پاکستان میں معلومات تک رسائی کا قانون

شیر محمد چشتی  اتوار 24 اکتوبر 2021

’’انفارمیشن ایکٹ‘‘ یا ’’معلومات تک رسائی کا قانون‘‘ مہذب جمہوری معاشروں کی اہم ضرورت ہے۔ اس سے حکومتی محکموں کے احتساب کا پہلو نکلتا ہے کیونکہ احتساب ہوگا تو شفافیت بڑھے گی جس سے حکومت کی نیک نامی میں اضافہ ہوگا اور حکومت کو اپنی کارکردگی جانچنے اور اسے بہتر بنانے کا موقع ملتا ہے جس سے عوام مطمئن ہوتے ہیں۔

جمہوری ملکوں میں سالانہ بجٹ اسمبلیوں میں پیش کیے جاتے ہیں۔ محاصل اکٹھے کرنے اور حکومت کے اخراجات کی اجازت عوام کے نمایندوں سے حاصل کی جاتی ہے۔ قوم کے منتخب نمایندے اپنی آراء پیش کرتے ہیں اور ان پر ہر طرح سے بحث کی جاتی ہے تب جاکر ہر شق کی منظوری ہوتی ہے اور بجٹ پاس ہوتا ہے۔ چونکہ حکومت کے اخراجات عوام کے ٹیکسوں سے کیے جاتے ہیں اس لیے ان عوام کو حکومت کے مختلف محکموں سے جائز اور عام معلومات حاصل کرنے کا بھی حق ہے۔

کچھ عرصے سے چند معاملات کو چھوڑ کر سادہ سی معلومات حاصل کرنے کے لیے مختلف تنظیمیں اور افراد آواز اٹھاتے رہے ہیں۔ان کوششوں سے حکومت پر دباؤ پڑا تو 2002 میں ’’ فریڈم آف انفارمیشن ‘‘ کے نام سے ایک بادل ناخواستہ آرڈی نینس جاری کردیا گیا نام کی حد تک تو قانون بن گیا لیکن اس کا سسٹم اور میکنزم جان بوجھ کر تیار نہ کیا، اس لیے کوئی کام شروع نہیں ہوا۔

مسلم لیگ (ن) کو شاباش ہے کہ اس نے مخلصانہ اور ذمے دارانہ طور پر اپنی ذمے داری سمجھتے ہوئے اپنے دور حکومت میں پرانے نامکمل اور برائے نام آرڈی نینس کی بجائے ایک تفصیلی قانون قومی اسمبلی کے معزز ممبران سے پاس کروا کر عوام کی خدمت میں پیش کیا اس کا نام ’’رائٹ آف ایسیس ٹو انفارمیشن ایکٹ  of Access to information Act 2017 Right رکھا گیا جس میں ہر شہری کو حکومت کے دفتروں سے حساس ، ڈیفنس اور سیکرٹ معاملات کو چھوڑ کر عام اور سادہ معلومات حاصل کرنے کا حق تسلیم کیا گیا۔

اس کا باقی سیٹ اپ، طریق کار اور رولز آف بزنس بنا ہی رہے تھے کہ ان کی حکومت ختم کردی گئی۔2018ء میں ان کے بعد آنے والی تحریک انصاف کی وفاقی حکومت نے شروع میں واقعی ایماندارانہ طور پر صحیح کام شروع کیا۔ اس ایکٹ کے تحت ’’ پاکستان انفارمیشن کمیش‘‘ بنایا جس کے چیف انفارمیشن کمشنر نیک نام سینئیر تجربہ کار سابق سیکریٹری اطلاعات محمد اعظم اور ایک اچھی شہرت والے نابینا افسر زاہد عبداللہ اور بے داغ کردار فواد ملک کو انفارمیشن کمشنرز بنایا۔ یہ کمیشن واقعی قابل فخر شخصیات پر مشتمل ہے۔

ان سے قوم کی توقعات پر اترنے کی بڑی امید تھی لیکن افسوس کہ مسلم لیگ کی حکومت عوامی مفاد کا قانون تو بنا گئی اور نافذ بھی کرگئی لیکن تحریک انصاف کی حکومت نے جلد ہی سرد مہری اور عدم دلچسپی کی راہ اختیار کرلی اور کمیشن کو کئی ماہ تک آفس ، اسٹاف اور بجٹ نہ دیا جس سے یہ ایک غیر مؤثر سا کمیشن بن گیا۔ یہ کمیشن دو تین جگہوں پر عارضی پڑاؤ ڈالتا ہوا اب موجودہ مستقل جگہ پر سیٹ ہوا ہے۔ اس لیے مناسب کارکردگی نہ دکھا سکا اور کئی ماہ کا قیمتی وقت ضایع ہوگیا۔

یہ مسائل کچھ حل ہوئے تو کمیشن نے بڑے حوصلے ، عزم اور پرجوش طریقے سے کام شروع کیا اور سرکاری دفاتر سے کچھ معلومات شہریو ں کو لے کر دیں لیکن صرف وہاں سے ، جہاں کچھ اچھے افسر تھے لیکن زیادہ تر محکموں کے انچارج بیوروکریٹس نے متکبرانہ انداز میں عدم تعاون کیا اور نئے نئے غلط مفروضے نکال کر کمیشن کے احکامات کو ہوا میں اڑادیا۔ اس کمیشن کو پہلے بجٹ، آفس اور اسٹاف کی عد م دستیابی نے پریشان کیا جس سے یہ کچھ کارکردگی نہ دکھا سکا اور تنقید کی زد میں آگیا اس کے بعد ان کا واسطہ پاکستان کی سرکش بیورو کریسی سے آن پڑا جو بڑے بڑوں کے چھکے چھڑانے میں ماہر ہے- ایک ذاتی سچا واقعہ پیش کرتا ہوں۔

میں نے آج سے تین سال پہلے 2018میں نیشنل اسمبلی سیکریٹریٹ اسلام آبادکے سیکریٹری کو ایک عام سادہ سی انفارمیشن حاصل کرنے کے لیے ایک درخواست بھیجی تھی جو کسی طرح بھی حساس اسٹیٹ سیکرٹ یا ڈیفنس سروسز کے معاملات کے دائرے میں نہیں آتی۔ اس کا مثبت جواب ہفتہ دس دن میں مل جانا چاہیے تھا لیکن آج تک نہیں دیا۔ پہلے دو خطوط میں تو بالکل غلط جواب دیتے رہے کہ آپکی مطلوبہ انفورمیشن ہماری ویب سائٹ پر موجود ہے وہاں سے لے لیں۔ جب میں نے دونوں دفعہ کمپیوٹر والوں سے چیک کرایا تو وہ انفارمیشن وہاں نہیں تھی۔

جب میں نے پھر اگلے خط میں بتایا کہ یہ انفارمیشن اس ویب سائٹ پرموجود نہیں ہے تو جوابی خط میں اپنی غلطی کا اعتراف کرنے اور معذرت کرنے کے بجائے معلومات دینے سے ہی انکار کر دیا۔ میں نے یہ صورتِ حال اپیل کی شکل میں چیف انفارمیشن کمشنر صاحب کو بھیجی انھوں نے میری اپیل منظورکرنے کے بعد سیکریڑی صاحب سے جواب طلب کیا تو ان کو بھی وہی غلط جواب لکھ بھیجا جسے میں نے چیلنج کیا کہ ان کا جواب غلط ہے اور تفصیلاً ہر پوائنٹ کا جواب دیا۔ جس پر چیف انفارمیشن کمشنر نے سیکیریٹری متعلقہ کو بار بار قانونی پوزیشن سمجھائی، لیکن وہ اپنی ضد اور غلط استدلال پر ڈٹے رہے، بالآخر کمیشن کے تینوں معززممبران نے 18 جنوری 2021 کو متفقہ طور پر سیکریٹری صاحب کو حکم جاری کیا کہ ان کا استدلال غلط ہے اسی لیے درخواست دہندہ کو دس دن کے اندر اندر مطلوبہ انفارمیشن دے دی جائے۔

آج ان دس دنوں کو ختم ہوئے نو ماہ ہوگئے لیکن انفارمیشن نہیں دی گئی اور کمیشن بھی کچھ خاموش سا ہوگیا۔کمیشن کے پاس اس ایکٹ کی دفعہ (20f) کے ساتھ ایسے اختیارات ہیں جن پر اگر عمل کیا جائے تو بڑے بڑے بیوروکریٹس کی ٹانگیں کانپنے لگ جائیں۔ میں حیران ہوں کہ کمیشن کیوں خاموش ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔