جنوبی ایشیا کا ایک ادھورا خواب

اکرام سہگل  ہفتہ 23 اکتوبر 2021

بنگلادیش اپنے اسٹرٹیجک محل وقوع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بین الاقوامی ٹریفک کے لیے کھلے دروازے کی پالیسی پر سرگرمی سے عمل پیرا ہے، یہ ایڈوانٹیج سمندر تک آسان رسائی اور ایشیا کے مشرقی اور جنوبی حصوں کے درمیان ایک گیٹ وے کے طور پر موجودگی کے معنوں میں ہے۔

اسی کے پیش نظر بنگلادیشی حکومت مختلف علاقائی تعاون کے فورمز کے ذریعے پڑوسی ممالک کے ساتھ روڈ کنیکٹویٹی کو بہتر بنانے کی کوششیں کرتی رہی ہے، جیسا کہ ساؤتھ ایشین ایسوسی ایشن فار ریجنل کوآپریشن (سارک)، ساؤتھ ایشیا سب ریجنل اکنامک کوآپریشن (ایس اے ایس ای سی)، بے آف بنگال انسٹی ٹیوٹ فار ملٹی سیکٹرل ٹیکنیکل اینڈ اکنامک کوآپریشن (BIMSTEC)، اور بنگلادیش چین انڈیا میانمار (BCIM)۔

بنگلادیش نے 2009 میں ایشین ہائی وے نیٹ ورک میں شمولیت اختیار کی جسے گریٹ ایشین ہائی وے بھی کہا جاتا ہے۔ یہ تعاون کا ایک منصوبہ ہے جو ایشیا اور یورپ کے ممالک اور اقوام متحدہ (یو این اکنامک اینڈ سوشل کمیشن فار ایشیا اینڈ دی پیسیفک) کے درمیان ہے، تاکہ ایشیا میں ہائی وے سسٹمز کو بہتر بنایا جا سکے۔

یہ ایشین لینڈ ٹرانسپورٹ انفرااسٹرکچر ڈویلپمنٹ (ALTID) منصوبے کے تین ستونوں میں سے ایک ہے۔ اس پروجیکٹ کا مقصد براعظم کی موجودہ شاہراہوں کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرنا ہے تاکہ نئی سڑکوں کی تعمیر سے بچا جا سکے، سوائے ان صورتوں کے جہاں راستے ہی نہ ہوں اور ان کی تعمیر کی ضرورت ہو۔

جہاں تک روڈ کنیکٹویٹی کی بات ہے، بنگلادیش میں ایشین ہائی وے روٹ کی فزیکل الائنمنٹ اب تک کم و بیش مکمل ہو چکی ہے۔ بنگلادیشی حکومت نے ملک میں ایشین ہائی وے نیٹ ورک کے تقریباً پورے حصے کو مرحلہ وار اپ گریڈ کرنے کا منصوبہ بنایا ہے، تاکہ بنگلادیش سے باہر موجود ایسے نیٹ ورکس کے ساتھ ہم آہنگی پیدا ہو۔

یہ اقدام بنگلادیشی حکومت نے دو نئی ڈیپ سی پورٹس تعمیر کرنے کے منصوبوں کے سلسلے میں اٹھایا ہے، جن میں سے ایک چٹاگانگ کے جنوب میں مترباری میں اور دوسرا خلیج بنگال کے قریب رمناباد چینل پر واقع پائیرا میں تعمیر ہوگی۔ امکان ہے کہ 2025 تک ان دونوں زیر تعمیر گہری سمندری بندرگاہوں پر کاروبار شروع ہو جائے گا۔

نقشے کو دیکھا جائے تو بنیادی طور پر رابطے کے تین شمال جنوبی روٹس ذہن میں آتے ہیں۔ پہلا راستہ وہ ہے جو چین/تبت سے نیپال اور بھارت کے راستے آتا ہے، جو خلیج بنگال پر بنگلادیش کی مغربی بندرگاہوں (مونگلا یا آنے والی بندرگاہ پائرا) تک پہنچتا ہے۔ اس کنکشن کے کچھ حصے پہلے ہی موجود ہیں، لیکن کچھ دوسرے حصے ابھی تک غائب ہیں۔

2016 میں چین نے تجارت کو فروغ دینے کے مقصد سے نیپال کے لیے چائنا نیپال فرینڈشپ روڈ کی تعمیر کا اعلان کیا تھا، یہ سڑک اور ریل کنکشن کا منصوبہ تھا۔ یہ چین کے مغربی گانسو صوبے سے شروع ہوتا ہے، اور تبت میں شیگیٹس کے ذریعے کھٹمنڈو پہنچتا ہے، شیگیٹس مغرب میں تبت ریلوے نیٹ ورک کا آخری پوائنٹ ہے، اس کے بعد سامان کھٹمنڈو تک روڈ ٹرانسپورٹ کے ذریعے منتقل ہوتا ہے۔ 2018 تک دونوں ممالک کے درمیان ٹیکنالوجی، ٹرانسپورٹ، انفرا اسٹرکچر اور سیاسی تعاون سے متعلق 10 سے زائد معاہدوں پر دستخط ہو چکے تھے۔

نیپالی وزیر اعظم اولی نے صحافیوں کے سامنے انکشاف کیا کہ ’’سرحد پار رابطہ‘‘ نیپال کی اوّلین ترجیح تھی۔ شروع ہی سے چین کے ذہن میں ایک ’’ہمالیائی اکنامک کوریڈور‘‘ تھا جس میں بھارت اور بنگلادیش بھی شامل ہوتے، لیکن بھارت اب تک ایک نہایت متذبذب پارٹنر رہا ہے۔ تب سے، چین تبت کے راستے انفرااسٹرکچر تیار کرنے میں بہت سرگرم رہا ہے، بالکل بھارت کی سرحد کے ساتھ ساتھ، جہاں نئی اور جدید ملٹی لین شاہراہیں بھارتی سرحد تک آتی ہیں، جو کہ انفرا اسٹرکچر سے خالی پڑی ہے۔

چین تبت کے خودمختار علاقے کے دور دراز قصبوں کو ترقی دینے کا خواہاں رہا ہے، اور اس کے لیے اس نے بیجنگ لہا سا ریلوے کو 2014 میں تبت کے دوسرے بڑے شہر شگاتسے تک بڑھایا۔ نیپالی حکومت نے چین سے یہ بھی کہا ہے کہ وہ ارنیکو ہائی وے کو چار لین ہائی وے کے طور پر توسیع دے، جو شگاتسے کے قریب تتوپانی کو کھٹمنڈو سے ملاتی ہے۔

اس سے بھارتیوں میں ان کی طرف کی سرحد پر تشویش پائی جا رہی ہے، وہ دیکھتے ہیں کہ تبت کی طرف چینی فنڈ سے انفرا اسٹرکچر تعمیر اور دولت پیدا ہو رہی ہے۔ نیپال میں بھی جزوی طور پر ایسا ہی ہو رہا ہے، اور دہلی میں پریشانی اور شرمندگی دونوں پیدا کرتا ہے۔

دوسری طرف کھٹمنڈو بڑی مقدار میں چینی سرمایہ کاری حاصل کرنے کے لیے پر جوش رہا ہے۔ نیپال اپنے سامان کی نقل و حرکت کے لیے بھارت پر انحصار کرتا ہے، اور اس انحصار کو کم کرنے کا خواہاں ہے اور خود کو ہمالیہ کے آر پار تجارت کے لیے ٹرانزٹ ہب کے طور پر پیش کرنے کی خواہش رکھتا ہے۔ یہ ٹرانزٹ ہب اسے چین کے یُننان، سیچوان اور گانسو صوبوں کے ساتھ ساتھ تبت سے بھی جوڑ دے گا، اور وہ چین اور بھارت کے درمیان تجارت کا سلسلہ استوار کر سکے گا۔

دوسرا کنکٹنگ روٹ چین سے بھوٹان کے راستے بھارت تک اور وہاں نیچے کولکتہ، مونگلا یا پائرہ تک اترے گا۔ لیکن اس وقت سنگین مسائل ہیں جو اس کنکشن کی تیز رفتار پیش رفت کو روکتے ہیں۔ تبت/چین کے ساتھ بھوٹان کی سرحد کو کبھی بھی سرکاری طور پر تسلیم نہیں کیا گیا اور اس کی نشاندہی نہیں کی گئی، جس نے پریشانی پیدا کی ہے۔ چینی حکومتوں نے کافی عرصے تک بھوٹان کی چین سے وابستگی کے بارے میں سوچا۔ 1998 میں چین اور بھوٹان نے سرحد پر امن برقرار رکھنے کے لیے دوطرفہ معاہدے پر دستخط کیے، یوں بھوٹان کی خودمختاری کو تسلیم کیا گیا۔

لیکن سرحدی علاقے کی صحیح حد بندی کبھی نہیں کی گئی۔ جب چین نے اپنے انفرا اسٹرکچر کے پروگرام بی آر آئی کو تیز کرنا شروع کیا، جس کا اعلان 2013 میں کیا گیا تھا، تو تبت میں بھوٹان کی سرحد کے قریب ڈوکلام کے علاقے میں سڑک کی تعمیر شروع کی گئی، جسے چین تبت کا حصہ سمجھتا ہے۔

اس سے 2017 میں سرحدی بحران پیدا ہوا۔ بھوٹان نے چین سے ڈوکلام کے متنازعہ علاقے میں سڑک کی تعمیر کے خلاف احتجاج کیا، جو بھوٹان، بھارت اور چین کے میٹنگ پوائنٹ پر واقع ہے۔ بھارتی فوج نے چین کو سڑک کی تعمیر سے روک دیا، ایک ایسی جگہ جسے بھوٹان اور بھارت دونوں بھوٹانی علاقہ سمجھتے تھے۔ تب سے چین بھوٹان پر دباؤ بڑھا رہا ہے کہ وہ اس دوطرفہ سرحدی تنازعے کو حل کرے تاکہ انفرا اسٹرکچر کی تعمیر کے ساتھ آگے بڑھا جا سکے۔

بھوٹان ڈوکلام کے واقعے کے بعد سے ملک میں چین کی مداخلت کو مسترد کرتا رہا ہے، چاہے وہ معاشی ہو یا سیاسی لحاظ سے۔ دوسری طرف چین نے بی آر آئی پر بھوٹان کے ساتھ باضابطہ دوطرفہ تعلقات اور شراکت داری قائم کرنے کی بڑی کوشش کی ہے، لیکن بھوٹان نے دباؤ کے باوجود مسلسل انکار کیا ہے۔ لہٰذا رابطے کے اس چینل کو قابل عمل بننے کے لیے مزید وقت درکار ہے۔

(ایسوسی ایشن آف ایسٹر اسٹیٹ آف ساؤتھ ایشیا کے بارے میں سلسلہ مضامین کا یہ پانچواں حصہ ہے

فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار اور کراچی کونسل فار فارن ریلیشنز (KCFR) کے چیئرمین ہیں۔)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔