بادی النظر میں ٹک ٹاک پر پابندی آئین کے خلاف ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ

ویب ڈیسک  پير 25 اکتوبر 2021
ٹک ٹاک ہزاروں لوگوں کی کمائی کا ذریعہ ہے،عدالت  فوٹو: فائل

ٹک ٹاک ہزاروں لوگوں کی کمائی کا ذریعہ ہے،عدالت فوٹو: فائل

 اسلام آباد: ہائی کورٹ نے بادی النظر میں ٹک ٹاک پر پابندی کو آئین کے خلاف قرار دے دیا۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے سوشل میڈیا ایپ ٹک ٹاک پر پابندی کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے پی ٹی اے حکام سے استفسار کیا کہ یہ پلیٹ فارم ہزاروں لوگوں کی کمائی کا ذریعہ ہے، پی ٹی اے اس طرح ٹیلنٹ کو بھی بند کر رہا ہے، عدالت کے مدنظر وہ لوگ ہیں جو غریب ہیں اور اس سے کمائی کر رہے ہیں، قابل اعتراض مواد تو ہر سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر موجود ہوتا ہے پھر سب بند کردیں، ہیٹ اسپیچ صرف ایک ٹک ٹاک پر تو نہیں ہوتی، ہیٹ اسپیچ ہوتی ہے پورنا گرافی بھی ہوتی ہے لیکن اس کو پروفیشنل انداز میں ہینڈل کرنا چاہیے ، معاشرے میں اتنی اقدار بھی ہونی چاہییں کہ اگر کوئی چیز ٹھیک نہیں تو نا دیکھیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ یہ ایڈوانس ٹیکنالوجی کے چیلنجز ہیں کیا اس طرح ان کا سامنا کرنا ہے؟ کیا باقی دنیا سے ہمیں کٹ کر رہنا ہے ؟ بھارت کے علاوہ کہاں پر پابندی ہے ؟آپ کو یہی نہیں پتہ کہ ملک میں سوشل میڈیا کے ایکسپرٹس کون ہیں ، اس سے زیادہ حیران کن کیا ہو سکتا ہے کہ پی ٹی اے کو پتہ ہی نہیں ایکسپرٹس کون ہے ، یہ الارمنگ ہے کہ پی ٹی اے کو تو معلوم ہی نہیں ،اگر اس طرح ہی کرنا ہے تو پھر تو سارے پلیٹ فارم پر پابندی لگا دیں۔

عدالت نے اپنے حکم نامے میں کہا کہ پی ٹی اے نے پشاور اور سندھ ہائی کورٹ میں بیان حلفی دیا ٹک ٹاک پر صرف ایک فیصد مواد قابل اعتراض ہوتا ہے، متوسط طبقہ اپنے ٹیلنٹ کو اجاگر کر کے اس پلیٹ فارم سے کمائی کر رہا ہے، پی ٹی اے نے رپورٹ فائل کی لیکن عدالت نے جو ہدایت کی تھی اس کا جواب موجود نہیں، اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا تھا کہ وہ اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کریں گے ، عدالت نے پوچھا کہ پلیٹ فارم کو بلاک کرتے ہوئے کیا کسی ایکسپرٹس سے رائے لی گئی ؟ وفاقی حکومت اور پی ٹی اے سوشل میڈیا ایکسپرٹس کے نام عدالت میں جمع کروائے۔ بادی النظر میں پلیٹ فارم کو بلاک کرنا آئین میں دئیے گئے حقوق کی خلاف ورزی ہے، کیوں نا عدالت ٹک ٹاک کو کھولنے کا آرڈر دے؟ ٹک ٹاک پر پابندی کیوں لگائی ؟ پی ٹی اے آئندہ سماعت پر مطمئن کرے۔ کیس کی مزید سماعت 22 نومبر کو ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔