افغان خواتین کے نام پر طالبان کی مخالفت ؟ ( آخری قسط)

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 22 اکتوبر 2021
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

15اگست 2021ء کے بعد افغانستان پر طالبان کے مکمل قبضے سے افغانستان کا وہ طبقہ زیادہ تر نالاں اور ناراض ہے جو افغانستان پر امریکی قبضے کے دو عشروں کے دوران اعلیٰ تعلیم اور اچھی ملازمتوں سے مستفید ہوتا رہا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ افغانستان پر امریکا کے قبضے کے20برسوں کے دوران لاتعداد افغان خواتین اور نوجوان بچیوں نے جدید تعلیم کے مواقعے سے بھرپور استفادہ کیا ہے۔ اس عرصہ کے دوران افغان خواتین میڈیا میں بھی آئیں، سفارتکار بھی بنیں، یونیورسٹیوں کی پروفیسرز بھی ہُوئیں ، کھیلوں میں بھی بھرپور حصہ لیا، پارلیمنٹ کی رکن بھی منتخب ہُوئیں اور خواتین کو کئی افغان صوبوں کی گورنرز بھی بنایا گیا۔

اب مگر طالبان کے اقتدار میں آجانے کے بعد حالات تیزی سے تبدیل ہُوئے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ افغان خواتین کئی سخت پابندیوں کی زَد میں آئی ہیں۔ نئے طالبان نے نئی اسٹریٹجی یہ اختیار کی ہے کہ دُنیا کے سامنے پڑھی لکھی خواتین کی ملازمتوں کی مخالفت تو نہیں کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ ’’ ہم اپنی خواتین کے لیے بھی، اسلامی ضوابط کے مطابق، ملازمتوں میں گنجائش پیدا کریں گے۔‘‘ یہ اعلان مبہم ہے اورابھی تک اس اعلان پر عمل کرنے کی بھی کوئی شکل نظر نہیں آ رہی ۔ اِسی بنیاد پر افغان خواتین کی پریشانی بجا ہے ۔

مثال کے طور پر 5اکتوبر2021 کو امریکی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہُوئے واشنگٹن میں افغانستان کی سفیر محترمہ عدیلہ راز ( وہ ابھی تک اپنی ملازمت پر قائم ہیں) نے امریکی صدر سے گلہ کرتے ہُوئے کہا ’’افغانستان میں طالبان کی آمد کے بعد افغان خواتین سے جو ناانصافی ہو رہی ہے ، امریکی صدر جو بائیڈن کو اس کی کوئی پروا ہے نہ وہ افغان خواتین کے بنیادی حقوق کے تحفظ پر زور دے رہے ہیں۔

حیرانی اور دُکھ کی بات ہے کہ طالبان نے اقتدار میں آتے ہی افغانستان بھر میں لڑکیوں کے ہائی اسکولز بند کر دیے لیکن امریکا طالبان پر دباؤ نہیں بڑھا رہا۔‘‘ عدیلہ راز صاحبہ کا یہ شکوہ بجا لگتا ہے لیکن جس ماحول میں طالبان پیدا ہُوئے ، پروان چڑھے اور اُن کی تربیت ہُوئی ، وہاں تو خواتین بارے ایسی ہی سوچ ساتھ ساتھ پنپتی رہی۔ ایسے میں یہی فاتح طالبان اب اقتدار حاصل کرنے کے بعد افغان خواتین بارے، اپنی تعلیم و تربیت کے برعکس، کیسے کوئی قدم فوری اُٹھا لیں؟اس پس منظر میں خلیجی عرب ملک کے ایک معروف اخبار نے اگلے روز علی ایم لطیفی کی ایک مفصل رپورٹ شایع کی ہے ۔

یہ رپورٹ افغانستان کے بڑے بڑے شہروں میں تعلیم یافتہ خواتین سے ملاقاتیں کرکے مرتب کی گئی ہے۔ان میں زیادہ تر خواتین طالبان کے اقتدار سنبھالنے سے پہلے افغانستان کے مختلف سرکاری محکموں اور این جی اوز میں ملازمتیں کرکے اپنے بال بچوں کا پیٹ پال رہی تھیں۔ اب ان کی اکثریت ملازمتوں سے محروم ہو چکی ہے۔‘‘

تورپکئی مومند اور جمیلہ افغانی بھی اُن اعلیٰ تعلیم یافتہ افغان خواتین میں شامل ہیں جو طالبان کی آمد سے قبل افغانستان کے محکمہ تعلیم میں اعلیٰ خدمات انجام دے رہی تھیں۔ اس لیے دونوں ہی افغان خواتین اور افغان بچیوں کے تعلیمی مسائل سے خوب آ گاہ ہیں۔ دونوں ہی نے گزشتہ دنوں ایک غیر افغانی میڈیا سے بات چیت کرتے ہُوئے یوں کہا ہے : ’’ طالبان کو ہم خواتین سے عناد کیوں ہے ؟ ہمارے بنیادی حقوق کیوں غصب کیے جا رہے ہیں؟ افغان خواتین کو خصوصی طور پر تعلیم سے کیوں محروم کیا جارہا ہے ؟۔‘‘ وہ کہتی ہیں کہ اِس وقت افغانستان میں95لاکھ بچے اسکولوں میں زیر تعلیم ہیں، اور ان میں نصف سے زیادہ تعداد میں بچیاں ہیں ۔

’’کیاان بچیوں پر تعلیم کے دروازے بند کرنا ظلم نہیں ہے ؟ کیا اسے افغان کلچر کے نام پر افغان خواتین کا استحصال نہیں کہا جائے گا؟۔‘‘تورپکئی کہتی تو ٹھیک ہیں لیکن انھیں طالبان حکمران تسلیاں دے رہے ہیں کہ کچھ عرصہ صبر کریں۔ برطانوی اخبار ’’فنانشل ٹائمز‘‘ نے 19اکتوبر2021 کو طالبان اور افغان خواتین کی باہمی کشمکش پرAfghan Women resist the return of Taliban,s segregationکے زیر عنوان ایک تفصیلی رپورٹ شایع کی ہے اور بتایا ہے کہ افغان خواتین، طالبان کے نئے دَور میں اپنے حقوق سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں۔طالبان نے اس رپورٹ کو ’’ اشتعال انگیز‘‘ اور ’’گمراہ کن‘‘ قرار دیا ہے۔

کچھ نئے مسائل بھی سامنے آ رہے ہیں۔ مثال کے طور پر مقتدر طالبان نے اعلان کیا ہے کہ ا فغان بچیوں کے لیے نیا نصاب مرتب کیا جارہا ہے اور جب تک نیا نصاب تیار نہ ہو جائے ، لڑکیوں کو اسکولز شاید نہ بھیجا جا سکے ۔افغان خواتین بارے افغان طالبان کے ان فیصلوں کا احوال جب کچھ اضافہ جات کے ساتھ مغربی میڈیا میں شایع ہوتا ہے تو افغانستان کی امداد کرنے والی ڈونر ایجنسیاں اپنے ہاتھ کھینچ لیتی ہیں۔طالبان کو اس بارے کوئی ڈکٹیشن نہیں دی جا سکتی، اس لیے عالمی اداروں کے لیے خود کو قابلِ قبول بنانے کے لیے قدم بھی انھیں خود ہی اُٹھانے ہیں ۔

11اکتوبر2021کو اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل، انتونیو گوتریس، نے عجب بیان دیا:’’ طالبان نے افغان خواتین اور لڑکیوں سے کیے گئے تمام وعدے توڑ دیے ہیں۔‘‘ اس بیان کو شاید کوئی بھی نظر انداز نہیں کر سکتا۔ افغان طالبان کا مگر پھر بھی اصرار ہے کہ ہمیں افغان خواتین بارے حتمی فیصلہ کرنے کے لیے وقت دیا جائے۔ یہ حقیقت بھی مگر اپنی جگہ ہے کہ طالبان کی آمد کے بعد افغانستان کی یونیورسٹیوں میں طالبات اور خواتین اساتذہ کے لیے حالات حوصلہ افزا نہیں رہے۔

مثلاً:کابل یونیورسٹی میں فائن آرٹس کی پروفیسر، فاطمہ حسینی، کہتی ہیں: ’’ طالبان کی آمد کے بعد ہماری یونیورسٹی میں فائن آرٹس کے تقریباً تمام شعبے بند کر دیے گئے ہیں ۔ ‘‘ مسعودہ سلطان نامی ایک افغان نژاد امریکی خاتون افغانستان کے مختلف شہروں میں لڑکیوں کے کئی اسکولز مفت چلا رہی تھیں ۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’ طالبان کی آمد کے بعد سب سے زیادہ منفی اثرات افغان لڑکیوں کو سہنا پڑ رہے ہیں۔ ہمارے اکثر اسکولز بند کر دیے گئے ہیں‘‘ ۔اور ’’یونیسف‘‘ ایسے عالمی ادارے کی تازہ ترین رپورٹ یہ ہے کہ پچھلے کئی مہینوں سے افغانستان کی ایک لاکھ سے زائد استانیوں کو تنخواہ نہیں ملی ہے۔ اکتوبر 2021 کے وسط میں یورپی یونین(EU) نے افغانستان کے لیے جو ایک ارب یورو کی امداد کا اعلان کیا ہے ، اُمید کی جا سکتی ہے کہ شاید اس امداد سے افغان خواتین کی بھی سُنی جائے۔      ( ختم شد)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔