فلسفہ، سائنس اور مذہب

شیخ جابر  بدھ 5 فروری 2014
shaikhjabir@gmail.com

[email protected]

آئن اسٹائن نے کہا تھا کہ ’’مذہب سائنس کے بغیر لنگڑا ہے اور سائنس مذہب کے بغیر اندھی‘‘ آئن اسٹائن کے اس قول سے مذہبی اور غیر مذہبی ہر دو طبقے استدلال کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمارے جدیدیت پسند مفکرین بھی جب اسلام کو سائنسی مذہب ثابت کرنے کے لیے کھینچ کھانچ کر کچھ چیزیں جمع کرتے ہیں تو اُن کے ہاں بھی آپ کو آئین اسٹائن کے اِس مشہور’’افورزم‘‘ کی بازگشت مل جائے گی۔ تو کیا واقعی اسلام ایک سائنسی مذہب ہے؟

کلیسا نے سیکڑوں برس قبل ایسا ہی کیا تھا۔ انھوں نے یونانی فلسفے سے متاثر ہو کر یونانی سائنس کو جو فلسفے کی ایک شاخ تھی، عیسائی الٰہیات کا حصہ بنا لیا۔ وہ خود تو اس درجہ ماہر نہ تھے کہ فلاسفہ کا کُفر، الحاد و زندقہ اُن پر واضح ہوتا نتیجہ یہ ہوا کہ یونانی سائنس کلیسائی معتقدات میں شامل ہوتی چلی گئی۔ پھر جب جدید سائنس کا دور شروع ہوا اور اُس نے قدیم نظریات کی دھجیاں اُڑائیں تو اسے عیسائیت کی شکست پر محمول کیا گیا۔ تاریخ دان اور اہلِ نظر واقف ہیں کہ مغرب میں عیسائیت کی شکست کا اصل سبب کلیسا کا یونانی فلسفہ و سائنس کو مذہب کا حصہ بنانا ہے۔ آج مسلمانوں کے جدیدیت پسند اسلام کی فتح اور اپنی غلامانہ ذہنیت کی تسکین اسی طریق پر بتاتے ہیں۔ وہ تاریخ کی اس گواہی کو فراموش کر بیٹھے ہیں کہ سائنس اور مذہب کے مابین تطبیق کی ہر ہر کوشش مذہبی ہزیمت پر منتج ہوئی ہے۔

مثال کے طور پر جب سترہویں صدی عیسوی میں ’’کوپر نیکس‘‘ نے اعلان کیا کہ زمین کو ساکن سمجھنا اور اسے مرکز ِکائنات قرار دینا غلط ہے۔ تو اُس نے نہ صرف یہ کہ اُس وقت کی سائنسی علمیت کا انکار کیا تھا بلکہ مذہب اور فلسفے کا منکر بھی قرار پایا تھا۔ زمین کا سکوت دو ہزار سال سے بہ قول شخصے اُس دور کی ’’ٹھوس سائنسی حقیقت ‘‘تھی۔ کوپرنیکس نے فلسفے، سائنس اور مذہب تینوں اقالیم کے اجماع کا انکار کیا تھا۔ کلیسا کا کہنا تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا زمین پر نزول ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ زمین مرکزِ کائنات ہے۔ ادھر ارسطو کا فلسفہ بھی یہ ہی تھا۔ ارسطو کا نظریہ حرکت بھی اسی نتیجے تک پہنچتا تھا۔ بطلیموس (ٹالمی) نے زمین کی گردش سے متعلق ریاضیاتی حسابات نیز دیگر قضایا و سائنسی حسابات سے ثابت کیا کہ زمین ساکن ہے۔ اور یہ نظریہ کیوں قبولِ عام حاصل نہ کرتا جب کہ یہ ہر خاص و عام کا مشاہدہ بھی تھا۔ وہ دن رات دیکھتے تھے زمین ساکن ہے اور سورج چاند اور ستارے اُس کے گرد گردش کرتے ہیں۔ کوپر نیکس نے اس کی نفی کی تو مختلف تجربے، منطقی، سائنسی اور مذہبی دلائل سے اس کا رد کیا گیا۔ مثال کے طور پر ’’وہیل آرگو منٹ‘‘ ایک بڑے سے پہیے پر مختلف چیزیں رکھی گئیں۔ اب اُسے زور سے گھمایا گیا۔ چیزیں گر گئیں۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ اگر زمین متحرک ہوتی تو زمین پر موجود چیزیں مستحکم ہونے کے بجائے ادھر اُدھر لڑھکتی پھرتیں۔ مثال کے طور پر ’’ٹاور فُٹ آرگو منٹ‘‘۔ ایک بہت اونچا مینار بنا کر اُس کی چوٹی سے لوہے کا گولہ پھینکا گیا۔ ظاہر ہے وہ مینار کے قدم پر گرا۔ کوپر نیکس سے پوچھا گیاکہ اگر زمین حرکت میں ہے تو گولا مینار کے قدموں میں کیوںگرا؟ کوپر نیکس لاجواب ہو گیا۔ اُس عہد کے غالب نظامِ علمیت سے اخذ شدہ تصورات، نظریات، افکار اور تجربات نے کوپر نیکس کو شکست دے دی۔ تفصیلِ مزید فلسفہِ سائنس کے مورخ ’’اے۔ایف چامر ز‘‘ کی کتاب ’’وہاٹ از دِس تھنگ کالڈ سائنس‘‘۔ میں دیکھی جا سکتی ہے۔

زمین کو ساکن قرار دینے کے بعد زمین کے طول و عرض اور محیط کے بارے میں کلیسا نے مذہبی بنیادوں پر مداخلت کر کے مضحکہ خیز آراء کا انبار لگا دیا۔ کرہِٗ ارضی، اُس کا قشر، اُس کی سمتوں اور اُس کی آبادیوں جیسے طبیعی معاملات پر نہ صرف رائے زنی کی گئی بلکہ اس رائے کی اثابت پر اصرار بھی کیا گیا۔ سینٹ آگسٹین کی تقلید میں کئی صدیوں تک یہ نظریہ رکھا گیا کہ زمین کی مخالف سمت کوئی انسانی آبادی موجود نہیں۔ وغیرہ۔ اگر وہاں زمین ہے بھی تو وہاں انسان نہیں بستے۔ چھٹی صدی میں ’’پروکوپیس اوف گزا‘‘ نے اس مسئلے پر ایک نئی رائے کا اظہار کیا۔ نئے مذہبی دلائل کے ساتھ۔ آپ نے فرمایا کہ زمین کی مخالف سمت کوئی زمین ہو ہی نہیں سکتی، کیوں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کبھی وہاں تشریف ہی نہیں لے گئے۔ علم ارضیات کے ساتھ ساتھ علمِ فلکیات پر بھی کلیسا نے اسی طرح ہاتھ صاف کیا۔ تاریخ میں ایسی بیسیوں مثالیں ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ پادریوں کا کلیسا کی فکری تاریخ پر گہرا اثر رہا ہے۔ اکثر پادری سائنسی، عقلی اور حسی امور میں اٹکل پچو، جسے وہ سائنس کہتے اور عجیب و غریب نتائج اخذ کرتے تھے۔ زمین کے آغاز و انجام سے متعلق آرچ بشپ ’’اشر‘‘ نے انجیل کے مطالعے سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اس دنیا کا آغاز اتوار کے دن 23 اکتوبر 4004 قبل ِ مسیح میں ٹھیک نو بجے ہوا تھا۔

کلیسا ایک عرصے تک سائنسی اُفق پر چھایا رہا۔ یہاں تک کہ جدید سائنس کا ظہور ہوا۔ جدید سائنسی علمیت شدید معرکا آرائی کے بعد کلیسائی علمیت کو بیخ وبُن سے اُدھیڑ پھینکتی ہے۔ اسے مذہب اور کلیسا کی شکست گردانا جاتا ہے۔ اِس معرکا آرائی میں ’’گیلیلیو‘‘ جیسا نابغہ بھی قتل ہوتا ہے۔ اپنے غیر دانش مندانہ اور غیر مذہبی رویے کی بنا پرکلیسا اور مذہب سائنس کی اقلیم میں ایک غیر اہم ادارہ ہو کر رہ جاتے ہیں۔ یہ بات تسلیم کر لی جاتی ہے کہ اِس دنیا کے امور سے مذہب کا کوئی تعلق نہیں، یہ ایک الگ دنیا ہے۔ کلیسا بھی اس موقف کو اپنی پے درپے شکستوں کے بعد طوعاً کرہاً قبول کر لیتا ہے۔ 9 مئی1983 کو ’’ویٹی کن‘‘ میںایک خصوصی تقریب ہوتی ہے۔ اس تقریب کے دوران پوپ جان پال دوئم نے پہلی مرتبہ گیلیلیوکے الم ناک قتل پر کلیسا کی جانب سے معذرت نامہ جاری کیا۔ آپ فرماتے ہیں کہ ’’ہر دورکا اپنا سائنسی نظام ہوتا ہے۔

اِس سائنسی نظام کے عقیدے سے کلیسا کو الگ رہنا چاہیے۔‘‘یہ معذرت بھی 350 برس گزرنے کے بعد پیش کی گئی جب معذرت طلب کرنے والا کوئی نہ تھا۔ لیکن اس رجوع کا کوئی فائدہ نہ ہوا۔ یاد کیجیے ایسا اس سے قبل بھی ہو چکا تھا۔ صدیوں پہلے کلیسا نے ’’سِٹی اوف گاڈ‘‘ اور ’’سٹی اوف مَین‘‘کے فلسفے کے تحت دنیا کو دوعلیحدہ حصوں میں تقسیم کیا تھا۔مادی دنیا اور روحانی دنیا۔ مادی، دنیاوی، تجربہ اور حِسی امور میں سلطنت رومتہ الکبرٰی کو تمام اختیارات سونپ دیے گئے تھے۔ جب کہ مذہبی اور روحانی معاملات میں صرف کلیسا طاقت کا واحد اور آخری سر چشمہ تھا۔ پھر کلیسا کی جب لوگوں کے دلوں پر حکومت ہو گئی، یہاں تک کہ بادشاہِ وقت بھی دو زانو بیٹھا نظر آیا تو طاقت کا نشہ سر چڑھ کر بولنے لگا۔ کلیسا نے دنیا کے امور میں مداخلت کر کے منطق، فلسفے اور سائنس کو عیسائیت میں شامل کر لیا۔ اور جب دنیا نے اُنھیں شکستِ فاش دے دی تو پوپ جان پال دوئم کے اعلامیے کے تحت پھر دنیا سے علیحدگی اختیار کر لی۔

آج کئی مسلم مفکرین بھی اسی فکر میں غلطاں نظر آتے ہیں کہ کسی طرح اسلام کو ’’سائنسی مذہب‘‘ ثابت کر دیا جائے۔ ان سب کو کلیسا کی تاریخ سے سبق لینے کی ضرورت ہے اور جو تاریخ سے سبق حاصل نہیں کرتے وہ خود ایک عبرت ناک تاریخ بن جاتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔