- انوار الحق کاکڑ، ایمل ولی بلوچستان سے بلامقابلہ سینیٹر منتخب
- جناح اسپتال میں خواتین ڈاکٹروں کو بطور سزا کمرے میں بند کرنے کا انکشاف
- کولیسٹرول قابو کرنیوالی ادویات مسوڑھوں کی بیماری میں مفید قرار
- تکلیف میں مبتلا شہری کے پیٹ سے زندہ بام مچھلی برآمد
- ماہرین کا اینڈرائیڈ صارفین کو 28 خطرناک ایپس ڈیلیٹ کرنے کا مشورہ
- اسرائیل نے امن کا پرچم لہرانے والے 2 فلسطینی نوجوانوں کو قتل کردیا
- حکومت نے آٹا برآمد کرنے کی مشروط اجازت دے دی
- سائفر کیس میں امریکی ناظم الامور کو نہ بلایا گیا نہ انکا واٹس ایپ ریکارڈ لایا گیا، وکیل عمران خان
- سندھ ہائیکورٹ میں جج اور سینئر وکیل میں تلخ جملوں کا تبادلہ
- حکومت کا ججز کے خط کے معاملے پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان
- زرمبادلہ کے سرکاری ذخائر 8 ارب ڈالر کی سطح پر مستحکم
- پی ٹی آئی کا عدلیہ کی آزادی وعمران خان کی رہائی کیلیے ریلی کا اعلان
- ہائی کورٹ ججز کے خط پر چیف جسٹس کی زیرصدارت فل کورٹ اجلاس
- اسلام آباد اور خیبر پختون خوا میں زلزلے کے جھٹکے
- حافظ نعیم کی کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری نہ کرنے پر الیکشن کمیشن کو نوٹس
- خیبر پختونخوا کے تعلیمی اداروں میں موسم بہار کی تعطیلات کا اعلان
- اسپیکر کے پی اسمبلی کو مخصوص نشستوں پر منتخب اراکین سے حلف لینے کا حکم
- امریکا میں چاقو بردار شخص کے حملے میں 4 افراد ہلاک اور 5 زخمی
- آئی پی ایل؛ ’’پریتی زنٹا نے مجھے اپنے ہاتھوں سے پراٹھے بناکر کھلائے‘‘
- اسلام آباد میں ویزا آفس آنے والی خاتون کے ساتھ زیادتی
جاپانی کارخانے میں لفٹ میں استعمال ہونے والے 1000 بٹنوں والی دیوار قائم
ٹوکیو: جاپان میں لفٹوں کے بٹن بنانے والی ایک مشہور فیکٹری نے اپنے تمام ان بٹنوں کو ایک دیوار پر لگایا ہے جو وہ ایک عرصے سے آرڈر پر تیار کرتی رہی ہے۔ ان بٹنوں کی تعداد 1000 کے لگ بھگ ہے۔
فیکٹری کا دورہ کرنے والے شائقین ایک ہی دیوار پر لگے بٹن دباسکتےہیں۔ بٹنوں کا یہ مجموعہ کمپنی کی تاریخ اور آرڈر کو ظاہر کرتا ہے جو 1933 سے قائم کی گئی تھی۔ کمپنی کے اندر نصب ایک بہت بڑے پینل پرایک ہزار سے زائد بٹن لگے ہیں جو قطار در قطار ہیں اور لوگ انہیں دبا بھی سکتے ہیں۔
اس کمپنی کا نام شیمادا ڈینکی سیساکوشو ہے جو 88 برس سے لفٹوں کے بٹن بنارہی ہے اوران بٹنوں کی پوری تاریخ اس بورڈ پر دیکھی جاسکتی ہے۔ دھاتی پینل پر لگے ان بٹنوں کو بچے دبا کر بہت خوش ہوتے ہیں۔ ہر بٹن دباتے ہیں وہ روشن ہوجاتا ہے اس طرح بچوں کو اس کی مزید تحریک ملتی ہے اور جہاں تک ان کا ہاتھ پہنچتا ہے وہ بٹن ضرور دباتے ہیں۔ بعض بچوں نےکہا کہ وہ ایک ایک بٹن دبانا چاہتے ہیں۔
جیسے ہی ٹوئٹر پر اس کی تصاویر جاری ہوئی لوگوں کی اکثریت نے کہا کہ وہ بھی فیکٹری جاکر لفٹ کے بٹنوں کو دیکھیں گے۔ تاہم کمپنی نے کہا ہے کہ وہ بٹن دبانے کا ایک مقابل رکھے گی جسے بٹن پریسنگ میراتھن کا نام دیا گیا ہے۔
فیکٹری انتطامیہ سے سب سے زیادہ طبع آزمائی والے بٹن اور سب سے کم دبائے جانے والے بٹن کےبارے میں بھی بتایا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ لوگوں کے ایک ہجوم نے کمپنی کے دورے کی درخواست دی ہے اور اب کمپنی نے کہا ہے کہ اگلے برس کے جون تک ان کے پاس تاریخ موجود نہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔