غلط فہمی پر کراچی سے گرفتار ٹیکسی ڈرائیور 17 سال بعد گوانتاناموبے سے رہا

ویب ڈیسک  ہفتہ 23 اکتوبر 2021
احمد ربانی کیخلاف چارج شیٹ فائل ہوئی اور نہ ہی عدالت میں پیش کیا گیا، فوٹو: فائل

احمد ربانی کیخلاف چارج شیٹ فائل ہوئی اور نہ ہی عدالت میں پیش کیا گیا، فوٹو: فائل

گوانتاناموبے: 19 سال قبل کراچی سے غلط فہمی کی بنیاد پر گرفتار ہونے والے احمد ربانی کو گوانتاناموبے میں 17 سال جیل کاٹنے کے بعد بالآخر رہائی کا پروانہ مل گیا۔ 

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق برطانوی این جی او ’’ری پریو‘‘ نے اعلان کیا ہے کہ ان کی کوششوں سے بدنام زمانہ امریکی جیل گوانتاناموبے میں  17 سال سے قید بے گناہ شخص احمد ربانی کی رہائی کا حکم جاری کردیا گیا ہے۔

امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے بھی اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ 2004 میں سابق صدر پرویز مشرف کے دور حکومت میں احمد ربانی کو حسن گل ظاہر کر کے 5 ہزار ڈالر کے انعامی رقم کے عوض امریکی حکام کے حوالے کیا گیا تھا۔

https://twitter.com/Reprieve/status/1451571395545214989?s=20

انسانی حقوق کی این جی او ’’ری پریو‘‘ کے مطابق ٹیکسی ڈرائیور احمد ربانی کو 19 سال قبل امریکا کو انتہائی مطلوب ملزم حسن گل سمجھ کر کراچی سے گرفتار کرکے افغانستان میں امریکی حکام کے حوالے کردیا گیا تھا جہاں مختلف مراکز میں 545 دن تک جسمانی تشدد کیا گیا۔

برطانوی این جی او نے انکشاف کیا کہ کراچی میں گرفتاری کے محض دو دن بعد ہی معلوم چل گیا تھا کہ وہ مطلوب دہشت گرد حسن گل نہیں لیکن اس کے باوجود احمد ربانی کو افغانستان بھیج دیا گیا۔

افغانستان میں بھی امریکی حکام نے نامکمل تفتیش کے باوجود احمد ربانی کو گوانتاناموبے بھیج دیا جہاں 17 سال بغیر کوئی کیس چلائے انھیں قید رکھا گیا۔ احمد ربانی کے خلاف نہ ٹرائل شیٹ تیار کی گئی اور نہ ہی عدالت میں پیش کیا گیا۔

احمد ربانی نے اپیلیں مسلسل ناکام ہونے کے بعد جیل میں تادمِ مرگ بھوک ہڑتال کر رکھی تھی۔ برطانوی ادارے ’ری پریو‘ نے احمد ربانی کیلئے قانونی جنگ لڑی جس پر امریکا کی 6 سیکیورٹی ایجنسیوں نے مشترکہ فیصلے میں احمد ربانی کی رہائی کا پروانہ جاری کیا۔

یہاں یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ حسن گل نامی شخص جس کے شک میں احمد ربانی کو گرفتار کیا تھا وہ بھی گرفتار ہوکر بگرام جیل میں احمد ربانی کے ساتھ ہی قید رہا لیکن 3 سال بعد رہا بھی ہوگیا۔

رہا ہونے کے بعد اصلی دہشت گرد حسن گل پھر سے شدت پسند تنظیموں سے جا ملا تھا  اور 2012 میں وزیرستان میں ایک ڈرون حملے میں مارا گیا تھا جب کہ ادھر بے گناہ احمد ربانی گوانتاناموبے میں تشدد برداشت کرتا رہا۔

امریکی تفتیشی اداروں نے احمد ربانی پر جو الزامات لگائے تھے ان کے مطابق ملزم 1994 میں افغانستان میں رہا، 7 ماہ خوست اور 2 ماہ خالدان میں عسکری ٹریننگ لی اور 1995 سے 1996 کے درمیان پاکستان میں قید بھی رہا اور 1997 میں اسامہ بن لادن سے بھی ملا۔

علاوہ ازیں احمد ربانی نائن الیون کے مرکزی کردار خالد محمد شیخ کے ساتھ بھی کام کرتا رہا ہے اور القاعدہ کے عرب ارکان کو پاکستان میں سفری سہولیات فراہم کرتا تھا۔ احمد ربانی کا ایک اور بھائی عبدالرحیم ربانی بھی گوانتاناموبے میں قید رہا ہے۔

احمد ربانی سے جب این جی او پری ریو نے پہلی بار رابطہ کیا تھا تو اس نے بتایا کہ سعودی عرب میں پیدا ہونے کی وجہ سے مجھے عربی زبان پر عبور ہے اور اسی بنیاد پر ایئرپورٹ سے عربی مسافروں کو پک اینڈ ڈراپ کی سہولت دیتا تھا تاہم مجھے معلوم نہیں کہ وہ مسافر کون تھے۔

حکومت پاکستان نے اپنی سرزمین سے حراست میں لیے گئے افراد کو امریکی حکام کے حوالے کرنے سے متعلق ہمیشہ یہی موقف اختیار کیا ہے کہ جن 600 افراد کو پاکستان سے گرفتار کرکے امریکا کے حوالے کیا گیا ہے وہ تمام غیر ملکی تھے۔

احمد ربانی کے متعلق کہنا تھا کہ وہ برمی نژاد ہے جو سعودی عرب میں پیدا ہوا تھا۔

 

 

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔