ہائبرڈ جمہوریت

جاوید قاضی  اتوار 24 اکتوبر 2021
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

مجھے تو خان صاحب اب اچھے لگنے لگے ہیں ، جو کام کوئی نہ کر پایا، وہ کام یہ آسانی سے کر گزرتے ہیں۔ پاکستان میں سول بالادستی کب آنی تھی ، دور دور تک نظر نہیں آتا تھا ، کبھی جنرل ضیا الحق کی طرح مذہبی کارڈ استعمال کیا گیا ، کبھی پنجاب کی بالادستی کا پروپیگنڈا کیا گیا ، یہ پروپیگنڈا 1971 کے سانحے میں استعمال ہوا۔

خود سندھ کے اندر تقسیم پیدا کی گئی۔ سارے سیاست دان کرپٹ ہیں کا وہ شوروغوغا ہوا کہ آج تک اینکر صاحبان بول بول کر تھکتے نہیں۔ باقی ماندہ کرپشن جو ہے وہ نظر آتی نہیں۔ جب بھی شب خون مارا گیا ، اس شب خون کی وجہ یہ بتائی گئی کہ سیاستدان کرپٹ ہیں۔ نہ جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں اتنی مہنگائی ہوئی، نہ ملک اتنا مقروض تھا ، نہ شرح نمو اتنی پست تھی نہ بری حکمرانی ، اس عروج پر تھی۔

اب آخر میں ہائبرڈ سسٹم متعارف کرایا گیا ہے جس کے نتیجے میں لینے کے دینے پڑگئے ہیں ، اگر نواز شریف یا زرداری ناکام جاتے تو اسٹبلشمنٹ کا درد سر نہ ہوتا کیونکہ ان کو عوام لائے مگر تحریک انصاف کو عوام نہیں لائے تھے، خان صاحب آر ٹی ایس سسٹم کے بیٹھ جانے سے اقتدار میں آئے ہیں۔ اب کے بار اپنے آیندہ کے پانچ سال الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے سہارے نکالنا چاہتے تھے مگر بے چاری مہنگائی ، ڈالر کی اونچی اڑان ، قرضوں کے بوجھ میں پھنسے پاکستان ، بے روزگاری کی وجہ سے اب تو جو ووٹ پڑے بھی تھے ، وہ بھی پڑتے نظر نہیں آتے ہیں۔

یہ جو مہنگائی ہے وہ اس طرح کی مہنگائی نہیں ہے ، جو دنیا میں مارکیٹ کے اندر supply chain کی وجہ سے آئی ہوئی ہے۔ اگر یہ ہے تو کیا وجہ ہے سری لنکا، بنگلہ دیش، ہندوستان میں پانچ سے چھ فیصد ہے اور پاکستان میں نو سے بارہ فیصد؟ ہم اب دنیا کے چار بد ترین ممالک میں آتے ہیں، افراط زر یا مہنگائی کے حوالے سے۔ چاہے بری حکمرانی کے حوالے سے ہو یا انصاف کی فراہمی کے حوالے سے ہو یا انسانی قدر کے بہتر ہونے یعنی ایچ ڈی آئی کے انڈیکٹر کے حوالے سے ہو یا پھر عورتوں کے حقوق کے حوالے سے ، دنیا کے چند بدترین ممالک میں ہمارا شمار ہوتا ہے۔

یوں نہ تھا جب ہم نے آزادی پائی تھی ، نہ ہم سے مشرقی پاکستان آگے تھا نہ ہندوستان اور یوں کرتے کرتے ہم اندر ہی اندر سے کھوکھلے ہوگئے ۔ یہ ملک نظریاتی ریاست بننے کے چکر میں اپنی آئینی ذمے داری یعنی فلاحی ریاست والا مقصد بھول گیا۔ تیس ارب ڈالر کے لگ بھگ بنگلہ دیش اپنی گارمنٹ انڈسٹری سے کماتا ہے۔ اس سے بھی زیادہ ڈالر ہندوستان اپنے سافٹ ویئر انڈسٹری سے کماتا ہے۔ ہم کل ملا کر چوبیس ارب اپنی ایکسپورٹ سے کماتے ہیں اور جب کہ امپورٹ ہم ساٹھ ارب ڈالرکی کرتے ہیں۔

اس کے اوپر اب ہم ہر سال سترہ سے اٹھارہ ارب ڈالر، جو ڈالر ہم نے قرضے لیے ہیں ، اس کی ادائیگی کے لیے دینے پڑتے ہیں اور اتنے ہی ڈالر ہم قرض کی صورت میں ہر سال لیتے ہیں جس کی ڈیمانڈ آیندہ دنوں میں اور بھی بڑھے گی کیونکہ خان صاحب کے زمانے میں پانچ ارب ڈالر کا ہر سال خرچہ ہم گندم ، چینی ، کپاس اور دیگر خوراک وغیرہ کی چیزوں پر امپورٹ کی مد میں کرتے ہیں۔ یوں کہیے کہ ڈالر ہم کماتے نہیں ، کھپاتے زیادہ ہیں۔

ہمارے پاس ترقیاتی کاموں اور انسانی وسائل بہترکرنے کے لیے پیسے ہی نہیں۔ ہم نے صرف نظریہ بیچا ، بڑی بڑی باتیں کیں ، لوگوں کا پیٹ اپنے بنائے ہوئے بیانیے سے بھرنے کی کوشش کی، تاریخ کو مسخ کیا اور ’’غدار‘‘ کا خطاب خوب پہنایا ، اب تو بے نظیر اور نواز شریف بھی اس فہرست میں شامل ہوگئے ہیں جب کہ لوگوں کے پیٹ کمرکو جا لگے ہیں۔ آج کا اہم سوال یہ ہے کہ یہ آخر کب تک ہوتا رہے گا؟ اس کی اہم وجہ ہماری خارجہ پالیسی ہے۔ ہم شروع دن سے امریکا کا مہرہ رہے ہیں، اب امریکا کی ترجیحات تبدیل ہوئیں تو ہم بھنور پھنس گئے ہیں۔

ایک مخصوص مائنڈ سیٹ کے حامل طاقتور گروپ نے افغانستان اور طالبان کو پاکستان اور اس کی عوام کی کمر پر لاد رکھا ہے اور خود آف شور کمپنیاں بنا کر بھی محب وطن کہلاتا ہے۔پاکستان کے عوام کی گندم،آٹا ، چینی وغیرہ افغانستان میں بطور عطیہ بھیجی جارہی ہے اور ہمارے لیے مہنگے داموں امپورٹ کرکے احسان جتایا جارہا ہے۔افغانستان میں طالبان ہوں یا نام نہاد روشن خیال، سب یک زبان ہوکر پاکستان اور دنیا پھر سے امداد دیں، مدد کریں،انسانی المیہ جنم لینے والا ہے کی گردان کرتے ہیں جب کہ ہمارے وزیراعظم اپنی تقاریر میں افغان کو ناقابل شکست قرار دے کر ان کی گلوری فیکشن کرنے میں مصروف ہیں۔

اب خان صاحب ، جنرل ضیاء الحق بنتے جارہے ہیں ، اپنا اقتدار بچانے کے لیے بلکہ آیندہ کے پانچ سال نکالنے کے لیے بھی۔ اسی تناظر میں وہ ایک این آر او بھی دینے کے لیے بھی تیار بیٹھے ہیں،پاکستانی طالبان کے لیے ، یعنی انھوں نے جن بے گناہ پاکستانیوں کا خون بہایا، وہ بغیر کسی سزا یا دیت کے معاف۔ خان صاحب کو آج پوری پشتون قوم طالبان نظر آتی ہے۔ اب تو وہ ایک رحمت للعالمین اتھارٹی بھی قائم کرچکے اب وہ معشیت تو ٹھیک کر نہ پائے مگر جنرل ضیاء الحق کی طرح وہ قوم کی اخلاقیات ٹھیک کریں گے ، لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ضیاء الحق کے زمانے میں امریکا نے ڈالر کے دریا بہا دیے ، مشرف کے زمانے میں بھی، خان صاحب کے زمانے میں تو ڈالر کا قحط آیا ہے ۔

خان صاحب سمجھتے ہیں کہ جس طرح مشرف افغانستان کی آڑ میں دس سال نکال گئے جس طرح اسے افغانستان میں سوویت یونین کو شکست دینے میں ضیا الحق دس سال نکال بھی گئے اور بھٹو کو پھانسی بھی دے گئے اسی طرح یہ بھی طالبان کی سیڑھیوں پر چڑھ کے ، بھلے ان کی بیساکھیاں اسٹبلشمنٹ واپس لے وہ آیندہ پانچ سال نکال جائیں گے اور وہ امیر المومنین کا خطاب پائیں گے اور ساتھ یہاں کا میڈیا ، عدلیہ و پارلیمنٹ میں حزب اختلاف سب کو چلتا پھرتا کریں گے۔ خان صاحب بھٹوکو پھانسی سی آئی اے کا پلان تھا ، اب کے امریکا کا ایسا کوئی پلان نہیں۔

ہم بہت بڑے اور طویل بحران کی دلدل میں دھنس چکے ہیں ، ہمیں قرضوں کا بوجھ کم کرنا ہے۔ ہمیں جامع داخلی ، معاشی اور خارجہ پالیسی کی اشد ضرورت ہے۔ شفاف انتخابات کو لازم قرار دیا جائے اور یقینی بنایا جائے ، عدلیہ میں مداخلت بند کی جائے۔ آزاد ججوں کو ، جس کا ذکر جسٹس مقبول باقر نے اپنی کراچی بار میں تقریر کے دوران کیا تھا ، ان کو آزادی سے فیصلے کرنے دیے جائیں۔

کرپشن کی پروپیگنڈے کو بند کیا جائے، نیب کو میرٹ پر کام کرنے دیا جائے ، اسٹبلشمنٹ اپنا رول محدود کردے، ملک کے آف شور فیم شرفاء جو جمہوریت کے خلاف سازش میں آگے آگے ہوتے ہیں ، ان سے پرہیزکیا جائے۔ آزاد خارجہ پالیسی زمینی حقائق کے پس منظر میں مرتب کی جائے۔ مارکیٹ میکنزم میں موجود خامیوں اور لوپ ہولز کا خاتمہ کرنے لیے قانون سازی کی جائے۔

خان صاحب کا شکریہ ! اب سب کو سمجھ آجانا چاہیے کہ پاکستان سول بالادستی کی طرف بڑھ سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔