نواز، زرداری اتفاقِ رائے

ڈاکٹر توصیف احمد خان  بدھ 5 فروری 2014
tauceeph@gmail.com

[email protected]

زرداری اور میرا کردار مشعلِ راہ ہونا چاہیے، سیاسی قیادت متحد ہے۔ ہوسکتا ہے کسی کوہمارا مل بیٹھنا اچھا نہ لگے۔ ہم نے پیپلز پارٹی اور انھوں نے ہمارا مینڈٹ تسلیم کیا، گریباں پکڑنے اور لڑنے کی سیاست ختم ہونی چاہیے۔ ملکی قیادت سنجیدہ ہوچکی،آج ہم کندھے سے کندھا ملا کر نہ چل سکے تو مستقبل میں بھی اکٹھے نہ ہوسکیں گے۔ وزیراعظم نوازشریف اور ان کی قدیم مخالف جماعت پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدرآصف علی زرداری نے تھر میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے کا سنگِ بنیاد رکھنے کی تقریب میں ان خیالات کا اظہار کیا۔ یوں وفاق اور صوبے کی مشترکہ کوششوں سے کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے ایک سب سے بڑے منصوبے پر کام کا آغاز ہوا۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ نے اس موقعے پر کہا کہ تھرپارکرکے کوئلے کے ذخائر سے پیدا ہونے والی بجلی سے توانائی کا بحران ختم ہوجائے گا۔ وزیراعظم نوز شریف نے یہ یقین دہانی کرائی کہ بلوچستان کے ساحلی شہرگڈانی میں لگنے والے بجلی گھروں میں تھرپارکر کا کوئلہ استعمال ہوگا۔

تھرپارکرکا یہ منصوبہ پاکستان کی تاریخ کے ایک نئے دور کا آغاز کررہا ہے۔ تاریخ میں پھر وفاق اور صوبے میں دو مخالف جماعتوں کی حکومتیں ہیں اور یہ جماعتیں گزشتہ 25 برس سے ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہیں۔ ماضی میں یہ روایت رہی ہے کہ جب بھی کسی ایک جماعت نے اپنے اقتدار میں آنے کے بعد کوئی ترقیاتی منصوبہ شروع کیا تو دوسری جماعت نے اس کے خلاف مہم شروع کردی۔ گزشتہ صدی کے آخری عشرے کی تاریخ کو یاد کیا جائے تو بہت سے حقائق سامنے آتے ہیں۔ اس دور میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کے لیے تیار کیا تھا مگر جیسے ہی غیر ملکی سرمایہ کاروں نے بجلی گھروں کی تعمیر شروع کی ان منصوبوں کے خلاف قومی اسمبلی اور اخبارات میں ایک منفی مہم شروع ہوگئی۔ مسلم لیگی رہنما اور بعض صحافی ان منصوبوں میں بڑے پیمانے پر بدعنوانی کے الزامات لگانے لگے۔ پھر جیسے ہی پیپلز پارٹی کی حکومت ختم ہوئی مسلم لیگ کی حکومت نے سابقہ دور کے منصوبوں کا جائزہ لینا شروع کیا۔

تھر میں کوئلے کے ذریعے بجلی پیدا کرنے کا منصوبہ پیپلز پارٹی کے دوسرے دور میں شروع کیا گیا تھا۔ اس منصوبے کو ترک کردیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی غیر ملکی سرمایہ کاروں کے خلاف احتساب بیورو نے کارروائیاں شروع کردیں، یوں غیر ملکی سرمایہ کاری کا معاملہ رک گیا۔ جب میاں نواز شریف نے جو منصوبے شروع کیے پیپلز پارٹی اور ان کے اتحادیوں نے ان منصوبوں کے خلاف شور مچانا شروع کیا، اس طرح بدعنوانی کے الزامات کی فضاء میں یہ منصوبے مکمل نہیں ہوسکے۔  جنرل مشرف کی  حکومت نے میاں صاحب کے دورِ اقتدار کے منصوبوں کو فضول قرار دیتے ہوئے منسوخ کیا۔ جب 2008 میں پیپلز پارٹی کی حکومت وفاق میں قائم ہوئی اور پنجاب میں مسلم لیگ نے حکومت بنائی تو ابتدائی مہینوں میں تو وفاق اور پنجاب میں مختلف منصوبوں پر اتفاق رائے رہا مگر پھر وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے قائد حزبِ اختلاف کا کردار ادا کرنا شروع کیا۔ انھوں نے براہِ راست صدر زرداری پرکرپشن کے الزامات لگانا شروع کیے۔ وفاقی حکومت کے توانائی کے تمام منصوبوں پر سپریم کورٹ نے سو موٹو نوٹس جاری کیے۔ میاں شہباز شریف نے صدر زرداری کے خلاف اس حد تک انتہاپسندی کا شکار ہوئے کہ انھوں نے پروٹوکول کے ضوابط کو نظرانداز کرتے ہوئے ان کا لاہور میں استقبال کرنے سے انکار کردیا۔ شہباز شریف 18ویں ترمیم پر دستخط کی تقریب کے لیے ایوانِ صدر گئے تھے۔

اس موقعے پر مسلم لیگ کے سربراہ میاں نواز شریف کو بھی خاص طور پر مدعو کیا گیا تھا مگر اس تقریب کی کارروائی کو دیکھنے والا ہر شخص محسوس کرسکتا تھا کہ شہباز شریف کو زبردستی اس تقریب میں آنا پڑا ہے۔ اس زمانے میں گورنر پنجاب سلمان تاثیر اور پھر سردار لطیف کھوسہ نے بھی پنجاب کے قائد حزبِ اختلاف کا کردار ادا کر کے عوام کے ذہنوں کو الجھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اگرچہ  میاں نواز شریف کے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد سندھ کے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ نے شہباز شریف کی پیروی نہیں کی، یوں وفاق اور سندھ میں تعلقات خوشگوار رہے۔ مگر 5 برسوں میں مجموعی صورتحال میں پیپلز پارٹی کے ساتھ بدعنوانی کا معاملہ منسوب ہوا اور مسلم لیگ پر محض لاہور کو اولیت دینے کے الزامات لگے۔ یوں عام آدمی ان جماعتوں سے مایوس ہوا۔ تحریکِ انصاف نے اس صورتحال سے خاطرخواہ فائدہ اٹھایا۔ انھوں نے پنجاب اور پختون خواہ میں اپنی جڑیں مضبوط کیں اور 11مئی 2013 کے انتخابات میں وہ کے پی کے میں حکومت بنانے کے قابل ہوگئے۔ اگرچہ پنجاب میں تحریکِ انصاف خاطرخواہ کامیابی حاصل نہیں کرسکی مگر گزشتہ 8مہینوں کے دوران پنجاب میں ہونے والے انتخابات کے بارے میں الیکشن ٹریبونل میں جو کچھ ہوا اس سے ظاہر ہونے لگا کہ مسلم لیگ کی کامیابی محض ووٹوں کے ذریعے نہیں ہوئی بلکہ اس کامیابی میں دوسرے کرداروں نے بھی کردار ادا کیا۔

اس حقیقت کا سب کو اقرار کرنا چاہیے کہ عوام مجموعی طور پر ملک کی دونوں بڑی جماعتوں سے مایوس ہوئے ہیں۔ بعض نقاد کہتے ہیں کہ پنجاب میں حکومت کی کارکردگی دوسرے صوبوں سے بہتر رہی مگر یہ کارکردگی محض لاہور میں محدود نظر آتی ہے۔ باقی پنجاب میں حالات بہت زیادہ بہتر نہیں ہوئے۔ وہاں امن و امان کی صورتحال انتہائی خراب ہے، اغواء برائے تاوان وصول کرنے کے مضبوط گروپ متحرک ہیں، پنجاب پولیس ان گروپوں کو ختم نہیں کرپائی، وسطی پنجاب کے علاوہ سرائیکی علاقے کی صورتحال کے بارے میں تو مسلم لیگ کے حامی صحافی بھی تنقید کررہے ہیں۔ ڈیرہ غازی خان، مظفر گڑھ اور ملتان کے اضلاع میں پولیس راج قائم ہے۔ پنجاب پولیس ڈیرہ غازی خان اور بلوچستان کی سرحد سے متصل علاقے میں ڈاکوؤں کے راج کو ختم نہیں کرسکی۔ اسی طرح تعلیم، صحت، پولیس، ریوینیو اور دوسرے محکموں میں سفارش یا رشوت کے بغیر کوئی کام ممکن نہیں رہا۔ بجلی اورگیس کی لوڈ شیڈنگ نے غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کی تعداد بڑھادی ہے۔ پنجاب میں حکومت نے کالعدم مذہبی تنظیموں سے خوشگوار تعلقات قائم کرلیے، اب ان تنظیموں کی سرگرمیوں کی بناء پر فرقہ وارانہ تضادات شدت اختیار کرتے جارہے ہیں۔ چند ماہ قبل راولپنڈی میں عاشورہ کے جلوس پر حملے اور پھر مختلف شہروں میں اس کے خلاف احتجاج کی صورتحال نے بہت سے معاملات کو عیاں کردیا ہے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی اچھے طرزِ حکومت کی اہمیت سے واقف نہیں ، بدعنوانی پیپلز پارٹی کی حکومت میں روایت بن گئی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ کراچی سمیت سندھ کے تمام شہر انتظامی بدحالی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ بین الاقوامی اداروں کی رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ سندھ کا تعلیمی نظام سسک رہا ہے۔ تعلیمی معیار کی پسماندگی کی بناء پر اہل اور قابل امیدوار دستیاب نہیں ہیں۔ پیپلز پارٹی نے کراچی میں اپنی قدیم نشستیں کھو دی ہیں، لیاری کوگینگ وار میں ملوث گروہوں کے سپردکردیا گیا ہے۔ اندرونِ سندھ پیپلز پارٹی نے خاطر خواہ کامیابی حاصل کی تھی مگر جب قائم علی شاہ اپنے حلقے میں دوبارہ گنتی اور انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق کے فیصلوں کے خلاف اعلیٰ عدالتوں سے رجوع کرنے پر مجبور ہوپائے تو بہت سے چھپے ہوئے معاملات عیاںہوگئے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن منتخب بلدیاتی اداروں کے حق میں نہیں ہیں۔ اس بناء پر بلدیاتی انتخابات منعقدنہیں ہوپارہے ہیں۔ میاں شہباز شریف اپنی ذات کو بنیاد بنا کر شہروں میں ترقیاتی کام کراتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کو شہروں کی ترقی سے دلچسپی نہیں ہے، یوں نچلی سطح تک اختیارات کی منتقلی کا سائنٹیفک طریقہ اپنایا نہیں جارہا۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی قیادت نے 2005 میں میثاقِ جمہوریت پر اتفاقِ رائے کر کے سیاسی بلوغت کا ثبوت دیا تھا۔ 18ویں ترمیم پر اتفاقِ رائے، آزاد الیکشن کمیشن کے قیام، صوبوں کو اختیارات کی منتقلی اور پھر مئی 2013 کے انتخابات کے بعد حزبِ اختلاف کو اقتدار کی منتقلی مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی میں قیادت کی جمہوری نظام کے استحکام کے لیے تاریخ ساز پیش قدمی تھی۔

مگر اس حقیقت کا اعتراف ضروری ہے کہ عوام نے ایسی مثبت تبدیلیوں کا اس طرح خیر مقدم نہیں کیا جیسا کیا جانا چاہیے تھا۔ اس کی وجہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی ناقص کارکردگی تھی۔ اگر ان سیاسی اصلاحات کے ساتھ سماجی جمہوریت کے تصور کو عملی شکل دینے کے لیے حقیقی اقدامات ہوئے تو اسٹیبلشمنٹ کی بالادستی نہیں ہوگی اور اسٹیبلشمنٹ سے حرارت حاصل کرنے والی سیاسی جماعتوں کی انتخابات میں پذیرائی حاصل نہیں ہوسکتی۔ وزیر اعظم نواز شریف کی اس بات میں بڑا وزن ہے۔ دو بڑی جماعتوں کے درمیان یہ اتفاق رائے کسی کو اچھا نہیں لگے گا مگر اس کا حل عوام کے حالات کار کو بہتر بنانے کے لیے اصلاحات کرنا ہے۔ دوسری صورت میں بعض سیاسی رہنما اس اتفاق رائے کے خلاف عوام کے ذہنوں کو پراگندا کریں گے۔ دونوں جماعتوں کو سماجی جمہوریت کے لیے کچھ کرنا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔