زندگی خوبصورت ہے

عابد محمود عزام  جمعـء 22 اکتوبر 2021

زندگی نشیب و فراز کا سلسلہ ہے ، جس میں کبھی خوشیاں ہمارا استقبال کرتی ہیں تو کبھی غموں کے پہاڑ سر اٹھائے سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ انسان خوشیوں کو تو جلد ہی بھول جاتا ہے، لیکن غموں اور پریشانیوں کو خود پر سوار کر لیتا ہے اور انھیں ہی سوچتا رہتا ہے۔ مسائل ، مشکلیں ، آزمائشیں اور الجھنیں زندگی کا حصہ ہیں۔ ان کی وجہ سے وقت طویل سے طویل تر ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔

انسان بنیادی طور پر جلد باز واقع ہوا ہے۔ اسے فوری طور پر سب کچھ اس کی مرضی اور منشا کے مطابق نہیں ملتا تو وہ نا امید ہوجاتا ہے۔ وہ مایوسی کی تاریکی میں اپنی امید اور اپنا یقین کھو بیٹھتا ہے۔ زندگی کی حقیقت مگر یہ ہے کہ اس میں مشکلات اور آسانیاں ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔

مشکلات کے بعد آسانیاں آہی جاتی ہیں ، غم غلط ہوجاتے ہیں ، آزمائشیں ٹل جاتی ہیں ، آفتیں گزر جاتی ہیں ، ناکامیاں لوٹ جاتی ہیں۔ لاحاصل حاصل ہوجاتا ہے۔ سکھ اگر ہمیشہ نہیں رہتا تو دکھ بھی سدا نہیں رہتا، لیکن اہم بات یہ ہے کہ انسان کو کبھی مایوس نہیں ہونا چاہیے ، امید اور یقین کا دیا جلاتے رہنا چاہیے۔ مایوسی کے اندھیرے میں امید کے چراغ کی روشنی انسان کی سوچ کو منور کردیتی ہے۔ وہ سمجھ جاتا ہے کہ یہ پریشانیاں اور مشکلات عارضی ہیں۔

پریشانیاں ہر کسی کی زندگی کا حصہ ہیں۔ ہم سب کو زندگی میں نہ چاہتے ہوئے بھی بہت کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ بہت سے حالات و واقعات کو، بہت سے لوگوں اور ان کے رویوں کو ، بہت سے رسوم و رواج کو اور بہت سے نظریات و افکار کو ناپسند کرتے ہوئے بھی ہم برداشت کرتے ہیں۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں ، لیکن کر نہیں سکتے۔ بہت کچھ کہنا چاہتے ہیں ، لیکن کہہ نہیں سکتے۔ کسی کو دیکھنا نہیں چاہتے ، لیکن ملنا پڑتا ہے۔ کسی جگہ رہنا نہیں چاہتے ، لیکن وہاں رہنا پڑتا ہے۔ زندگی میں بہت کچھ ایسا ہوتا ہے ، جو انسان کی مرضی کے خلاف ہوتا ہے۔

انسان مجبور ہوتا ہے ، اسے سمجھوتا کرنا پڑتا ہے ، وہ اذیت برداشت کرتا ہے، لیکن پھر بھی اسے سب کچھ قبول کرنا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کے پاس کوئی راستہ نہیں ہوتا۔ یہ سب کچھ زندگی کا حصہ ہوتا ہے ، کوئی بھی انسان اس سے بھاگ نہیں سکتا۔ یہ قدرت کا نظام ہے۔

بہت سے لوگ چاہتے ہیں کہ ان کی زندگی میں کوئی پریشانی نہ آئے اور یہی خواہش مزید بہت سی پریشانیوں کو جنم دیتی ہے۔ خود سوچیں کہ ایسا کیسے ممکن ہے کہ ہم ایک طویل زندگی گزاریں اور اس میں کوئی رنج و الم نہ آئے ، اگر ایک شہر سے دوسرے شہر تک چند میل کا سفر کرنا ہو تو بھی راستے میں کبھی کھڈے اورکبھی ہموار زمین آتی ہے۔ اس مختصر سے سفر کے دوران لمحہ بہ لمحہ حادثے کا خوف ساتھ رہتا ہے۔ اس مختصر سفر میں ہم سب کچھ برداشت کرتے ہیں۔

زندگی کا سفر تو اس سے بہت ہی طویل ہے ، اس میں مصائب و آزمائشوں کے مواقعے بھی زیادہ ہیں۔ ان مواقع پر برداشت اور ثابت قدمی کا دامن تھام کر ہی انسان منزل مقصود تک پہنچ سکتا ہے۔ کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ اس نے زندگی میں جو چاہا ، وہ ملا۔ جس چیز کی خواہش کی ، وہ پوری ہوئی۔

جو مانگا ، وہ حاصل ہوا۔ یہ واقعی پر سکون اور قابل رشک زندگی ہے ، لیکن یقین جانیں ایسی کہانی سنانے والا شخص اپنے دعوے میں سچا نہیں ہوسکتا ، کیونکہ ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ کوئی انسان جو بھی چاہے، وہ اسے مل جائے۔ زندگی میں سب کچھ حاصل نہیں ہوتا ، کسی کا ’’کاش ‘‘ اور کسی کا ’’اگر ‘‘ رہ ہی جاتا ہے۔

کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا

کہیں زمین کہیں آسماں نہیں ملتا

(ندا فاضلی )

مطمئن نہ ہونا انسانی فطرت میں شامل ہے۔ انسان جستجو کرتا ہے کہ فلاں مقام حاصل کرلوں ، وہ مقام حاصل ہوجاتا ہے۔ اْس سے آگے کی منزل بھی پا لیتا ہے۔ ایک کے بعد دوسری اور دوسری کے بعد تیسری منازل حاصل کرتا جاتا ہے، مطمئن پھر بھی نہیں ہوتا۔ وہ مسلسل آگے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔

موت ہی اس کا راستہ روکتی ہے ، ورنہ انسان رکنا نہیں چاہتا۔ دور حاضر کا انسان یہ نہیں سوچتا کہ جو میرے پاس ہے، وہ دوسرے کے پاس نہیں۔ وہ یہ سوچتا ہے کہ جو دوسروں کے پاس ہے ، وہ میرے پاس نہیں ہے ، وہ بھی میرے پاس ہونا چاہیے۔ وہ ہر وقت کسی نہ کسی سوچ میں سرگرداں رہتا ہے اور اسی دوڑ میں بے سکونی و بے اطمینانی میں زندگی گزارتا ہے۔

زندگی بھر خواہشات کے دائروں میں گھومتا رہتا ہے، جب خواہشات پوری نہیں ہوتیں تو اس کا ذہن الجھنوں سے دوچار ہوجاتا ہے۔ عام آدمی سمجھتا ہے کہ دکھ صرف عام لوگوں کی زندگی میں ہیں، حقیقت مگر یہ ہے کہ پریشان سب ہیں ، لیکن ہر ایک کی پریشانیوں اور دکھوں کی نوعیت مختلف ہے۔ دنیا میں رہنے والے ہر انسان کو زندگی میں، دکھ درد، غمی، محرومیوں اور آزمائشوں کا سامنا ضرورکرنا پڑتا ہے۔

کسی کی زندگی پر سکون اور بے فکر نہیں ہوتی۔ ڈھنگ سے وہی لوگ جیتے ہیں، جو اس بات کو سمجھ جاتے ہیں کہ زندگی خوبصورت ہے، یہ ضایع کرنے کی چیز نہیں۔ اسے خود انسان خوبصورت بناتا ہے۔ جوناتھن فیلڈز نے دنیا گھوم کر بہت کچھ دیکھا اور سیکھا۔ اس نے مفکرین ، مصلحین ، محققین اور دیگر اہلِ دانش سے بات چیت کی۔ مذہبی پیشواؤں سے بھی ملاقات کی اور یہ جاننا چاہا کہ انسان زیادہ سے زیادہ مسرت کا حصول کس طور یقینی بنا سکتا ہے۔

جوناتھن نے اپنی کتاب میں بتایا کہ اچھی زندگی بسرکرنا ناممکن نہیں، مگر اس کے لیے غیر معمولی محنت کرنا پڑتی ہے، کیونکہ اس میدان میں مقابلہ کسی اور سے نہیں ، بلکہ اپنی ذات سے ہوتا ہے۔ جو لوگ چاہتے ہیں کہ زندگی میں حقیقی مسرت کا حصول ممکن بنایا جائے ، انھیں یہ نکتہ کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ اچھی زندگی کوئی مقام نہیں جس تک پہنچا جائے۔ اچھی زندگی تو وہ عینک ہے جس سے ہم دنیا کو دیکھتے ہیں اور اپنی مرضی کا ماحول تیار کرتے چلے جاتے ہیں۔ یہ عمل بہت حد تک ہماری پسند و نا پسند پر منحصر ہے۔

زندگی کس طرح اورکیسی گزارنی ہے، اس کا فیصلہ ہمیں کرنا ہے۔ زندگی کورے کاغذ کی مانند ہوتی ہے، جس پر ہم وقت کی روشنائی سے اپنے غم اور خوشیاں لکھتے ہیں۔ ہمیں زندگی کے خوشگوار لمحات کو سنہری حروف سے لکھنا چاہیے ، تاکہ اس کی خوبصورتی کا احساس اس سے جڑی بے شمارخامیوں کے باوجود سلامت رہے۔ خوبصورت زندگی خود بخود نہیں بنتی ، اس کی تعمیر روزانہ ہوتی ہے اور یہ تعمیر انسان اپنی سوچ ، رویوں اور عمل سے کرتا ہے۔ مثبت سوچ کے ساتھ تعمیر کی گئی زندگی کی عمارت اتنی مضبوط ہوتی ہے کہ آزمائشوں اور پریشانیوں کے طوفان بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔

ہمیشہ اس یقین کے ساتھ زندگی گزارنی چاہیے کہ ہمارے اردگرد بے شمار خوشیاں ہماری منتظر ہیں۔ ہمارا کام صرف ان کی کھوج لگانا ہے۔ اگر ہم اپنے نصیب کو جگانا چاہتے ہیں تو اپنے ذہن سے ہر قسم کی منفی باتوں ، منفی عادتوں اور منفی رویوں کو نکال باہر پھینکنا ہوگا۔ ہمیں اپنے دماغ کو ہر طرح کے حالات سے خوشیاں کشید کرنے اور پر امید رہنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔