دبئی میں کرکٹ کا بخار زوروں پر

سلیم خالق  ہفتہ 23 اکتوبر 2021
بھارت سے میچ کی وجہ سے دباؤ تو ہے، اسی لیے ٹیم مینجمنٹ ان کا حوصلہ بڑھانے کی کوشش کر رہی ہے۔ فوٹو : انٹرنیٹ

بھارت سے میچ کی وجہ سے دباؤ تو ہے، اسی لیے ٹیم مینجمنٹ ان کا حوصلہ بڑھانے کی کوشش کر رہی ہے۔ فوٹو : انٹرنیٹ

’’عامر بھائی آپ کو اتنا غصہ کیوں آتا ہے‘‘

کئی برس قبل کی بات ہے نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں پاکستان کا کوئی میچ جاری تھا،کھانے کے وقفے میں اوپننگ بیٹسمین عامر سہیل اوپر پی سی بی گیلری میں اپنے کسی عزیز سے ملنے کیلیے گئے، وہاں ان سے جب ایک خاتون نے آٹوگراف مانگتے ہوئے بک آگے کی اور غصے والا سوال پوچھا تو جواب میں انھوں نے کہا ’’ناک پر کتاب گھسیڑ کر پوچھتی ہو غصہ کیوں آتا ہے‘‘ میں اس وقت وہیں سے گذر رہا تھا، یہ سن کر ہنس پڑا، اب برسوں بعد جب بار بار کوویڈ ٹیسٹ کیلیے ناک سے سیمپل لیا جا رہا ہے تو عامر سہیل کی بات یاد آ گئی۔

اس بار ورلڈکپ کیلیے دبئی آنا آسان نہ تھا، طاقت کے نشے میں چور کسی شخص نے نجانے آئی سی سی سے کیا کہہ دیا کہ زندگی میں پہلی بار ایکریڈیشن نہ ہونے کی ای میل آ گئی،میں آئی سی سی کے اعلیٰ افسران کا شکرگذار ہوں جنھوں نے میرے رابطہ کرنے پر چند گھنٹوں میں مسئلہ حل کرایا، یو اے ای کا ویزا ملنا بھی اب آسان نہیں رہا مگر شکر ہے یہ مرحلہ بھی عبور ہوا،انیس ماہ بعد پہلی بار کسی سفر کیلیے ہمت کی،زندگی میں پہلا کوویڈ ٹیسٹ بھی روانگی سے اڑتالیس گھنٹے قبل کرایا۔

عام طور پر ایئرپورٹ تین، چار گھنٹے پہلے جاتا تھا اس بار چھ گھنٹے کے اندر ایک اور ٹیسٹ ایئرپورٹ سے کرانا لازمی تھا،پھر نتیجے کے لیے تقریبا دو گھنٹے میک ڈونلڈز پر انتظار کیا، بعد میں ایمریٹس کی فلائٹ بھی ایک گھنٹے تاخیر کا شکار ہو گئی،خیر دو گھنٹے کا سفر مکمل کرنے کیلیے آٹھ گھنٹے لگے،ایئرپورٹ پر جتنی سختی تھی جہاز میں بیٹھ کر لگا کہ شاید کورونا ادھر نہیں آتا، مکمل بھرا ہوا جہاز اورکوئی سوشل ڈیسٹینس بھی نہیں تھا،عام طور پر دبئی کا ٹکٹ چالیس،پچاس ہزار کا مل جاتا تھا اب تو ایک ہفتے قبل سوا لاکھ کا ہو گیا تھا۔

سفر سے ایک دن پہلے ویسے ہی چیک کیا تو تین لاکھ قیمت دیکھ کر دنگ رہ گیا،خیر جاتے ہوئے بہت ڈرایا گیا تھا کہ فلاں کاغذات رکھ لو،وہاں بہت سوال پوچھے جا رہے ہیں، سامان کھول کر چیک کیا جاتا ہے،جہاز سے باہر آنے کے بعد کوویڈ ٹیسٹ کے لیے مختص ایئرپورٹ کے ایک حصے پر کوویڈ ٹیسٹ لیا گیا، وہاں سے چند منٹ میں فارغ ہو کر امیگریشن پر پہنچا، آسانی سے یہ مرحلہ طے ہوا، مجھ سے صرف پاسپورٹ لیا گیا اور مہر لگا کر واپس کر دیا، ساتھ ایک موبائل سم بھی ملی،چند ہی منٹ میں باہر آ گیا اور ٹیکسی پر ہوٹل کی راہ لی، اب ماضی والا ماحول نہیں، پی سی بی نے میڈیا پر بہت زیادہ پابندیاں پہلے ہی لگائی ہوئی تھیں رہی سہی کسر کوویڈ نے پوری کردی،اب زوم پر میڈیا کانفرنسز ہوتی ہیں۔

انٹرویوز یا بائیو ببل میں موجود کھلاڑیوں سے ملاقات کا تو سوال ہی نہیں ہے،میرے لیے صورتحال یوں زیادہ مشکل ہے کہ پی سی بی کے ایک افسر (رمیز راجہ نہیں) نے ناراض ہو کر دونوں واٹس ایپ گروپس سے ہٹا دیا، ای میلز بھی نہیں ملتیں، کوئی میڈیا منیجر بھی رابطہ نہیں رکھتا،اس لیے اب صرف اپنی سورسز پر انحصار ہے،یہاں پاکستان ٹیم جس ہوٹل میں ٹھہری ہے وہ فیسٹیول سٹی میں واقع ہے، پی ایس ایل کے دوران وہاں بہت آنا جانا لگا رہتا تھا، کئی بار قیام بھی کیا،اب بائیو ببل کی وجہ سے جانے کا کوئی فائدہ بھی نہیں تھا، پلیئرز کی فیملیز ساتھ آ تو گئیں لیکن کمرے تک محدود ہیں۔

ہوٹل سے متصل شاپنگ مال اور سینما ہال میں اکثر کرکٹرز اور اہل خانہ نظر آ جاتے تھے مگر اب انھیں کہیں جانے کی اجازت نہیں ہے،پاکستانی ٹیم گوکہ ظاہر نہیں کر رہی لیکن بھارت سے میچ کی وجہ سے دباؤ تو ہے، اسی لیے ٹیم مینجمنٹ ان کا حوصلہ بڑھانے کی کوشش کر رہی ہے،چیمپئنز ٹرافی کی ویڈیو دکھانا بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی، پریکٹس کا سلسلہ بھی زوروشور سے جاری ہے۔

آج آئی سی سی اکیڈمی میں بھی کھلاڑی خوب محنت کرتے نظر آئے، کئی پاکستانی شائقین بھی گرین لباس پہنے اور ہاتھوں میں جھنڈے لیے وہاں نظر آئے،یو اے ای میں کرکٹ کا بخار زوروں پر ہے، ایشیائی لوگوں کی باتوں میں پاک بھارت میچ ہی زیربحث آتا ہے،ٹکٹ تو آتے ہی چند گھنٹوں میں ختم ہو گئے تھے، اب بلیک مارکیٹ والوں کی چاندی ہے جو من پسند قیمت پرسوشل میڈیا وغیرہ کے ذریعے انھیں بیچنے کیلیے کوشاں ہیں۔

ٹی وی چینلز نے کئی سابق کھلاڑیوں کو بھی یہاں مدعو کیا ہے، بھارت سے سنیل گاوسکر،کپیل دیو، اظہر الدین جیسے کرکٹرز آئے ہیں، پاکستان کے ظہیر عباس ، یونس خان ، شعیب اختر وغیرہ بھی موجود ہیں، یہ سب اپنی ٹیموں کی فتوحات کے دعوے کر رہے ہیں لیکن پاک بھارت میچ کے بارے میں کوئی پیشگوئی ممکن نہیں ہے،دباؤ کے حامل میچ میں جس ٹیم نے اعصاب قابو میں رکھے وہی جیتے گی۔

مجھے یاد ہے جب لندن میں چیمپئنز ٹرافی کا فائنل ہونا تھا تو اس وقت پاکستانی ٹیم کو کوئی خاطر میں نہیں لا رہا تھا، سب کا خیال تھا کہ لیگ میچ کی طرح اب بھی بھارت آسانی سے جیت جائے گا لیکن گرین شرٹس نے فائنل جیت کر سب کو خاموش کرا دیا،اب بھی کوئی ایسی وجہ نظر نہیں آتی کہ ایسا نہ ہو سکے۔

کھلاڑیوں کو کسی دباؤ میں آئے بغیر اپنا نیچرل کھیل پیش کرنا چاہیے، سوشل میڈیا اور روایتی میڈیا سے جتنا دور رہیں گے اتنا ہی اچھا ہوگا، وہاں عجیب و غریب دعوے اور باتیں انھیں مزید دباؤ کا شکار کر سکتی ہیں، اچھا یہ ہوگا کہ اپنے اصل مقصد کرکٹ پر توجہ دیں، میدان میں جا کر سو فیصد کھیل پیش کریں، یقینا محنت کا صلہ بھی ملے گا۔

پوری پاکستانی قوم کی دعائیں اپنی کرکٹ ٹیم کے ساتھ ہیں،کھلاڑیوں کو بھی چاہیے کہ اپنی تمام تر صلاحیتیں ایونٹ خصوصا بھارت سے میچ میں جھونک دیں، جیت گئے تو آپ کو ہیرو بننے سے کوئی نہیں روک سکتا، قدم بڑھاؤ گرین شرٹس ہم تمہارے ساتھ ہیں۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔