صرف ایک جیت کافی نہیں!

علی احمد ڈھلوں  منگل 26 اکتوبر 2021
ali.dhillon@ymail.com

[email protected]

بالآخر پاکستان کی ٹیم ٹی ٹوئنٹی کرکٹ ورلڈ کپ میں بھارت کی مضبوط ٹیم کو ہرانے میں کامیاب ہوگئی،  کرکٹ کو پسند کرنے والے شہریوں نے اس جیت کا جشن روایتی انداز میں منایا۔

کرکٹ لورز اور کھلاڑیوں کے لیے یہ ہائی وولٹیج میچ تھا، جسے بابر اعظم اور محمد رضوان کی بیٹنگ اور شاہین شاہ آفریدی کی باؤلنگ نے ون سائیڈڈ میچ بنا دیا۔ اللہ کرے اگلے لیگ میچز بھی پاکستانی ٹیم اسی اسپرٹ کے ساتھ کھیلے اور ورلڈ کپ جیت کر ملک واپس آئے اور ایشیا میں کھیلا جانے والا کرکٹ ورلڈ کپ ایشیا میں ہی رہ جائے۔

آجکل پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور سری لنکا میں کرکٹ کا جنون آسمان کو چھو رہا ہے ۔ ایسا شاید اس  لیے ہے کہ حالیہ ورلڈ کپ جس کی میزبانی متحدہ عرب امارات اور عمان کر رہے ہیں۔ اس ورلڈ کپ میں پاکستان کی ٹیم نے بطور ہارٹ فیورٹ ٹیم کے شمولیت اختیار نہیں کی تھی بلکہ حالیہ جیت کے بعد پاکستان کی ٹیم اس ورلڈ کپ میں فیورٹ قرار دی جا نے لگی ہے اور کرکٹ لورز ابھی سے اندازہ لگانا شروع ہو گئے ہیں کہ شاید فائنل بھی پاک بھارت کا ہو! اور دوبارہ  شائقین کرکٹ اسی قسم کے جذبات دیکھیں۔

میرے خیال میں یہ ایک کھیل ہے، ایک صحت مند ایکٹویٹی ہے، اسے صرف کرکٹ تک محدود رہنا چاہیے اور ہار جیت کو زیادہ سنجیدہ لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ خدانخواستہ اگر پاکستان کی ٹیم برا کھیلتی اور ہار جاتی توہمارے ہاں کے کرکٹ دیوانے بھی بھارت کی طرح سوگ میں ڈوبے ہوتے۔ کھیل کی دنیا میں  پاک بھارت اکیلے روایتی حریف نہیں ہیں۔ آسٹریلیا، انگلینڈ،آسٹریلیا،نیوزی لینڈ، کینیڈا، امریکا، جاپان، جنوبی کوریا، ارجنٹائن، برازیل، روس،یوکرین، چین، جاپان، ایران،عراق، ترکی، شام، شمالی کوریا اورجنوبی کوریا جیسے ممالک بھی ایک دوسرے کے روایتی حریف ہیں، اگر ان ملکوں کے درمیان کوئی میچ ہو تو یہاں کی سڑکیں بھی سنسان ہو جاتی ہیںاور میچ کے اختتام پر سب کچھ دوبارہ نارمل ہو جاتا ہے۔

خیراگر ہم پاک بھارت کرکٹ میچ کی بات کریں تو اس قسم کے ’’روایتی‘‘ میچ کے حوالے سے دونوں ممالک میں اچھے خاصے انتظامات کیے جاتے ہیں، دوست احباب ایک دوسرے کو دعوتیں دیتے ہیں، راقم نے بھی یہ میچ دوستوں کے ہمراہ دیکھا ، میچ کے اختتام پر ایک دوست کومیں نے اُس کے گھر چھوڑنا تھا، وہ تمام راستہ میچ کی باتیں کرتا رہا، اُسے میچ جیتنے کی اس قدر خوشی تھی  جیسے آج ہم نے بھارت کو ہی فتح کر لیا ہو۔ مجھے یہ سب دیکھ کر اچھا بھی لگا اور پریشان کن بھی ۔ پریشان کن اس لیے کہ ہم کیسے لوگ ہیں کہ میچ کی جیت پر خوشی کا اظہار نہیں بلکہ پاگل پن کر مظاہرہ کر رہے ہیں، اسپورٹس صرف اسپورٹس ہوتی ہیں، اس کا ملک کے درمیان تنازعات سے لینا دینا نہیں ہوتا۔ جن ایشوز پر غور کرنا اور انھیں سیریس لینا چاہیے، اس جانب کرکٹ لورز ہی نہیں پالیسی سازوں کی بھی توجہ نہیں ہے۔

پاکستان جو بھارت سے ہر فیلڈ میں پیچھے چلا گیا ہے اُس کے بارے میں کوئی بھی  سنجیدہ نہیں ہے۔ کوئی اس طرف دھیان نہیں دے رہا کہ پاکستان تیزی کے ساتھ پسماندگی کی طرف بڑھ رہاہے۔ بھارت میں شرح خواندگی80فیصد سے زائد اور پاکستان میں یہ شرح 60فیصد کو بھی نہیں پہنچ رہی۔ بھارت تعلیم پر اپنے بجٹ کا 4فیصد خر چ کر رہا ہے اور ہم 2.2پر اٹکے ہوئے ہیں۔

پھر بھارت ہر شے میں خود کفیل ہو رہا ہے اور ہم جو چیزیں خود پیدا کر سکتے ہیں وہ بھی امپورٹ کر رہے ہیں، جیسے بھارتی پنجاب جو رقبے میں پاکستانی پنجاب سے بہت چھوٹا ہے، اس کی زرعی پیداوار ہمارے پنجاب سے زیادہ ہے،پھروہاںریلوے روزانہ قومی خزانے میں 20کروڑ روپے منافع جمع کراتی ہے جب کہ ہماری ریلوے روزانہ اتنا خسارہ دے رہی ہے۔

بھارت کی کرنسی ہم سے زیادہ مستحکم ہے، پاکستان میں ایک ڈالر 174روپے کا اور بھارت میں ایک ڈالر 75روپے کا ہے۔ وہاں ایک روپیہ ڈالر کے مقابلے میں کمزور ہو جائے پورے انڈیا میں طوفان آجاتا ہے جب کہ یہاں اسٹیٹ بینک کے صدر کہتے ہیں کہ ہمیں روپیہ کمزور ہونے کے دوسرے پہلو کو بھی دیکھنا چاہیے کہ جو لوگ پاکستان سے باہر ہیں انھیں فائدہ ہو رہا ہے! خیر یہ ایک الگ بحث ہے۔

عالمی رینکنگ کے مطابق دنیا کے 139ممالک میں انصاف فراہم کرنے والے ممالک میں پاکستان کا نمبر 130واں ہے، جب کہ اسی فہرست میں بھارت کا نمبر60واں ہے۔ پھر آزادی صحافت کے حوالے سے پاکستان دنیا کے 180ممالک میں 145ویں نمبر پر ہے جب کہ بھارت اس رینکنگ میں 132ویں نمبر پر ہے۔

پھر آئی ٹی سیکٹر میں پاکستان بھارت سے کوسوں دور ہے، آج بھی دنیا کی بڑی بڑی آئی ٹی کمپنیوں میں انڈین آئی ٹی ایکسپرٹ بیٹھے ہیں، حتیٰ کہ گوگل، مائیکرو سافٹ، فیس بک وغیرہ میں آئی ٹی ماہرین انڈیا ہی کے بیٹھے ہیں، مائیکروسافٹ کے تو 40فیصد ملازمین انڈین ہیں۔

اور اگر ہم گلوبل انڈکس کی عالمی رینکنگ دیکھیں تو پاکستان دنیا کے 66ممالک میں سے 61ویں نمبر پر جب کہ بھارت 32ویں نمبر پر براجمان ہے۔آپ کو یہ جان کر بھی حیرانگی ہوگی کہ اس رینکنگ میں پاکستان آئی بزنس انوائرمنٹ، آئی ٹی انفرااسٹرکچر، آئی ٹی ہیومن کیپیٹل، آئی ٹی انڈسٹری ڈویلپمنٹ اور دیگر آئی ٹی کے شعبوں میں بھی بھارت سے بہت پیچھے ہے۔ پھر آپ کو یہاں یہ بات بتاتا چلوں کہ 2000کے بعد جب آئی ٹی کا انقلاب آیا تو اُس وقت بھارت نے دنیا بھر کے لیے اپنی مارکیٹیں کھول دیں، مگر پاکستان کے اُس وقت کے حکمرانوں اور بعد میں آنے والے حکمرانوں نے اس کی اہمیت کو نہیں سمجھا ۔ بقول اکبر الہ آبادی کے۔

قوم کے غم میں ڈنر کھاتے ہیں حکام کے ساتھ

رنج لیڈر کو بہت ہے مگر آرام کے ساتھ

اور پھر وہاں کبھی مارشل لاء نہیں لگا جب کہ ہمارے ہاں تین مارشل لاء لگائے جا چکے ہیں۔ میں بھارت کا اسپوکس پرسن نہیں ہوں، مگر حقیقت سے نظریں چرانا بھی گناہ کبیرہ ہے۔ مجھے حقیقی خوشی اُس وقت ہوگی جب ہم بھی اپنے پڑوسیوں چین اور بھارت کی طرح ترقی کریں گے۔ ہم ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کر پائے کہ ہم نے کرنا کیا ہے! بہرکیف ہماری عارضی خوشی اُس دن حقیقی خوشی ہوگی جب ہمارا جمہوری نظام بھارت سے بہتر ہوگا، ہمارا الیکشن کمیشن اُن سے بہتر ہوگا، ہماری سیاسی پارٹیاں اُن سے بہتر ہوں گی، ہمارا سیاسی نظام اُن سے بہتر ہوگا، ہمارا نظام عدل ان سے بہتر ہوگا۔

پاکستانی کھلاڑی اولمپک گیمز اور ایشیائی گیمز میں بھارتی کھلاڑیوں سے زائد تمغے جیتیں گے۔ اُس دن صرف کرکٹ لورز ہی نہیں بلکہ پاکستان کا ہر شہری خوش ہو گا، اُس دن میں بھی سب کے ساتھ سڑک پر نکل کر باجا بجاؤں گا، خوشیاں مناؤں گا۔ مگر فی الوقت ہمارے لیے ایک جیت کافی نہیں مزید جیت کے لیے ہمیں اسی طرح کی محنت درکار ہے جس طرح پاکستانی ٹیم کے کھلاڑیوں نے کی ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔