ابھی وقت نہیں گیا

ڈاکٹر توصیف احمد خان  ہفتہ 23 اکتوبر 2021
tauceeph@gmail.com

[email protected]

پاکستان اور چین کے تعلقات دونوں ممالک کی آزادی کے بعد استوار ہوئے۔ چین پاکستان میں صنعتی ترقی اور دفاعی پیداوار میں تعاون کرنے لگا۔ چین کے موجودہ صدر Xi Jinpingنے ون بیلٹ ون روڈ کا نظریہ پیش کیا۔ پیپلز پارٹی کی چوتھی حکومت کے دور میں چین سے اقتصادی راہداری کے قیام پر بات چیت شروع ہوئی۔

وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت میں چین سے 23ارب ڈالر سے زائد کی مالیت کے منصوبوں پر اتفاق ہوا۔ اس وقت منصوبہ بندی کے وفاقی وزیر احسن اقبال تھے، انھوں نے اس پروجیکٹ جو سی پیک کے نام سے معروف ہوا کی منصوبہ بندی کی نگرانی کی اور یہ طے ہوا کہ سی پیک کے تحت بلوچستان کی بندرگاہ گوادر سے چین کے صوبہ سنکیانگ تک تعمیر ہوگی۔ اس منصوبہ کے تحت گوادر کی بندرگاہ کو بین الاقوامی معیار کے مطابق تعمیر کیا جائے گا۔

یہ منصوبہ پاکستان کے چاروں صوبوں پر محیط ہوگا اور سی پیک کے تحت صرف سڑکیں تعمیر نہیں ہونگی بلکہ کارخانے اور بجلی گھر بھی تعمیر کیے جائیں گے۔ سندھ کے سرحدی علاقہ تھرپارکر میں دستیاب کوئلہ کے ذخائر سے بجلی بنانے کے لیے وہاں بجلی گھر تعمیر ہوں گے۔

ایسے ہی بجلی گھر پنجاب اور خیبر پختون خوا میں بھی بنائے جائیں گے۔ یہ خبریں بھی ذرایع ابلاغ کی زینت بنیں کہ کراچی کا ماس ٹرانزٹ پروگرام سی پیک کا حصہ ہوگا۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ دیگر وزراء اعلیٰ کے ساتھ کئی بار بیجنگ گئے مگر ایک یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ کراچی کے ماس ٹرانزٹ منصوبہ میں چین کو کوئی دلچسپی نہیں ہے مگر چین لاہور میں تعمیر ہونے والی اورنج ٹرین کی تعمیر میں مدد دے گا۔

سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے اپنی تقاریر میں کہنا شروع کیا کہ سی پیک گیم چینجر ثابت ہوگا۔ بلوچستان سمیت پورے ملک میں کارخانے لگیں گے اور اس منصوبہ کے تحت تعمیر ہونے والے بجلی گھروں  کی پیداوار شروع ہو کر صنعتی ترقی کا نیا دور آئے گا۔ بے روزگاری ختم ہوگی اور پاکستان جلد ایشین ٹائیگر بن جائے گا، مگر سی پیک کا منصوبہ شروع سے تضادات کا شکار رہا۔

سابق حکومت نے سی پیک کے اعلان کے ساتھ اس بات کو خفیہ رکھا کہ گوادر سے سنکیانگ جانے والی سڑک کا روٹ کیا ہوگا۔ وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال ایک ابھرتے ہوئے اینکرپرسن سے مہینوں اس بات پر الجھتے رہے کہ اس منصوبہ کے تحت خیبرپختون خوا کے کون سے علاقے مستفید ہونگے اور اس منصوبہ کے تحت تعمیر ہونے والی سڑکیں خیبر پختون خوا کے کن شہروں کو سی پیک سے منسلک کریں گی۔ جب چین کے صدر اس منصوبہ کا سنگ بنیاد رکھنے کے لیے اسلام آباد آنے والے تھے تو اسلام آباد کے ریڈ زون پر تحریک انصاف والوں نے دھرنا دیا ہوا تھا۔ اسلام آباد کی انتظامیہ کی بار بار درخواستوں کے باوجود تحریک انصاف کی قیادت دھرنا ختم کرنے پر تیار نہیں ہوئی، یوں یہ دورہ ملتوی ہوا۔

جب وزیر اعظم عمران خان نے اقتدار سنبھالا تو صنعت کاروں کے خاندان سے تعلق رکھنے والے رزاق داؤد وزیر اعظم کے مشیر کے طور پر تعینات ہوئے تو انھوں نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ سی پیک پاکستان کی معیشت پر بوجھ ہے، یوں اخبارات میں بار بار خبریں شایع ہونے لگیں کہ سی پیک کے منصوبوں پر کام رک گیا ہے۔

گزشتہ دنوں وفاقی حکومت نے سی پیک سے متعلق دستاویز آئی ایم ایف کے حوالہ کیں۔ اخبارات میں ان دستاویزات کی اشاعت سے پتہ چلا کہ چین نے تمام قرضے چین کے بینکوں سے تجارتی شرائط پر فراہم کیے ہیں ،جس کا انٹرسٹ ریٹ بہت زیادہ ہے۔ اسلام آباد میں بعض حلقوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ چین کی حکومت کو پی ٹی آئی کی حکومت کے رویہ سے مایوسی ہوئی ہے اور تعمیراتی منصوبوں کی رفتار سست پڑگئی ہے۔ اس سال کے اوائل میں سی پیک اتھارٹی کے افسر اعلیٰ پر امریکا میں سرمایہ کاری کے بارے میں الزامات لگے۔ تمام فریقوں نے اس اسکینڈل میں دیے گئے حقائق کو غلط قرار دیا۔

وزیر اعظم عمران خان نے اس افسر اعلیٰ کو بلایا اور ایک گھنٹہ کی ملاقات کے بعد واضح انداز میں کہا کہ بعض عناصر سی پیک منصوبہ کو ناکام بنانے کے لیے جھوٹے الزامات لگا رہے ہیں۔ چند ہفتوں بعد یہ افسر اعلیٰ وزیر اعظم کے میڈیا مشیر کی حیثیت سے مستعفی ہوئے اور چند مہینوں بعد وہ سی پیک اتھارٹی سے رخصت ہوئے۔

سابق صدر پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں بلوچستان میں بدامنی کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ گزشتہ 21برسوں کے دوران حساس تنصیبات اور گاڑیوں پر حملے ہوئے۔ اس صورتحال میں سیکڑوں لوگ اپنے گھروں کو چھوڑنے اور کراچی اور دیگر محفوظ مقامات پر منتقل ہونے پر مجبور ہوئے۔

گوادر کے ماہی گیروں  کے لیے اپنے روزگار کا حصول مشکل ہوا۔ جماعت اسلامی بلوچستان کے سیکریٹری جنرل مولانا وحید الرحمن جن کے آباؤ اجداد ہزار سال سے ماہی گیری کے شعبہ سے وابستہ ہیں انھوں نے بڑی جرات سے گوادر کے ماہی گیروں کی زبوں حالی پر رائے عامہ ہموار کی۔ مولانا وحید الرحمن نے پہلی دفعہ اپنی تقاریر میں ایسے استعارے استعمال کیے جو بلوچستان کے کمیونسٹ اور قوم پرست رہنما استعمال کرتے رہے ہیں۔ اس دوران بلوچستان کے اخبارات نے یہ خبریں شایع کیں ۔

چین نے اقتصادی راہداری منصوبہ کے ہیڈ کوارٹر کو گوادر سے کراچی منتقل کرنے پر اتفاق کا اظہار کیا ہے،اب چین نے کراچی کی بندرگاہ پر سرمایہ کاری کا فیصلہ کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چین نے کراچی کی بندرگاہ کی ترقی کے لیے 3.5 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری پر اتفاق کیا۔ بلوچستان کے اخبارات نے یہ خبر جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو سے شایع ہونے والے اخبار لکی کی ہے۔ لکی کو ایشیا کا سب سے بڑا تجارتی اخبار کا درجہ حاصل ہے۔ اخبار کے مطابق کراچی کوسٹل کمپری ہنسو ڈیولپمنٹ زون منصوبہ کے لیے پاکستان اور چین نے مفاہمتی یادداشت پر اتفاق کیا ہے۔

اس منصوبہ کے تحت کراچی کی بندرگاہ پر نئی گودیوں کی تعمیر اور 640 سیکٹر تجارتی زون کی تعمیر شامل ہے۔ اخبار کے ایڈیٹر نے لکھا ہے کہ اس منصوبہ کے تحت کراچی کی بندرگاہ کو قریبی جزائر جس میں منوڑہ شامل ہے،پلوں کے ذریعہ منسلک کیا جائے گا۔ حکومت پاکستان اور چین کی حکومت نے اس خبر کی تردید نہیں کی مگر سی پیک منصوبہ کی گوادر سے کراچی منتقلی ایک اہم سوال ہے۔

بلوچستان ایک پسماندہ صوبہ ہے۔ اگر سی پیک کے آغاز کے ساتھ بلوچستان میں بدامنی کے خاتمہ کے لیے اقدامات کیے جاتے اور عوام کو اس منصوبہ میں ایک اسٹیک ہولڈر کی حیثیت سے تسلیم کیا جاتا توحالات مختلف ہوتے۔

اب بھی وقت ہے کہ ایسا ماحول پیدا کیا جائے کہ وہاں کے عوام کو یہ یقین ہوجائے کہ یہ منصوبہ ان کی زندگی کے حالاتِ کار کو تبدیل کرے گا۔ وزیر اعظم عمران خان نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ حکومت پاکستان طالبان کے ساتھ بلوچ علیحدگی پسندوں سے بھی مذاکرات کرے گی۔ ابھی وقت نہیں گیا ہے، وزیر اعظم کو اس بارے میں فوری فیصلہ کرنا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔