں کیا کیا لکھتے ہیں۔

معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ آپ کے پاس ثبوت ہیں تو آپ بالکل لکھیں، کل کو آپ کسی پر یورینیم رکھنے کا الزام لگا دیں تاہم کوئی اسکینڈل نہیں ملا تو جادو ٹونے اور سوئیوں تک پہنچ گئے ہیں، آپ کے والدین کو آپ پر شرم آتی ہوگی، یقینا انہوں نے ایسی تربیت نہیں کی ہوگی۔

شہباز گل نے کہا کہ کچھ سیاسی اور صحافتی بیمار ذہنیت مل کر ملک کی اخلاقیات تباہ کررہے ہیں، معاشرے کی کچھ اخلاقیات ہوتی ہیں، آرٹیکل لکھنے والی ایک خاتون دن میں 53 مرتبہ مریم نواز سے فون پر بات کرتی ہیں، مریم صفدر کے علاوہ نواز شریف کی ایک اور بیٹی ہیں ہمیں ان کے نام کا بھی علم نہیں، شہباز شریف کی بھی بیٹیاں ہیں، وہ سیاست میں نہیں، شہباز شریف کی بیٹیاں ہماری بہنیں ہیں، وہ دربار پر جاتی ہیں یا میلاد پر، ہمیں کوئی غرض نہیں۔

شہباز گل کا کہنا تھا کہ میں حیران ہوں بی بی سی جیسے ادارے نے ان کو ایک عورت کی تحقیر کیوں کرنے دی، جب لوگوں کی ماؤں بہنوں کو گالیاں دی جاتی ہیں تب صحافت کہاں سو رہی ہوتی ہے لہذا گالی لکھو گے تو گالی ہی جواب میں ملے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔