اہرامِ مصر اور ابوالہول۔۔۔

ڈاکٹر ولاء جمال العسیلی  اتوار 24 اکتوبر 2021
عربی اور اردو شاعری کے آئینے میں۔فوٹو : فائل

عربی اور اردو شاعری کے آئینے میں۔فوٹو : فائل

(اردو کی ایسوسی ایٹ پروفیسر، عین شمس یونیورسٹی، قاہرہ۔ مصر)

اہرام جو سرزمین مصر پر، دریائے نیل کے مغرب میں، گورنریٹ گیزا میں واقع ہیں، مصر کا ایک عظیم عجوبہ ہیں اور دنیا کے سات عجائبات میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ یہ اہرام قاہرہ سے چودہ میل کے فاصلے پر وسیع صحرا میں بڑی شان اور مضبوطی سے ایستادہ ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ اہرام حضرت عیسی علیہ السلام کی ولادت سے تقریباً پانچ ہزار سال قبل عالم وجود میں آئے تھے۔ پھر بھی ان صدیوں میں ہزارہا سال کے طوفانوں، آندھیوں، اور زمانے کی گردشوں کا مقابلہ کرتے ہوئے پورے ثبات سے اپنی بنیادی حالت پر قائم ودائم ہیں۔

جہاں مشہور اہرام موجود ہیں وہیں ابوالہول یا سفینکس موجود ہے۔ اہرام سے چند گز کے فاصلے پر ایک حیرت انگیز بڑا بت ہے جو صدیوں سے ایستادہ ہے۔ ایک سنگی مجسمہ ہے، انسان نما شیر ببر ہے، جس کا سر انسان کا اور جسم شیر کا ہے۔ جسے ایک پہاڑی چٹان کو تراش کر شیر ببر کی شکل میں بنایا گیا تھا۔ اس بت کی یہ شکل مصری فرعونوں کے اس شعار کی تصویر ہے کہ انسان میں عقل تو انسانی ہو لیکن قوت شیر کی مانند ہو۔

اہرام اور ابوالہول جو ابھی تک اپنی اصلی حالت پر قائم ہیں، ہزاروں سال سے دھرتی کے سینے پر ایستادہ ہیں۔ دونوں نے آج تک ساری دنیا کو حیرت میں مبتلا کر رکھا ہے۔ دونوں کی خوب صورتی کے باعث دیکھنے والوں کے دلوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں اور سیاحوں کے ذہن کو الجھا دیتے ہیں۔ دونوں کی قدیم اور کمال سنگ تراشی اپنے معراج پر نظر آتی ہے۔ دیکھنے والے اہرام اور ابوالہول کے معماروں کی غیرمعمولی درستی اور تناسب دیکھ کر مسحور ہوئے بغیر نہیں رہتے، اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھتے ہیں۔ قدیم مصریوں کے تعمیر کردہ عظیم الشان اہرام اور ابوالہول کو دیکھنے کے لیے روزانہ سیاحوں کی ایک کثیر تعداد آتی ہے۔ یہ جگہ دنیا بھر کے سیاحوں کے لیے اہم ترین سیاحتی مقام بن گئی ہے۔

سیاح اہرام کی تعمیر کے سلسلے میں جستجو میں رہتے ہیں۔ کن لوگوں نے یہ اہرام بنائے؟ کیوں بنائے؟ اور ان کے وجود کا سبب کیا ہے؟ ان سنگی یادگاروں کی تعمیر کا مقصد کیا تھا؟ ان کی تعمیر کا راز کیا ہے؟ ان کی تعمیر میں اتنی زبردست مہارت کیسے استعمال کی گئی؟ وہ معمار کون تھے جنہوں نے اس قدر حیرت انگیز عمارتوں کو ڈیزائن کیا؟ یہ اہرام مکمل ٹھوس پتھروں کے بنے ہیں، ان بھاری بھاری پتھروں کے لڑھکانے، دھکیلنے، کھینچنے، گھسیٹنے کا عمل کیسے انجام پایا؟ اس قدیم زمانے میں کس قسم کے آلات و اوزار استعمال کیے گئے تھے؟ کس طرح چٹانیں توڑیں؟ مزدوروں کی تعداد کتنی تھی؟

اہرام کے رازوں کے بارے میں عام قسم کے سیاحوں کے ذہن میں اس طرح بے شمار سوالات پیدا ہوتے ہیں اور وہ ان سنگی تعمیرات کے پوشیدہ اسرار کو تلاش کرتے ہیں۔ اس کی اصلیت اور تاریخ کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔

جہاں تک شاعری کا تعلق ہے تو ان اہرام کی ساخت وتعمیر جو انتہائی مہارت اور عمدگی سے تیار کیے گئے، جو ہزاروں برسوں سے انسانی ادراک واذہان کے لیے ایک معما ہے، یہ اہرام شعراء کی نظر میں کچھ اور ہیں۔ معمولی نظر رکھنے والا عمارت کے سائز اور سنگ تراشی سے زیادہ کچھ نہیں دیکھ پاتا ہے، لیکن شاعر کی نظر میں یہ پتھر اور ڈھانچے صرف صحرا میں کھڑے ہی نہیں رہتے، اہرام اور ابوالہول کی دیدنی شکل سے ایک تصوراتی شکل میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ اور پھر شاعری کی تشبیہات، کنائے اور استعارے جنم لینے لگتے ہیں۔

ان اہرام کے حوالے سے شاعری میں نمایاں مثال مصر کے معروف اور ممتاز شاعر، احمد شوقی، جنھیں شاعروں کا شہنشاہ کہا جاتا ہے، اور علامہ اقبال کے اشعار ہیں۔ یہ دونوں ہم عصر تھے – احمد شوقی اپنے اندلسیہ میں کہتے ہیں:

گویا اہرام مصر ایک دیوار ہے
ازل سے بنایا گیا جو کبھی نہیں ٹوٹتا
اس کے ارد گرد ریت ٹکرا رہی ہے
گویا کہ یہ اہرام ایک آبی جہاز ہے
جو خود تو غرقیاب ہوگیا
لیکن اس کے نمایاں حصے باقی رہ گئے

یہاں شوقی کے ذہن میں دکھائی دیتی ہے کہ گویا یہ اہرام ایک غرقاب آبی جہاز کی طرح ہے اور جس کے اردگرد گویا کہ ریت موجوں کی طرح ہیں۔

دوسری طرف علا اقبال کیا کہتے ہیں:
اس دشتِ جگر تاب کی خاموش فضا میں
فطرت نے فقط ریت کے ٹیلے کیے تعمیر

اہرام کی عظمت سے نگوں سار ہیں افلاک
کس ہاتھ نے کھینچی ابدیت کی یہ تصویر

اقبال کے ان اشعار میں تخیل کی آزادی اپنی حد تک کو پہنچ جاتی ہے۔ ان اشعار کی روشنی میں ہم دیکھتے ہیں کہ شوقی اور اقبال نے اہرام کی عظمت کی تعریف کرتے ہوئے حسی تفصیل میں اپنی تمام تر صلاحیتوں کو استعمال کیا اور ان اہرام میں بقا اور لافانیت کے تمام مظاہر جمع کیے، جو ثقافتی ورثے میں معروف و مشہور ہیں کہ یہ ایک بیش قیمت ورثہ ہیں، ایک ایسا ورثہ جو صدیوں سے پتھروں کی زبان میں اپنی سرفرازی کی سرمدی داستان سنا رہا ہے، جن کی وجہ سے اہل مصر فخر سے کہتے ہیں کہ اہرام مصر آج اپنے تعمیراتی اسلوب میں ایک طلسماتی کیفیت لیے ہوئے ہیں – کون آج اہرام بنا سکتا ہے؟ کون اس ناقابل یقین حد تک بھاری اہرام کو اپنی جگہ سے ہلا سکتا ہے۔

اردو شاعر میراجی اپنی نظم ’’ابو الہول‘‘ میں کہتے ہیں:
بچھا ہے صحرا اور اس میں ایک ایستادہ صورت بتا رہی ہے
پرانی عظمت کی یادگار آج بھی ہے باقی
نہ اب وہ محفل، نہ اب وہ ساقی
مگر انہی محفلوں کا اک پاسباں کھڑا ہے

ابو الہول کی افسانوی علامت خیال، معنی، اور علامتی مفہوم کی نشان دہی کرتی ہے۔ ابوالہول ہمیشہ افسانوی ورثے میں موجود ہوتا ہے کہ جس میں طاقت اور خوف سے لبریز ہستی کی تصویر ہوتی ہے۔ وہ دشمنوں کے سامنے صحرا کا محافظ ہے۔ اس کی نگاہ حملہ آوروں کو دہشت سے مفلوج کر دیتی ہے۔

مصری شاعر احمد شوقی کا قصیدہ ’’ابوالہول‘‘ اور اردو شاعر ضیا جالندھری کی نظم ’’ابوالہول‘‘ میں ابوالہول ایک علامت ہے، جو اپنی بقا میں زمانے کی عکاسی کرتی ہے۔ ان دو نظموں کے درمیان بہت سی خصوصیات مشترک ہیں۔ شاعر کا تخلیقی تخیل براہ راست حسی حقیقت کو دکھانے سے گریز کرتا ہے۔ اور وہ ابدیت پر غور کرنے کی ترجیح دیتا ہے، جس کی نمائندگی ابو الہول کرتا ہے۔ احمد شوقی کہتے ہیں کہ:

اے ابو الہول! تو ایک طویل عرصے تک زندہ رہا
اپنی جگہ پر اس طرح دبکا بیٹھا ہے،
زندگی کے اختتام تک ایسا ہی رہے گا

اے ابو الہول! تو کیوں بقا پسند کرتا ہے
حالاںکہ یہ زندگی ہمیں بوریت اور اکتاہٹ کے سوا کچھ نہیں دیتی

ان اشعار میں شوقی ابو الہول کو مخاطب کر رہے ہیں، جو بنا اکتاہٹ کے اپنی زندگی سے مطمئن ہوتا ہے۔ اور جو علامت بن جاتا ہے۔

ضیا جالندھری کی نظم میں ہم ابو الہول کو خاموشی کے کنویں میں واقع پاتے ہیں:

جہانِ ریگ کے خواب گراں سے آج تو جاگ
ہزاروں قافلے آتے رہے گزرتے رہے
کوئی جگا نہ سکا تجھ کو تجھ سے کون کہے
وہ زیست موت ہے جس میں کوئی لگن ہو نہ لاگ
تڑپ اٹھے ترے ہونٹوں پہ کاش اب کوئی راگ
جو تیرے دیدۂ سنگیں سے دردبن کے بہے
یہ تیری تیرہ شبی بجلیوں کے ناز سہے
یوں ہی سلگتی رہے تیرے دل میں زیست کی آگ
مگر نہیں، تو اگر میرا رازداں ہوتا
ترے لبوں پہ دہک اٹھتی کوئی پیار کی بات
تو آج دہر کے سینے پہ تو کہاں ہوتا
ترے سکوں کو کبھی چھو سکا نہ وقت کا ہات
خود اپنی آگہی میں جل بجھی ہے میری حیات
وگرنہ تیری طرح میں بھی جاوداں ہوتا

ان اشعار میں ضیا جالندھری ابو الہول سے اپنا موازنہ کرتے ہیں۔ وہ ابو الہول کو اس طرح دیکھتے ہیں کہ اس زندگی میں اس کی کوئی لگن نہیں، کوئی شوق نہیں ہے، جب کہ شاعر زندگی کے مسائل میں غرق ہوتے ہیں۔ یہاں شاعر ابو الہول کی عظمت کی تعریف نہیں کرتے بلکہ وہ زندگی میں اپنی ذات اور خیالات کا ذکر کرتے ہیں۔ پھر بھی ابو الہول شاعر کے لیے ایک محرک تو ہے جو شاعر کو اپنی خود کی تلاش کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ یہ شاعر جو غم اور آنسوؤں کے درمیان جدائی کا درد برداشت کرتے ہیں اور ان کی شاعری محبت، تنہائی اور موت کے مقابلے میں اپنے تجربے کی نمائندگی کرتی ہے، جس کی علامت ابو الہول ہے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ فرعونی آثار قدیمہ ہمیشہ مختلف نظریات اور تصورات کے لیے ایک زرخیز میدان رہے گا۔ یہ ماضی اور حال میں شاعری کی خوب صورتی کی علامت تھا اور رہے گا۔

مصری شاعر اپنے ماضی اور تاریخ سے خاص طور پر متاثر ہیں۔ اس لیے جو بھی معاصر مصری انسان کو سمجھنا چاہتا ہے، اسے اس انسان کی ابتدائی جڑوں کو تلاش کرنا چاہیے، کیوںکہ فرعونی آثار مصری ثقافتی جوہر کے ہر عروج اور جمود سے جڑے ہوئے ہیں۔

اور جیسا کہ مصری شاعر نے اہرام اور ابو الہول کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا- اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ اردو شعراء نے بھی دونوں پر اپنی رائے کا اظہار کیا- اردو شاعروں کو مصری تہذیب سے غیرمعمولی لگاؤ ہے۔ مختلف زبانوں، مختلف زمانوں اور مختلف نسلوں کے باوجود عربی اور اردو شعرا کا شاعرانہ تخیل فرعونی آثار قدیمہ کے حوالے سے تقریباً مطابقت رکھتا ہے، کیوںکہ قدیم مصری ورثہ تاریخ کے دوران انسانی تہذیبوں اور ثقافتوں کے سفر میں ایک ثقافت سے دوسری ثقافت میں منتقل ہوتا رہا ہے، اس لیے اردو شاعر اس سے متعلق ثقافتی حوالے رکھتے ہیں۔ وہ اس ثقافت کی علامتی اور معنوی جہتیں اپنی شاعری میں استعمال کرتے ہیں۔

جب ہم اہرام اور ابوالہول کے بارے میں شاعری کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ فنی تخیل اردو اور عرب شاعر کے پاس یکساں انداز میں ہوتا ہے۔ دونوں کے شعری موضوع میں بہت گہرا تعلق اور مشابہت ہے – دونوں اپنے شعر کے ذریعے فکری مسائل میں شریک ہوئے- اردو اور عربی شعرا کے اشعار اس تخیل سے بھرے ہوئے ہیں جو شاعری کی تشکیل اور اس کی ساخت کا ایک اہم جزو ہے، جس کے ذریعے شاعر اپنے تجربات، جذبات، اور خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ بہرحال اگر ہم اردو اور عربی شاعری پر عمیق نظر ڈالیں تو یہ بات سامنے آئے گی کہ شعر میں تاثیر اور تاثر کے عناصر پوری طرح عیاں ہیں۔

اور میں اپنی تحریر کا خاتمہ اپنے اس شعر پر کرتی ہوں کہ:

ہیں جیسے مصر کے اہرام پختہ
یہ میرا عزم بھی محکم بہت ہے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔