دل جس سے زندہ ہے وہ تمنا تمہی تو ہو

امجد اسلام امجد  اتوار 24 اکتوبر 2021
Amjadislam@gmail.com

[email protected]

رسول ؐ پاک کا نام اور ذکر مبارک یوں تو اس کُرہ ارض پر آٹھوں پہر دلوں کے ساتھ ساتھ ہر اذان میں بھی جاری و ساری رہتا ہے کہ رب کریم نے اپنے وعدے کے مطابق آپؐ کو ’’رفعنا لکٰ ذکرک‘‘ کا منصب خاص عطا فرمایا ہے مگر ربیع الاّول میں آپؐ کے یومِ ولادت کے حوالے سے بالخصوص اسلامی دنیا میں جو رُوح پرور مناظر دیکھنے میں آتے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہے کہ ایسی والہانہ مستقل اور بھرپور عقیدت تاریخِ عالم میں کسی بھی دوسری شخصیت کو حاصل نہیں ہوسکی اور نہ ہی کسی اور فردِ واحد نے تاریخ و تہذیبِ انسانی کو اپنی تعلیمات سے آپؐ کی طرح متاثر کیا ہے جس کا اعتراف صرف مائیکل ہارٹ کی بیسویں صدی میں چھپنے والی شہرہ آفاق تصنیف  “The Hundred” میں ہی نہیں بلکہ ہر صدی کے عظیم اورغیرجانبدار دانشوروں کی طرف سے مسلسل کیا جاتا رہا ہے ۔

مغرب میں کلیسا کے زوال سے پیدا ہونے والے خلا نے نہ صرف دنیا بھر میں مذہبی اور روحانی فکر کو نقصان پہنچایا بلکہ جدید علوم اور نشاۃ ثانیہ کی تحریک نے مذہب کے ساتھ سائنس اور عقل کے تعلق میں مزید پیچیدگیاں پیدا کردیں کہ جہاں ایک طرف پروٹسٹنٹ تحریک نے زور پکڑا ، وہاں دوسری طرف مذہبی انتہا پسندی اور جُمودمیں بھی مزید تیزی اور سختی پیدا ہوگئی جب کہ تاریخ، جغرافیے، معاشیات، انتھروپالوجی اور نفسیات میں نئی تحقیق اور کمیونزم اور ڈارونزم جیسے فلسفوں کے فروغ نے عمومی طور پر انسانی ذہن کو ایک ایسی صورتِ حال سے دوچار کر دیا جس میں اخلاقیات اور علم کے روحانی تصورات کی گنجائش کم سے کم ہوتی چلی گئی۔

بدقسمتی سے اس کے پہلوبہ پہلو اسلامی دنیا میں بھی ایسے حکمرانوں اور افراد میں بھی ایسے لوگوں کا غلبہ ہونے لگا جو تحقیق اور فکر کے فروغ کو اپنے اقتدار کے لیے خطرہ خیال کرتے تھے، اُن کی اس منفی فکر کی وجہ سے مذہب کا عملی پہلو کمزور اور علم کے راستے مسدود ہونا شروع ہوگئے، کچھ علماء بِک گئے، کچھ نے تصوف میں پناہ لے لی اور کچھ کو بزورِ شمشیر خاموش کرادیا گیا جس کی وجہ سے آہستہ آہستہ اس وقت کی نام نہاد اسلامی دنیا، مغرب کی فکری اور عملی غلامی کا شکار ہوگئی۔

پھر بھی جدید علوم اور سائنسی فکر کے پروردہ عالموں کے لیے یہ بات ناقابلِ فہم ہی رہی کہ تمام تر غلامی، ذہنی، فکری اور معاشی پستی اور مذہب کی اصل روح سے دوری کے باوجود مسلمان رسولِ پاکؐ کی حرمت اور محبت کے مسئلے پر کس طرح سے یک دل اور یک جان ہوجاتے ہیں۔ اس تفصیل میں جانے کا وقت اور موقع نہیں کہ اس محبت کو ختم یا کم کرنے کے لیے دنیا بھر کے مسلمان معاشروں میں کیا کیا ہتھکنڈے استعمال کیے گئے۔

کئی ایسے نئے گروپ بنوائے یا آگے لائے گئے جن کا غالب مقصد اس محبت کو تقسیم در تقسیم کرنا یا اس کو ایک بحث طلب مسئلے کی شکل دینا تھا جس کے حق میں وہ اپنی مثال دیا کرتے تھے کہ اُن کے معاشروں نے مذہبی اداروں کے تسلط اور روحانیت کی نفی کرکے ہی یہ ساری ترقی حاصل کی ہے ۔ ہم نے دیکھا کہ چرچ کو ریاست سے یکسر الگ کردیا گیا اور مذہب کی حیثیت ایک ڈیکوریشن پیس جیسی ہوگئی اور اس کے انکار کو ایک ذاتی معاملہ قرار دے دیا گیا اور مذہبی تعلیمات کے بارے میں تضحیک آمیز روّیئے کو بھی تحریر و تقریر اور انسانی حقوق کی آزادی کی آڑ میں جائز قرار دے دیا گیا۔

کم و بیش یہ وہ پس منظر ہے جس میں گزشتہ چند برسوں سے مغربی ممالک میں خاصے لوگ ہمارے محترم نبیؐ رسول پاک حضرت محمدؐ کے بارے میں ایسی تکلیف دہ باتیں اور غلط پروپیگنڈے سے بہت زیادہ متاثر ہوچکے ہیں اور روحانیت اور ادیان کے بارے میں وہ لوگ انکارر اور تشکیک کے درمیان ڈول رہے ہیں، اس لیے انھیں یہ بات سمجھانی بہت مشکل ہوگئی ہے کہ اُن کے اس نادانستہ روّیے اور کچھ شرپسندوں کے سوچے سمجھے منصوبے کی وجہ سے تقریباً ڈیرھ ارب انسانوں کو کس قدر ذہنی اور روحانی اذّیت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ اب ظاہر ہے ان ڈیڑھ ارب لوگوں میں کچھ ایسے لوگ بھی شامل ہیں جنھیں ناراض کرنا اُن کی حکومتیں بھی آسانی سے افورڈ نہیں کر سکتیں۔

ادھر مغربی ممالک میں بھی بہت سے صائب الرائے اور نامور افراد اور تنظیمیں بھی مختلف طریقوں سے اس صورتِ حال کی مذمت کرچکے ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ مغرب میں ایک گروہ کج بحثی کا روّیہ اپنائے ہوئے ہے۔ میں نے اپنی سطح پر اس اُلجھن کو سمجھنے اور سلجھانے کی کوشش کی تو سب سے پہلی اور اہم ترین بات جو سامنے لائی وہ یہی تھی کہ اسلامی دنیا کے اس جذباتی ردّعمل کا اُن لوگوں کے مائنڈ سیٹ سے کوئی تعلق ہے نہیں جن کو ہم اس حرکت سے روکنا چاہ رہے ہیں۔

عمران خان کی سیاست ،رویئے، تجربے اور بہت سی باتوں سے اختلاف ممکن ہے مگر میرے نزدیک اُس کی یہ بات بالکل درست اور مبنی برحققیت ہے کہ گورے سے اگر اُس کی سمجھ میں آنے والی زبان اور اُس کے مائنڈ سیٹ کی تشکیل کے مطابق بات کی جائے تو وہ آپ کی بات سنتا ہے اور سمجھتا بھی ہے اور اگر آپ اس کے ذہنی جالوں کو ہٹا کر اُسے تصویر کا صحیح رُخ دکھائیں تو وہ آپ کی بات مان بھی سکتا ہے ۔

جب بھی اس طرح کا کوئی دلخراش واقعہ سامنے آتا تو جہاں ہم محفلِ احباب میں اس پر اپنے غم و غصے کا اظہار کرتے ہیں ۔ میاں محمد صاحب نے یونہی نہیں کہا تھا کہ ’’جے میں دیکھاں رحمت تیری، بلّے بلّے بلّے‘‘۔ سو ربِ کریم کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اُس نے مجھے اس جواب کے رستے پر چلنے کی توفیق دی اور تقریباً دو سال کی مسلسل کوشش، مطالعے، احباب سے مشوروں اور تحقیق کے بعد میں ایک ایسی ڈاکیومنٹری فلم کا اسکرپٹ لکھنے میں کامیاب ہوگیا ہوں جس کی وساطت سے انشاء اللہ شاید چند مخصوص اور اس کام پر متعین شرپسندوں کو چھوڑ کر ہم اُن کے پروپیگنڈے سے متاثر ہونیوالے کروڑوں بلکہ اربوں لوگوں کو نہ صرف اُن کی غلطی کا احساس دلا سکیں گے بلکہ اُن کو یہ بھی سمجھا سکیں گے کہ جس ہستی کے بارے میں اُن کو طرح طرح کے مغالطوں کا شکار کیا گیا ہے انھوں نے گزشتہ چودہ سو برس میں ہونے والی انسانی ترقی میں کس قدر کلیدی کردار ادا کیا ہے۔

آج مغرب کا شہری جن انسانی حقوق، جنسی برابری، خواتین کی تعظیم ، تعلیم کی ضرورت اور حُرمت، قانون کی پابندی اور سوشل سیکیورٹی کے اصولوں کا فخر سے ذکر کرتا ہے ان میں ہر ایک کی قطار میں جو شخص ہر جگہ موجود اور سب سے نمایاں اور محترم ہے وہ وہی صحرا نشین ہے جو سب سے زیادہ تمہارے شکریئے اور گزشتہ روّیوں کی بھرپور معذرت کا حق دار ہے ۔

مزید خوشی اور روحانی تسکین کی بات یہ ہے کہ اب وہ بارہ منٹ پر مشتمل ڈاکیومنٹری فلم پیشکش کے عالمی معیارات اور اصولوں کے مطابق ہر اعتبار سے مکمل ہوگئی ہے اور انشاء اللہ اسی ہفتے اس کے انگریزی ورژن کی تعارفی تقریب ہوگی جس کے بعد اسے آٹھ بڑی بین الاقوامی زبانوں میں بھی ڈَب کیا جائے گا اور عنقریب یہ ساری دنیا تک مختلف حوالوں سے پہنچ بھی جائے گی۔ تمام اہلِ وطن کو بہت بہت مبارک کہ یہ سعادت اُسی خطے کو نصیب ہوئی جہاں سے رسولِ پاکؐ کو ٹھنڈی ہوا آئی تھی ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔