بلوچستان کی ساحلی پٹی، اب کچھووں کےلیے غیر محفوظ

ظریف بلوچ  جمعـء 22 اکتوبر 2021
گوادر، جیوانی، پسنی، اور کلمت کے ساحلی علاقوں میں 2020 کے دوران تقریباً 50 سبز اور زیتونی کچھوے مردہ پائے گئے۔ (تصاویر: بلاگر)

گوادر، جیوانی، پسنی، اور کلمت کے ساحلی علاقوں میں 2020 کے دوران تقریباً 50 سبز اور زیتونی کچھوے مردہ پائے گئے۔ (تصاویر: بلاگر)

کورونا وبا کی پہلی لہر دنیا بھر میں پھیل چکی تھی۔ سرکاری دفاتر اور ٹرانسپورٹ سمیت، سمندر میں مچھلیوں کے شکار پر بھی پابندی تھی۔ یہ 20 مارچ 2020 کی ایک گرم رات تھی کہ اسٹولہ جزیرے سے آنے والے سیاحوں کی ایک ٹولی کے رکن نے مجھے بتایا کہ ہم نے پلاسٹک کے جالوں میں جکڑے ہوئے بیس سے زائد سبز کچھووں کے بچے آزاد کرکے واپس سمندر میں چھوڑ دیئے ہیں۔ آبی حیات سے دلچسپی رکھنے والے ماہرین اور لکھاریوں کےلیے ایک اچھی خبر تھی کہ مقامی لوگ فشریز وسائل کو اپنا سمجھ کر ان کا تحفظ کررہے ہیں۔ اسٹولہ جزیرہ چونکہ پسنی سے 39 کلومیٹر دور ہے اس لیے وہاں ہر وقت سیاحوں کی آمدورفت نہیں رہتی۔

یاد رہے کہ اسی مہینے جیوانی کے ایک ساحلی مقام ”بندری“ میں سات زیتونی کچھوے (Olive Ridley) مردہ حالات میں پائے گئے تھے جو حالیہ کچھ عرصے میں کچھووں کی ایک ساتھ مردہ ملنے والی بڑی تعداد بھی تھی۔

کراچی یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف میرین سائنسز میں معاون پروفیسر شعیب کیانی کے مطابق، زیتونی کچھوے پاکستانی پانیوں میں بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں مگر 2005 کے بعد یہاں انڈے دینے نہیں آ رہے ہیں۔ اب کچھووں کی یہ قسم اپنی افزائش نسل کےلیے بھارت، عمان اور یو ای اے کے ساحلوں کی طرف جاتی ہے۔

ایسا کیوں ہورہا ہے؟ یہ معما حل کرنے کےلیے تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ اس بات کی کھوج لگائی جاسکے کہ کچھووں کی یہ قسم انڈے دینے کےلیے پاکستان کیوں نہیں آتی؛ کیونکہ ماضی میں یہ کچھوے کراچی کے ساحل پر یہ انڈے دیا کرتے تھے۔

جیوانی سے لے کر گڈانی تک پھیلی ہوئی بلوچستان کی ساحلی پٹی انواع و اقسام کی سمندری مخلوقات کا مستقل مسکن ہے۔ اس طویل ساحلی پٹی میں نایاب اور معدومیت کے خطرے سے دوچار سمندری مخلوقات پائی جاتی ہے۔ وہیل اور دوسرے بڑے سمندری جانوروں کی موجودگی سے اس بات کو مذید تقویت ملتی ہے کہ بلوچستان کی ساحل پٹی آبی حیات کے حوالے سے زرخیز ہے۔

بلوچستان کے ساحلی پٹی میں معدومیت کے خطرے سے دوچار اور نایاب نسل کے کچھوے نہ صرف پائے جاتے ہیں بلکہ یہاں افزائش نسل بھی کرتے ہیں جبکہ حالیہ کچھ عرصے میں کچھووں کی بڑی تعداد میں اموات سے آبی حیات کے ماہرین شدید تشویش میں مبتلا ہیں۔

مکران کے ساحلی علاقوں میں کچھوے کہاں پائے جاتے ہیں؟

ایرانی سرحد سے متصل بلوچستان کے آخری ساحلی شہر جیوانی سے 10 کلومیٹر دور ساحلی پٹی ”دران بیچ،“ اورماڑہ کے حسین اور دلفریب ساحلی علاقے ”تاک،“ پسنی سے 39 کلومیٹر دوری پر واقع پاکستان کا سب سے بڑا جزیرہ اسٹولہ نہ صرف مختلف اقسام کے کچھووں کا عارضی مسکن ہے بلکہ اسی ساحلی علاقے میں یہ کچھوے انڈے بھی دیتے ہیں۔

کچھوا شرمیلا جانور ہونے کی وجہ سے ساحل کے قریب شور، روشنی، آواز کی موجودگی میں انڈے نہیں دیتا بلکہ افزائش نسل کےلیے انسانی آبادی سے دور پرسکون ساحلوں کا رخ کرتا ہے۔ ورلڈ وائیڈ فنڈ فار نیچر (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کے ٹیکنیکل ایڈوائزر (میرین فشریز) محمد معظم خان کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں سمندری کچھووں کی سات اقسام پائی جاتی ہیں جن میں سے پانچ اقسام پاکستان میں ملتی ہیں۔ ان کے مطابق، سبز کچھوے اور زیتونی کچھوے پاکستانی سمندر میں عام طور پر پائے جاتے ہیں جبکہ باقی تین اقسام شاذ و نادر ملتی ہیں۔

شعیب کیانی کے مطابق صرف سبز کچھوے پاکستانی ساحلوں پر انڈے دینے آتے ہیں۔

کچھوے سمندری ماحولیاتی نظام (ایکوسسٹم) کےلیے اہم کیوں؟

ماہرین حیاتیات کا کہنا ہے کہ سمندری ماحولیاتی نظام (ایکوسسٹم) کو دوام بخشنے میں کچھووں کی خصوصی اہمیت ہے کیونکہ سمندری نظام کو تقویت دینے میں آبی مخلوقات ایک لڑی کی مانند ایک دوسرے کے ساتھ جڑح ہوئی ہیں اور سمندر میں انواع و اقسام کی مخلوقات کی موجودگی سے یہ نظام برقرار ہے۔

لسبیلہ یونیورسٹی آف ایگریکلچر، واٹر اینڈ میرین سائنسز میں انوائرونمنٹل سائنس کے طالب علم اونیس رحیم کہتے ہیں کچھوے کی غذا جیلی فش اور سمندری نباتات ہیں۔ کچھوے سمندری نباتات کو صاف کرتے ہیں جو آبی حیات کےلیے نہایت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہاں مچھلیاں افزائش نسل کےلیے آتی ہیں۔ کچھووں کے اس عمل سے غذائی اجزاء (نیوٹریئنٹس) سمندر سے ساحل پر آتے ہیں۔

اونیس رحیم کے مطابق، کچھوے سمندر کو آلودگی سے صاف رکھنے میں ایک خاکروب جیسا کردار ادا کرتے ہیں جس سے سمندری پیداوار زرخیز ہوتی ہے۔

مادہ کچھووں کے انڈے دینے سے بچوں کے سمندر تک پہنچنے کا عمل

آبی حیاتیات کے ماہرین کے مطابق، مادہ کچھوا انڈہ دینے کےلیے ساحل پر آتی ہے۔ وہ گڑھا تیار کرنے کےلیے رات کی تاریکی میں ریت کی کھدائی کرتی ہے اور ریت کے نیچے پلاسٹک یا ٹھوس اشیاء نکل آنے کی صورت میں مادہ انہیں ہٹا نہیں سکتی۔ تین جگہ گڑھا کھودنے کے بعد بھی اگر یہی صورت حال رہے تو وہ انڈے دیئے بغیر واپس سمندر میں چلی جاتی ہے اور تین دن تک یہ سلسلہ جاری رکھتی ہے۔

مادہ کچھوا تین راتوں تک انڈے دینے کےلیے مناسب جگہ نہ ملنے کی صورت میں اس جگہ دوبارہ کبھی انڈے دینے نہیں آتی اور اس کے جسم میں موجود انڈے آہستہ آہستہ تحلیل ہونے لگتے ہیں اور بالآخر یہ انڈے ضائع ہوجاتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق، کچھووں میں نسل خیزی کا موسم (نیسٹنگ سیزن) جولائی میں شروع ہوتا ہے جو نومبر میں عروج پر پہنچ جاتا ہے۔ کچھوے نیسٹنگ زون میں انڈے دینےکے بعد واپس سمندر کی طرف چلے جاتے ہیں۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف کی ویب سائٹ کے مطابق، کچھوے انڈے دینے کےلیے ہر سال تین سے پانچ مرتبہ ساحل کی طرف آتے ہیں جبکہ ایک مادہ کچھوا ہر سیزن میں 115 کے قریب انڈے دیتی ہے۔ گوادر سے تعلق رکھنے والے ماہر حیاتیات اور گوادر ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر ماحولیات عبدالرحیم بلوچ نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ کہ سبز کچھوے (Green Turtles) کے ایک ہزار انڈوں میں صرف ایک بچہ زندہ بچ پاتا ہے اور انڈا دینے کے بعد 40 سے 45 دنوں کے بعد ان انڈوں سے بچے نکلتے ہیں۔

شعیب کیانی کے مطابق، انڈوں سے نکلنے والے بچے والدین کے سائے سے محروم ہوتے ہیں اور انہیں اپنی بقا کی جنگ اکیلے ہی لڑنی پڑتی ہے۔ سمندر تک پہنچتے پہنچتے زیادہ تر بچے مرجاتے ہیں۔

یاد رہے کہ مکران کے ساحلی علاقوں میں زیادہ تر تحقیق سبز کچھووں پر کئی گئی ہے جبکہ یہاں سبز اور زیتونی کچھوے عام طور پر پائے جاتے ہیں۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف نے سبز کچھوے اور زیتونی کچھوے سمیت کچھووں کی مختلف اقسام کو معدومیت کے خطرے سے دوچار گرے لسٹ میں رکھا ہے۔

کچھووں کی موت کے ممکنہ اسباب

ماہرین آبی حیات بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں کچھووں کی موت کی کئی وجوہ بیان کرتے ہیں۔ ان کے مطابق پلاسٹک کے تھیلے اور استعمال شدہ جال، اوور فشنگ، تیز رفتار بحری جہازوں سے ٹکرانے، ممنوعہ پلاسٹک کے جالوں اور ساحلی علاقوں کے قریب پڑی گندگی کے ڈھیر سمیت اور وجوہ سے کچھوے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

پلاسٹک کے تھیلے اور ممنوعہ جال

ٹوکیو یونیورسٹی میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق، دنیا بھر میں 52 فیصد کچھوے تیرتے ہوئے پلاسٹک بیگ کو جیلی فش سمجھ کر کھاتے ہیں جو ان کے معدے میں پھنس کر ان کی موت کا باعث بن جاتے ہیں۔

شعیب کیانی کا کہنا ہے جیلی فش کچھووں کی مرغوب غذا ہے اور ساحل کے قریب پڑے پلاسٹک کے تھیلوں کو کچھوے جیلی فش سمجھ کر کھانے کی کوشش کرتے ہیں اور یوں لاعلمی میں اپنی موت کو دعوت دے بیٹھتے ہیں۔ آبی ماہرین کے مطابق پلاسٹک کے تھیلے اور جال سیکڑوں سال تک بھی تحلیل نہیں ہوتے اور یہ 400 سے 450 سال تک ساحل پر پڑے رہ سکتے ہیں۔ نمی اور سمندری ہواؤں کی وجہ سے یہ پلاسٹک باریک باریک ذرّات میں تبدیل ہوجاتا ہے جسے ’’مائیکرو پلاسٹک‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ ذرات سمندری پانی میں شامل ہوکر آبی حیات کی تباہی کا باعث بن رہے ہیں۔

آبی آلودگی اور اوور فشنگ

شعیب کیانی اس حوالے سے بتاتے ہیں کہ مختلف ذرائع سے سمندر میں نقصان دہ مواد شامل ہورہا ہیں۔ صنعتی شہروں میں فش کمپنیوں اور کارخانوں کے فاضل مواد سمندر میں مکس ہونے سے سمندر آلودہ ہورہی ہے جبکہ غیرقانونی ماہی گیری (فشنگ) اور بلاتخصیص سمندری مخلوقات کے شکار، اور قدرتی ماحول میں بے جا انسانی مداخلت سے سمندری نظام پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔

اس سے کچھووں سمیت سمندری مخلوقات کی غذائی زنجیر (فوڈ چین) متاثر ہورہی ہے جس کی وجہ یا تو وہ یہاں سے نقل مکانی کرکے دوسرے سرد پانیوں کا رخ کررہے ہیں یا پھر ان کی عمر کم ہورہی ہے۔ شعیب کیانی کے مطابق، کچھ عرصے بعد انسانوں کو معلوم ہوگا کہ کچھوے کتنی تیزی کے ساتھ ختم ہورہے ہیں کیونکہ انسان کی اپنی اوسط عمر ستر سال ہے اس لیے وہ بعض چیزوں کو سمجھ نہیں پا رہا ہے۔

بے جا انسانی مداخلت

اونیس رحیم کے مطابق ساحلوں پر بے جا انسانی مداخلت سے کچھووں کی تعداد گھٹ رہی ہے۔ ساحلوں پر سیر و تفریح کےلیے آنے والے سیاح پلاسٹک کی استعمال شدہ مصنوعات چھوڑ جاتے ہیں اور ماہی گیر پلاسٹک کے ممنوعہ جالوں کو بھی ساحل کے قریب پھینک دیتے ہیں جن میں پھنس کر کچھوے مرجاتے ہیں۔

یہی نہیں بلکہ کچھووں کے نیسٹنگ زون بھی محفوظ نہیں جس کی وجہ سے کچھوے بعض مرتبہ انڈے دیئے بغیر واپس سمندر کی طرف چلے جاتے ہیں اور پھر ان کے انڈے ضائع ہوتے ہیں۔

بروقت ریسکیو نہ ہونا

ماہرین کا کہنا ہے کہ کچھوے بروقت ریسکیو (مدد) نہ ہونے کی وجہ سے مرجاتے ہیں کیونکہ بعض اوقات وہ سمندر کے اندر یا ساحل کے قریب پلاسٹک کے جالوں میں پھنس جاتے ہیں اور بروقت نکالے نہ جانے کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

کچھووں کی اموات زیادہ تر رپورٹ نہیں ہوتیں!

جیوانی سے لے کر گڈانی تک کے ساحلی علاقوں میں کچھووں کی زیادہ تر اموات رپورٹ نہیں ہوتیں کیونکہ یہ ساحل وسیع رقبے تک پھیلا ہوا ہے جہاں مقامی ماہی گیر آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے کچھووں کو اہمیت نہیں دیتے۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف، مقامی تنظیموں اور مقامی لوگوں سمیت مختلف ذرائع سے حاصل شدہ ڈیٹا کے مطابق گوادر، جیوانی، پسنی، اور کلمت کے ساحلی علاقوں میں سال 2020 کے دوران 40 سے 50 کے قریب سبز کچھوے اور زیتونی کچھوے مردہ پائے گئے تھے، جبکہ آبی ماہرین کے مطابق ان کی اصل تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہے۔

ماہرین کے مطابق جیوانی سے گڈانی تک ساحلی علاقوں میں اس وقت کچھووں کی موت کا ڈیٹا کوئی ادارہ ڈیٹا اکٹھا نہیں کررہا۔ البتہ جیوانی کے کچھ ساحلی علاقوں میں ڈبلیو ڈبلیو ایف کچھووں کی اموات کے حوالے سے معلومات ضرور جمع کررہا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈیٹا اکٹھا نہ کرنے کی وجہ سے بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں کچھووں کے مرنے سے متعلق درست اعداد و شمار موجود نہیں۔

کچھووں کے تحفظ اور افزائش نسل بڑھانے کےلیے اقدامات

محمد معظم خان کے مطابق ڈبلیو ڈبلیو ایف نے مقامی تنظیم ’’دران کنزرویشن سوسائٹی‘‘ کے تعاون سے 1999 اور 2008 کے دوران جیوانی کے ساحلی مقام ’’دران‘‘ میں سبز کچھووں کی افزائش نسل پر تحقیق کی اور اس دوران کچھووں کے 2731 بِلوں (nests) تحفظ فراہم کیا جبکہ 91936 بچوں کو محفوظ طریقے سے سمندر میں چھوڑا گیا۔

محکمہ جنگلات و جنگلی حیات گوادر کے ڈپٹی کنزرویشن یار محمد دشتی نے بتایا کہ 2020 میں ان کے محکمے نے کچھووں کے 4900 بچوں کو محفوظ طریقے سے سمندر میں چھوڑا ہے اور کچھووں کے نیسٹگ پوائنٹس کو محفوظ بنانے کےلیے کام کررہے ہیں۔ ان کے مطابق، انڈے سے نکلنے والے بچوں کو آوارہ جانور اور دیگر خطرات سے بچانے کےلیے انہیں حفاظت کے ساتھ سمندر میں چھوڑا جاتا ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ گوادر کے وہ علاقے جہاں کچھوے افزائش نسل کےلیے آتے ہیں، وہاں کچھووں کے تحفظ کےلیے محکمہ جنگلات و جنگلی حیات اپنی تمام تر کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔ یار محمد دشتی نے مزید بتایا کہ ان کا محکمہ روزانہ کی بنیاد پر ”دران بیچ“ میں کچھووں کی نگرانی اور دیکھ بھال کررہا ہے اور نیسٹنگ زون کے تحفظ کے ساتھ ساتھ ساحل پر آنے والے کچھووں کو واپس سمندر میں چھوڑا جاتا ہے۔

شعیب کیانی بتاتے ہیں کہ چونکہ کچھوے ڈائنوسار کے زمانے سے زمین پر موجود ہیں۔ یہ قدرتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اتنی صدیاں گزرنے کے بعد ان کی شکلیں بھی تبدیل نہیں ہوئی ہیں۔

انہوں نے مشورہ دیا کہ یونیورسٹیز اور اکیڈمیوں کو تحقیق کرکے ڈیٹا حکومتی اداروں کو فراہم کرنا چاہیے اور حکومتی ادارے کچھووں کے تحفظ کےلیے جامع اور مربوط منصوبہ بندی کرکے کچھوے کی نسل کو تحفظ فراہم کریں۔ شعیب کیانی بتاتے ہیں کہ ہم نے گذشتہ دو سال تک سینڈزپٹ بیچ کراچی پر ریت میں مائیکرو پلاسٹک چیک کیے جس سے پتا چلا کہ اس علاقے میں پلاسٹک کی وافر مقدار موجود تھی۔ ان کے مطابق، کراچی یونیورسٹی کچھووں پر تحقیق کےلیے مستقبل قریب میں بھی پروگرام جاری رکھے گی۔ شعیب کیانی نے بتایا کہ ماحولیاتی نظام کو دوام بخشنے میں کچھووں کا اہم کردار ہے۔

اونیس رحیم کے مطابق ہمیں یہ جاننے کےلیے تحقیق کرنا ہوگی کہ کن عوامل کی وجہ سے کچھووں کی تعداد گھٹ رہی ہے۔ وہ مزید بتاتے ہیں کہ کچھووں کی کمی سے ماحولیاتی نظام متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ ان کے مطابق مقامی لوگوں میں کچھووں سمیت آبی حیات کے تحفظ کے حوالے سے آگاہی فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ ایک بڑا سوال ہے کہ کچھوے کی اوسط عمر ستر سال کے قریب ہوتی ہے، اس کے باوجود کچھوے کیوں معدوم ہورہے ہیں؟

شعیب کیانی کے مطابق دنیا بھر میں کچھووں کی زیادہ اموات ماہی گیر جالوں میں پھنسنے اور بحری جہازوں سے ٹکرانے کے نتیجے میں ہورہی ہیں۔

اس وقت بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں کچھووں کے تحفظ کےلیے کوئی ادارہ تحقیق نہیں کررہا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ مقامی ماہی گیروں کو کچھووں سمیت آبی حیات کے اہمیت کے حوالے سے آگاہی فراہم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مقامی لوگ بھی معدومیت کے خطرے دوچار آبی حیات کے تحفظ میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ظریف بلوچ

ظریف بلوچ

مکران کے ساحلی شہر پسنی سے تعلق رکھنے والے بلاگر ظریف بلوچ LUAWMS یونیورسٹی اوتھل میں ایم فل پولیٹیکل سائنس کے طالب علم ہیں۔ سیاحت، ثقافت اور سیاحت پر فیچر اسٹوریز لکھتے ہیں جبکہ مکران کی سیاسی صورتحال پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں۔ آگاہی ایوارڈ بھی جیت چکے ہیں۔ ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔