ریاست سے بھاگتے مہاراجہ کے کسی معاہدے کے ذمہ دار کشمیری عوام نہیں

عبید اللہ عابد  بدھ 27 اکتوبر 2021
، بھارتی وزیر اعظم وی پی سنگھ کے نام سید علی گیلانی کے تاریخی خط کا متن ۔ فوٹو : فائل

، بھارتی وزیر اعظم وی پی سنگھ کے نام سید علی گیلانی کے تاریخی خط کا متن ۔ فوٹو : فائل

ستائیس اکتوبر کے روز ، یعنی آج پوری دنیا میں کشمیری قوم یوم سیاہ منا رہی ہے۔

ہر کوئی جانتا ہے کہ ستائیس اکتوبر کشمیری قوم کی تاریخ کا بد ترین دن تھا۔ جی ہاں ! اس روز بھارت نے ریاست پر فوج کشی کرتے ہوئے اس پر غیر قانونی قبضہ کیا تھا۔ اس سے پہلے بڑے پیمانے پر کشمیری مسلمانوں کا قتل عام بھی ہوا تھا تاکہ بھارتی قبضہ کی صورت میں کوئی مزاحم نہ ہوسکے۔ بعدازاں بھارتی قیادت کشمیری قوم کو مطمئین کرنے کے لئے پہلے پہل رائے شماری کے وعدے کرتی رہی ، بعدازاں وہ تمام اقدامات کرنے لگی جس سے کشمیر پر اس کا قبضہ مستحکم ہو۔

تحریک آزادی کشمیر کے عظیم بانی قائد مرحوم سید علی گیلانی نے21 دسمبر 1989ء کو بھارت کے وزیر اعظم وشواناتھ پرتاپ سنگھ (وی پی سنگھ) کو ایک خط لکھا۔اس خط میں انھوں نے نہ صرف مسئلہ کشمیر کی مکمل اور جامع تاریخ تحریر کی بلکہ انتہائی موثر انداز میں کشمیر کا مقدمہ بھی تحریر کیا۔

یہ خط ایک اعتبار سے اتمام حجت ہے جس کے بعد مسلح جد و جہد ہی واحد راستہ رہ جاتا ہے۔ جب بھارت کسی بھی انداز میں کشمیری قوم کو حق خود ارادیت دینے پر تیار نہ ہوا ، اس نے کشمیری قوم پر بدترین تشدد شروع کردیا تو ریاست جموں و کشمیر میں ایک نئے انداز میں پرجوش تحریک شروع ہوگئی۔

سید علی گیلانی کے اس خط سے زیادہ موثر انداز میں کشمیر کا مقدمہ پیش نہیں کیا جاسکتا۔ مرحوم سید علی گیلانی نے سابق وزیر اعظم وی پی سنگھ کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا:

آداب تسلیمات ! اللہ کرے آپ کے مزاج گرامی بخیر ہوں۔

میں یہ خط وادی کشمیر کے ایک گاؤں ڈورو سوپور ضلع بارہمولہ سے آپ کے نام ایسے ماحول اور حالات میں لکھ رہا ہوں کہ 14 دسمبر 1989 سے ہمارے قصبہ سوپور اور بارہمولہ میں کرفیو کا نفاذ ہے۔ 15 دسمبر کو سری نگر، اسلام آباد (اننت ناگ) اور شوپیاں میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے اور آج 18 دسمبر کو چوتھے روز بھی کرفیو جاری ہے۔

فوج اور نیم فوجی دستوں کا گشت، فلیگ مارچ اور لوگوں کو طرح طرح سے خوف و دہشت کا شکار بنائے جانے کا عمل جاری ہے۔ گھر گھر تلاشیاں لی جا رہی ہیں۔ گرفتاریاں ہو رہی ہیں۔ جان و مال اور عزت و آبرو پر دن دھاڑے ڈاکے ڈالے جا رہے ہیں۔ آپ کی تازہ دم حکومت اپنی فوج اور نیم فوجی دستوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ کر کے پوری وادی کشمیر کو ایک وسیع جیل خانے اور فوجی کیمپ میں تبدیل کر رہی ہے۔

ریڈیو پر مسلسل اعلانات ہو رہے ہیں کہ کشمیر میں پوری قوت اور طاقت کے ساتھ ’’قوم دشمنوں‘‘ اور ’’علیحدگی پسندوں‘‘ کو کچلا جائے گا اور دہلی سرکار اس بارے میں کشمیر سرکار کو بھرپور مدد اور تعاون فراہم کرے گی۔ ان حالات میں، میں نے کشمیر کے ایک محکوم و مظلوم شہری کی حیثیت سے اپنا فرض سمجھا ہے کہ میں آپ کو چند بنیادی حقائق سے آگاہی بخشنے کی ذمہ داری انجام دوں۔

مسئلہ کشمیر کا پس منظر

ریاست جموں و کشمیر برصغیر پاک و ہند کے انتہائی شمال میں اور جنوبی وسط ایشا کے قلب میں واقع ہے۔ اس کی سرحدیں پانچ ممالک کے ساتھ ملتی ہیں یعنی پاکستان، افغانستان، روس، چین اور بھارت۔ ریاست کی 700 میل لمبی سرحد پاکستان کے ساتھ ملتی ہے۔

1961 کی مردم شماری کی رو سے اس کی آبادی 40 لاکھ 21 ہزار تھی اور مسلمانوں کا تناسب تقریباً 80 فیصدی تھا۔ گلگت کے علاقہ کی 100 فیصدی آبادی مسلمان ہے۔ وادی کشمیر میں مسلمانوں کا تناسب 90 فیصد ہے اور جموں میں بھی اس کو عددی اکثریت حاصل ہے۔ اس طرح یہ علاقہ خالص مسلم اکثریت کا علاقہ ہے۔

تاریخی حیثیت سے ریاست جموں و کشمیر گزشتہ 700 سال سے مسلمانوں کے زیر نگین ہے۔ اس علاقہ میں اسلام کی شعائیں عین اْس زمانے میں پہنچیں جب براعظم ہند میں دین کا فروغ شروع ہو چکا تھا۔ اور پھر اس کا سارا ارتقا اسلام کے زیر سایہ ہوا۔ 1310 سے 1552 تک یہاں مقامی مسلمان حکمرانوں کی سلطنت قائم رہی۔

1515 سے 1715 تک یہاں مغلوں کا اقتدار رہا اور پھر 1819 تک افغان گورنر کو حکمرانی کے اختیارات حاصل تھے۔ 1819 میں جبکہ پورے برصغیر میں مسلمانوں کا زوال شروع ہو چکا تھا اور وہ اپنی آزادی اور اقتدار دوسروں کے ہاتھوں کھو رہے تھے سکھوں نے کشمیر پر فوج کشی کی اور اس پر اپنا راج قائم کر لیا۔ دریں اثنا انگریزوں نے ہندوستان پر اپنا اقتدار مستحکم کر لیا اور سکھوں کو شکست دینے کے بعد صوبہ جموں کے ایک جاگیردار گلاب سنگھ کے ہاتھ پہ پوری ریاست 75 لاکھ نانک شاہی کے عوض فروخت کر دی۔ گویا ایک کشمیری کی قیمت سات روپے مقرر ہوئی۔ یہ تاریخی سانحہ 16 مارچ 1846 کو واقع ہوا ہے اور اسے معاہدہ امرتسر کہتے ہیں۔ یہ ہے وہ دن جب سے کشمیر پر ڈوگرہ راج شروع ہوا اور جس کی جانشین اب ہندوستان کی حکومت اور اْس کے کشمیری ایجنٹ ہیں۔

ریاست جموں و کشمیر پر ڈوگرہ خاندان کی حکمرانی قائم ہو جانے کا یہ واقعہ اپنی نوعیت کا انتہائی انوکھا، عجیب و غریب اور انسانی جانوں کی خرید و فروخت کا شرمناک سانحہ ہے۔ ڈوگرہ خاندانوں نے اپنے 100 سالہ دور اقتدار میں یہاں کی اکثریت پر وہ مظالم ڈھائے جن کی یاد تازہ کرتے ہوئے حساس انسانوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اکثریتی آبادی کو ایک مٹھی بھر اقلیت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔ تمام کلیدی مناصب ایک چھوٹی سی اقلیت کے ہاتھوں میں دیے گئے۔ پھر ڈوگرہ فوج اور پولیس اْن کی زیادتیوں کی پشتی بان بن کر ان کو سہارا دیتی رہی۔

ریاست کی اکثریت محنت مشقت کرتی تھی اور قلیل اقلیت داد عیش دے رہی تھی۔ زمینیں اور جاگیریں ان لوگوں کے قبضے میں تھیں اور مسلمان غریب کاشت کاری کر کے بھی نان شبینہ کے محتاج رکھے جاتے تھے۔ کھڑکیوں، گھر کے چولہوں پر ٹیکس لگائے جاتے تھے۔ بیوی پر، گھر کے مویشیوں پر، ہر پیشہ پر حتیٰ کہ مکان پر چمنیاں لگانے پر ٹیکس عائد کر دیا جاتا تھا اور پھر ستم بالائے ستم یہ ہے کہ ان بے بسوں سے جبری محنت یعنی بیگار بھی لی جاتی تھی۔

ایک پوری قوم کو 75 لاکھ نانک شاہی میں خرید کر پھر اْس پر پوری ایک صدی تک بے پناہ مظالم ڈھائے جانے کے بعد 1947 میں آخر اس خاندان کے مہاراجہ آنجہانی ہری سنگھ کو کیسے یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ اپنی محکوم اور زر خرید ریاست کے عوام کی تقدیر کا فیصلہ کرے اور پھر اس کی بنیاد پر بھارت کو اپنی عریاں اور ننگی جارحیت کے لیے میدان فراہم کرے۔

عدل و انصاف کے معیار کو اگر سامنے رکھا جائے تو سارے جموں و کشمیر کی حدود میں خود ڈوگرہ خاندان کی حکمرانی ایک ظالمانہ اور باطل نوعیت کی تھی اور اس کا ہر اقدام ظالمانہ، غیر منصفانہ اور باطل قرار دیا جائے گا۔ اس لیے 26 اکتوبر 1947 کو جو الحاق اس بھاگتے ہوئے ڈوگرہ مہاراجہ نے کیا ہے اْس کی کوئی ذمہ داری ریاست جموں و کشمیر کے عوام کی بھاری اکثریت پر عائد نہیں کی جا سکتی اور نہ ان کو اس باطل معاہدہ کی پابندی کا ذمہ دار گردانا جا سکتا ہے۔

الحاق عارضی اور مشروط

مہاراجہ ہری سنگھ نے جو الحاق کیا تھا وہ بھی عارضی اور مشروط تھا۔ ہندوستان انگریزوں کی غلام سے آزاد ہوا اور تقسیم کی بنیاد دو قومی نظریہ بنی۔ پورے متحدہ ہندوستان میں جو علاقے ہندو اکثریت کے تھے وہ بھارت میں شامل کر دیے گئے اور جو علاقے مسلم اکثریت کے تھے وہ پاکستان میں شامل کر دیے گئے۔

600 کے قریب ریاستوں کے سربراہوں کو اختیار دے دیا گیا کہ وہ جغرافیائی سرحدوں اور اپنی آبادی کے مذہبی اور تہذیبی رشتوں کا لحاظ رکھتے ہوئے دو میں سے کسی ایک مملکت کے ساتھ اپنا سیاسی رشتہ قائم کریں۔ چنانچہ اْس وقت کے وائسرائے ہند کے الفاظ ہیں:

’یہ ریاستیں آزاد ہیں کہ دونوں مملکتوں میں سے جس کے ساتھ چاہے الحاق کر سکتی ہیں۔ لیکن جب میں یہ کہتا ہوں کہ وہ جس سے چاہے الحاق کے لیے آزاد ہیں تو میں اس بات کا اضافہ بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ کچھ جغرافیائی مجبوریاں ہیں جن سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔ آپ اس مملکت کی حکومت سے جو آپ کی ہمسایہ ہے دور نہیں جا سکتے۔ اور اسی طرح آپ اس رعایا کی مرضی کے خلاف بھی نہیں جا سکتے جس کی فلاح و بہبود کے آپ ذمہ دار ہیں۔‘

(لارڈ ماؤنٹ بیٹن، 25 جولائی 1947، چیمبر آف پرنس میں تقریر)

وائسرائے ہند کی اس رہنمائی کی رو سے ریاست جموں و کشمیر 85 فیصد مسلمانوں کی آبادی کے لحاظ سے اور 700 میل لمبی سرحد کے پاکستان کے ساتھ ملحق ہونے کی مناسبت سے ازخود پاکستان کا حصہ بن رہی تھی۔ انگریزوں نے اگر کانگریس کے ساتھ مل کر گھناونی سازش کے ذریعہ ضلع گرداس پور بھارت کے حوالے نہ کیا ہوتا تو بھارت کے لئے ریاست جموں و کشمیر کی حدود میں داخل ہونے کے لیے کوئی زمینی راستہ نہیں تھا۔

اکتوبر 1947 میں ریاست کی حدود میں قبائلیوں کی آمد کو بہت بڑا بہانہ بنایا جاتا ہے اور دنیا کے انسانوں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر یہ فریب دیا جا رہا ہے کہ قبائلیوں کی وجہ سے ہری سنگھ نے بھارت کی حکومت سے امداد طلب کی اور مشروط الحاق پر مجبور ہوا۔ سرحدی قبائل واقعی ریاست میں داخل ہو گئے لیکن اْس کی بنیاد یہ تھی کہ مہاراجہ نے اپنی روایتی مسلم دشمنی کی وجہ سے تقسیم ہند کے آثار رونما ہوتے ہی جولائی 1947 کو اپنی فوج اور پولیس کے مسلمان سپاہیوں کو غیر مسلح کر دیا تھا۔ اور اْن سب کو تمام اسلحہ اور ہتھیار اپنے اپنے قریبی پولیس تھانوں پر جمع کرنے کی واضح اور کڑی ہدایات دے دی گئی تھیں۔

اْس کے بعد ریاست کے سرحدی علاقوں خاص طور پر پونچھ، راجوری اور جموں صوبے کے دوسرے سرحدی علاقوں میں ہندو انتہا پسندوں کی مدد سے مسلمانوں کا قتل عام شروع کر دیا تھا۔ اس قتل عام کی اطلاعات سرحد کے پار قریبی علاقوں تک پہنچ گئیں اور وہاں کے مسلمان قبائل اپنے بھائیوں کی مدد کے لیے وادی کشمیر میں داخل ہو گئے۔

یہ پہلا واقعہ نہیں تھا بلکہ 1931 میں جبکہ سینٹرل جیل سری نگر کے احاطہ میں مسلمانوں پر بے تحاشہ گولیاں چلا کر 22 بے گناہ مسلمانوں کو شہادت کا جام پلایا گیا تو نزدیکی سرحد کے پار مسلمانوں میں زبردست اضطراب اور بے چینی پیدا ہو گئی اور وہ اپنے مظلوم کشمیری مسلمانوں کی مدد کے لیے کشمیر میں داخل ہونے کے لیے اپنے گھروں سے نکل آئے۔ چنانچہ انگریزوں نے اس موقعہ پر 30 ہزار مسلمانوں کو گرفتار کر لیا، تاکہ وہ کشمیر میں داخل نہ ہو سکیں۔ 1947 میں قبائلیوں کی آمد اسی دینی ہمدردی کے جذبات کا اظہار تھا مگر شعبدہ بازوں نے ایک طرف اْن کے ساتھ اپنے غنڈے لا کر غلط کارروائیاں کر وائیں اور دوسری طرف مہاراجہ کو بھارت کے ساتھ الحاق کرنے کے لیے اس کو سیاسی چال کی حیثیت سے اختیار کر لیا۔

آنجہانی مہاراجہ ہری سنگھ نے سری نگر سے بھاگ کر جموں میں اپنے محل میں رہتے ہوئے گرد و پیش کی پوری آبادی میں مسلمانوں کو تہہ تیغ کرتے ہوئے 26 اکتوبر 1947 کو بھارت کے سیکرٹری آف سٹیٹ کو دستاویز الحاق پر دستخط کر دیے۔ اور ان کی حکومت نے 27 اکتوبر 1947 کو اپنی فوجیں سرزمین جموں و کشمیر میں اتار کر انسانی، اخلاقی اور جمہوری قدروں کی پامالی کا آغاز کر دیا۔

اس الحاق کی نوعیت کے بارے میں 27 اکتوبر 1947 کو ہندوستان کے گورنر جنرل نے مہاراجہ کے نام اپنے خط میں لکھا:

’اپنی اس پالیسی کے مطابق ہر اْس ریاست کے بارے میں جس کے الحاق کا مسئلہ متنازعہ نہ ہو جائے۔ اْس کے الحاق کے سوال کا فیصلہ اْس ریاست کے عوام کی مرضی کے مطابق ہو جانا چاہیے۔ میری حکومت چاہتی ہے کہ جیسے ہی کشمیر میں امن و امان بحال ہو ریاست کے الحاق کا فیصلہ عوام کی طرف رجوع کے ذریعہ کیا جائے۔‘

(لیٹر فرام گورنر جنرل آف انڈیا ٹو مہاراجہ آف کشمیر، 27 اکتوبر 1947)

انہی دنوں آنجہانی پنڈت نہرو نے وزیر اعظم پاکستان لیاقت علی خان مرحوم کے نام اپنے تار میں لکھا ہے:

’ہماری یہ یقین دہانی کہ جیسے ہی امن و امان قائم ہوگا ہم کشمیر سے اپنی فوجیں واپس بلائیں گے اور کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ ریاست کے عوام پر چھوڑ دیں گے۔ یہ صرف آپ کی حکومت کے ساتھ ایک عہد نہیں ہے بلکہ کشمیر کے عوام اور پوری دنیا کے ساتھ ایک وعدہ ہے۔‘

(ٹیلی گرام 225، ٹو پاکستانی پرائم منسٹر، 31 اکتوبر 1947)

سلامتی کونسل کے سامنے ہندوستان کے نمائندے نے جنوری 1947 میں کہا:

’اپنے ہمسائیوں اور پوری دنیا کے ساتھ کشمیر کے مسلہ سے متعلق یہ سوال کہ وہ ہندوستان سے اپنا الحاق کرے یا آزاد رہے، ہم نے اس بات کا اقرار کیا ہے کہ ان امور کا انحصار کشمیری عوام کے بے قید فیصلہ پر ہے جو امن بحال ہوتے ہی وہ کر لیں گے۔‘

(227 میٹنگ آف دی سکیورٹی کونسل، 15 جنوری 1948)

بھارتی حکومت اور اْس کے لیڈروں نے خود بھی اس بات کا اعتراف کر لیا ہے کہ مہاراجہ کا الحاق وقتی اور عارضی ہے اور الحاق کا آخری فیصلہ عوام ہی کریں گے۔ آنجہانی پنڈت نہرو کے الفاظ ہیں:

’خواہ کچھ بھی ہو شروع سے ہی ہندوستان نے اس اصول کی پابندی کا عہد کیا ہے کہ ریاست کے بارے میں آخری فیصلہ عوام کے ہاتھوں میں ہوگا اور اس عہد سے کسی صورت میں بھی فرار اختیار نہیں کیا جا سکتا۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کی بنا پر ہندوستان نے 1947 میں کشمیر کے الحاق کو صرف عارضی طور پر منظور کیا تھا۔ اصل فیصلہ عوام کی مرضی کے اظہار پر ہونا ہے۔‘

(دی ٹائمز آف انڈیا، بمبئی 7 جولائی 1952)

اقوام متحدہ کی قراردادیں

یہی بات ہے کہ جس کا اقرار سکیورٹی کونسل نے کیا اور اس کی قراردادوں کو حکومت ہندوستان نے منظور کیا۔

21 اپریل 1948 کی قرارداد میں کہا گیا ہے:

’ہندوستان اور پاکستان دونوں چاہتے ہیں کہ ریاست جموں و کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ رائے شماری کے ذریعے ہوگا۔‘

13 اگست 1948 کی قرارداد ہے

’ریاست جموں و کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ اْس کے عوام کی رائے سے ہوگا۔‘

5 جنوری 1949 کی قرارداد کے الفاظ ہیں

’دونوں حکومتیں تسلیم کرتی ہیں کہ ریاست جموں و کشمیر کا مسئلہ جمہوری طریقہ سے آزادانہ اور غیر جانبدارانہ رائے شماری سے طے ہونا چاہیے۔‘

اول۔ ووٹروں پر نہ تو ناجائز دباؤ ڈالا جائے گا۔ نہ دھونس دھمکی یا رشوت سے کام لیا جائے گا۔

دوم۔ ہر فرد کو بلا امتیاز مذہب و ملت اظہار رائے کی پوری آزادی ہوگی اور کسی جائز سیاسی سرگرمی پر کوئی پابندی نہ ہوگی۔

سوم۔ کسی شخص کو اظہار رائے پر نشانہ انتقام نہ بنایا جائے گا۔

23 دسمبر 1952 کی قرارداد میں کہا گیا ہے

’سکیورٹی کونسل اس قرارداد کی پھر یاد دہانی کراتی ہے جس میں ہندوستان اور پاکستان دونوں نے کشمیر میں آزادانہ غیر جانبدارانہ رائے شماری کا فیصلہ کیا تھا۔’

16 نومبر 1957 کی قرارداد کے الفاظ یہ ہیں:

’دونوں حکومتیں (ہند و پاک) اب بھی 13 اگست 1948 اور 5 جنوری 1949 کی قراردادوں کو تسلیم کرتی ہیں جن میں ریاست جموں و کشمیر کی آزادانہ اور غیر جانبدارانہ رائے شماری کا فیصلہ کیا گیا تھا۔‘

یہ ہیں وہ ناقابل تردید تاریخی حقائق اور شواہد جن سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کا الحاق عارضی اور مشروط ہے اور بھارت کے نیتاؤں نے پوری دنیا کے ساتھ اور ریاست جموں و کشمیر کے عوام کے ساتھ رائے شماری کا وعدہ کیا ہے۔ اگر اس وقت ریاست کے عوام اس وعدہ کو پورا کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں تو وہ کون سا ایسا جرم کر رہے ہیں جس کی سزا آپ کی حکومت ان کو گولیوں، برچھیوں، سنگینوں، گرفتاریوں اور قید و بند کی صعوبتوں سے دے رہی ہے۔

بھارت کی پالیسی کا نمایاں تضاد

بھارت نے حیدرآباد، جوناگڑھ اور منادور میں اسی بنیاد پر فوج کشی کر کے قبضہ کر لیا ہے اگرچہ ان ریاستوں کے سربراہوں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کیا تھا مگر چونکہ ان ریاستوں کی آبادی کی اکثریت ہندوؤں پر مشتمل ہے اس لیے ان کو بھارت کے ساتھ ملایا جانا چاہیے۔ کیونکہ کسی ریاست کے سربراہ کا اقدام اگر ریاست کی آبادی کے اکثریتی طبقہ کی خواہشات، اْن کے مذہبی رجحانات اور تہذیبی و تمدنی تقاضوں کے خلاف ہوگا تو اْس کو قبول نہیں کیا جائے گا۔

یہی موقف ریاست جموں و کشمیر میں اپنایا جانا عدل و انصاف اور دیانت و امانت کا تقاضا تھا۔ مگر بھارت نے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل میں ان بنیادی تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کر مہاراجہ کی دستاویز الحاق کو تسلیم کر کے ریاست پر فوج کشی کا بے بنیاد جواز پیدا کر دیا اور گزستہ 42 سال سے وہ مسلسل اس ننگی جارحیت کا ارتکاب کرتے ہوئے کوئی شرم محسوس نہیں کر رہا ہے۔

کشمیر پر بھارتی قبضہ کی واحد دلیل

بھارت کے پاس ریاست جموں و کشمیر پر اپنا فوجی اور آمرانہ تسلط جاری رکھنے کے لیے جو آخری دلیل ہے وہ یہ کہ ’جس کی لاٹھی اْس کی بھینس‘ چونکہ میرا قبضہ ہے، میرے پاس فوجی اور مادی قوت اور طاقت ہے۔ جو لوگ میرے قبضہ کو غیر قانونی، غیر اخلاقی، غیر جمہوری اور انسانی آزادی کے خلاف بتاتے ہیں۔ وہ قوت، طاقت، فوج، اسلحہ اور مادی ساز و سامان کے لحاظ سے کمزور ہیں۔ اس لیے اْن کی دلیل تسلیم نہیں کی جائے گی۔

اسی آخری دلیل کے سہارے بھارت اس وقت ریاست جموں و کشمیر کی حدود میں دندناتا پھر رہا ہے۔ وہ ظلم و جبر اور بربریت و سفاکیت کی تمام حدود کو پھلانگ چکا ہے۔ گزشتہ 42 سالہ دور اقتدار میں بھارت نے ہزاروں لوگوں کی زندگیاں چھین لیں، ہزاروں بار گولیوں اور سنگینوں سے کشمیر کے حریت پسندوں کو شہید کر دیا، بستیوں کی بستیاں تباہ و برباد کر دیں، عزتیں اور عصمتیں لوٹیں، نوجوانوں کی اٹھتی جوانیاں مسل دیں، ہزاروں بچوں کو یتیم بنا دیا، دوشیزاؤں کے سہاگ لوٹے، آگ و خون کے کھیل کھیلے، تعذیب خانوں میں جوانوں کو نشانہ عذاب بنایا، جیل خانے، حوالات، انٹروگیشن سنٹر کبھی بھی خالی نہیں رہے۔ سینکڑوں لوگ ہمیشہ ان کی زینت بنے رہے اور بھارت اپنے زرخرید ایجنٹوں کے ذریعے جذبہ حریت کو پامال کرتے ہوئے اپنا سامراجی تسلط استوار اور مستحکم بناتا رہا۔

آخر دنیا کی تاریخ کیا بھارت کی اس دلیل کو ریاست پر اپنا ناجائز قبضہ ہمیشہ قائم رکھنے کے لیے قبول کرتی ہے؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔ اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے پوری دنیا کی تاریخ کو کھنگالنا پڑے گا اور اس کے لیے ایک طویل دفتر کی ضرورت ہے۔

بھارت کا تسلط ناقابل قبول

ریاست جموں و کشمیر کے عوام کی بھاری اکثریت نے بھارتی حکومت کے استبداد کے خلاف، ہر طرح سے اپنی آواز بلند کی ہے۔ گزشتہ 42 سال سے یہ جدوجہد جاری ہے۔ مگر گزشتہ دو سال سے اس جدوجہد نے ایک ٹھوس اور مرئی شکل اختیار کر لی ہے۔

چنانچہ مسلح جدوجہد کرنے والے نوجوانوں کے ساتھ ریاست کے عوام کی بھاری اکثریت اپنے معاشی اور اقتصادی مفادات سے بالاتر ہو کر اپنی یکجہتی کا بھرپور مظاہرہ کر رہی ہے اور ہڑتال اور احتجاج کی کال پر 100 فیصدی ساتھ دیا جا رہا ہے۔

26 جنوری، 15 اگست کے دن یوم سیاہ کے طور پر منائے جا رہے ہیں۔ 27 اکتوبر کو بھارت کی جارح فوجوں کی آمد کے تناظر میں خاموش اور بھرپور احتجاج کیا جا رہا ہے۔ بھارت کی فوجوں اور ریاست کی ایجنٹ حکومت کی زیادتیوں، گولیوں، لاٹھی چارج اور گرفتاریوں کے خلاف زبردست اور ہمہ گیر احتجاج کر کے مظلوم اور نہتی قوم اپنے جذبات کا اظہار کرتی ہے۔

اس وقت بھی ریاست کے مختلف جیلوں میں ہزاروں نوجوان اور حریت پسند قید و بند کی صعوبتوں کو گزشتہ دو سال سے مسلسل جھیلتے اور برداشت کرتے چلے آ رہے ہیں۔ ہیرا نگر، کٹھوعہ، جموں سنٹرل جیل، ادھم پور، سری نگر سنٹرل جیل، کوٹھی باغ سب جیل اور دوسرے درجنوں انٹروگیشن سنٹروں میں اس وقت بھی ہزاروں لوگ جدوجہد آزادی کے خاکے میں اپنی بیش بہا قربانیوں اور ایثار سے رنگ بھر رہے ہیں۔

آخر بھارت کی حکومت کب تک ظلم و بربریت کے ان ہتھکنڈوں سے کام لیتے ہوئے جذبہ حریت اور جوش آزادی کو ٹھنڈا کرتی رہے گی؟

تاریخ نے ظلم اور بربریت سے قوموں کی آزادی کو دبانے اور سلب کرنے کے واقعات کے نتیجہ خیز ہونے کی کوئی شہادت پیش نہیں کی ہے۔

اگر ایسا ہوتا تو برطانیہ کے زیر اثر بھارت اور اب دوسرے درجنوں ممالک میں اس وقت کمیونزم کے جبر و استبداد اور پارٹی ڈکٹیٹرشپ کے خلاف عوامی احتجاج کی صدائیں بلند نہ ہوتیں اور لاکھوں لوگ سڑکوں اور گلی کوچوں میں نکل کر اپنا گرم گرم خون نہ بہاتے۔ اگر ایسا ہوتا تو برلن کی 29 میل لمبی دیوار ٹوٹ پھوٹ کر مشرقی اور مغربی برلن کے باسیوں کو ایک دوسرے سے بغل گیر ہونے کے مواقع فراہم نہ کرتی۔

اگر ایسا ہوتا تو 27 دسمبر 1979 میں افغانستان میں روسی جارحیت کو دوام مل چکا تھا اور فروری 1979 میں روسی فوجوں کی شکست خوردہ مراجعت تاریخ کے صفحات پر ثبت ہو کر نہ رہ جاتی۔ اور آج بھی افغان مجاہدین روس کی زرخرید اور ذہنی غلامی میں مبتلا نجیب سرکار کے خلاف خاک و خون میں تڑپ کر جذبہ آزادی کو خراج پیش نہ کرتے۔

آخر بھارت کی سرکار کب تک تاریخ کے ان زندہ و جاوید حقائق کو جھٹلاتے ہوئے ریاست جموں و کشمیر کی حدود میں اپنا فوجی تسلط برقرار رکھے گی؟

بھارت کے صدر آر وینکٹا رمن نے 20 دسمبر 1989 کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس میں کہا:

’ریاست کی صورتحال انتہائی نازک ہے اور ملک کے اتحاد، سالمیت اور یکجہتی کی قیمت پر علیحدگی پسندوں کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ ریاست کے لوگوں کو درپیش مسائل کا تفصیلی جائزہ لیا جائے گا تاکہ جلد از جلد اْن کا دیرپا حل تلاش کیا جا سکے۔‘

(بحوالہ قومی آواز، سری نگر، 21 دسمبر 1989)

جناب صدر جمہوریہ ہند نے اس حقیقت کا اعتراف کر لیا ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کی صورتحال انتہائی نازک ہے مگر اْن کا یہ فرمانا کہ ’ملک کے اتحاد، سالمیت اور یکجہتی کی قیمت پر علیحدگی پسندوں کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا‘ واقعات اور تاریخی حقائق کے بالکل خلاف ہے۔

ریاست جموں و کشمیر کی حدود میں کوئی علیحدگی پسند نہیں ہے بلکہ یہاں کے لوگ ریاست کی 42 سالہ متنازعہ حیثیت کو اقوام متحدہ کی تسلیم شدہ قراردادوں کی روشنی میں حل کرنے کے بھارت کے وعدوں کو پورا کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ’اٹوٹ انگ‘ کی رٹ بھارت کی فوجی قوت اور مادی طاقت کے نشے کی صورت حال کا افسوسناک اور رنجیدہ نتیجہ ہے ورنہ ریاست جموں و کشمیر کبھی بھی بھارت کا جائز اور تسلیم شدہ حصہ نہیں رہا ہے کہ اس کے مستقبل کا فیصلہ چاہنے والوں پر علیحدگی پسند کا الزام عائد کیا جائے۔

ریاست جموں و کشمیر کے لوگ اگر آزادانہ استصواب کے ذریعہ بھارت سے علیحدگی اختیار کریں گے۔ پاکستان کے ساتھ اپنی تقدیر وابستہ کریں گے یا ایک آزاد اسلامی جمہوریہ کی حیثیت سے اپنا مستقبل تعمیر کرنے کی راہ اختیار کریں گے تو اس طرح بھارت کی سالمیت اور یکجہتی کسی بھی حال میں مجروح نہیں ہوگی کیونکہ ریاست جموں و کشمیر، مہاراشٹر، کیرالہ، راجستھان یا کسی دوسری ریاست کی طرح بھارت کا حصہ نہیں رہا ہے بلکہ 1947 سے یہ ریاست ایک متنازعہ خطہ کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر اور خود ریاست کی جغرافیہ کے نقشے پر موجود ہے۔ اس لیے مستقبل تصفیہ کی صورت میں کسی بھی ملک کی سالمیت مجروح ہو جانے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے۔

ریاست کے عوام کو درپیش مسائل میں اولین اور بنیادی حیثیت صرف اور صرف اسی مسئلے کو حاصل ہے کہ بھارت بین الاقوامی سطح پر کیے ہوئے استصواب کے وعدہ کو پورا کرنے کا جلد از جلد اہتمام کرے۔ تاشقند معاہدہ اور شملہ معاہدہ ریاست کے عوام نے رد کر دیے ہیں۔ کیونکہ ان دونوں معاہدوں کی تشکیل اور ترتیب میں ریاست کے عوام کی کسی طرح کی شرکت نہیں رہی ہے۔ اور آپ کو یہ حقیقت بھی ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ ریاست کا مسئلہ کوئی سرحدی تنازعہ نہیں ہے۔

میں بغیر کسی لاگ لپٹ کے ریاست کے عوام کی بھاری اکثریت کے جذبات کی ترجمانی کا حق ادا کرتے ہوئے آپ کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ اگر آپ کی حکومت نے بھی گزشتہ 42 سالہ کوششوں کو دہرانا شروع کر دیا اور چھوٹے چھوٹے اقتصادی اور معاشی مسائل حل کرنے تک ہی آپ کی حکومت محدود رہی تو ریاست جموں و کشمیر کے حالات اور زیادہ نازک صورت اختیار کریں گے اور یہاں کا ایک ایک فرد اپنی جان کی قیمت پر اپنے مستقبل کو آپ کی حکومت کے فوجی اور جابرانہ تسلط سے آزاد کرنے کی راہ اختیار کرے گا اور خون خرابہ کی ساری ذمہ داری بھارت پر عائد ہوگی۔

آپ کو یہ بھی بتا دوں کہ ریاست جموں و کشمیر کے ہند اور سکھ بھائی ہمارے اپنے بھائی اور ہمارے اجتماعی وجود کے حصے ہیں۔ بھارت کی حدود میں آئے دن کے مسلم کش فسادات کا بدلہ نہ آج تک یہاں لینے کی کوئی کوشش ہوئی اور نہ آئندہ اس قسم کی کسی مذموم غیر اسلامی اور غیر انسانی کوشش کی اجازت دی جائے گی۔ ہماری جدوجہد بھارت کے جابرانہ فوجی تسلط کے خلاف ہے اور اس طرح ہماری جنگ مظلوم اور ظالم کی جنگ ہے، غاصب اور مغضوب کی جنگ ہے۔ اس میں فرقہ وارانہ میل ملاپ اور یکجہتی کو نقصان پہنچانے کی کسی کو اجازت نہیں دی جائے گی۔ اگر ایسی کوئی کوشش کی گئی تو اْس میں براہ راست یا بالواسطہ بھارت کی ریشہ دوانیوں اور میکاولی سیاست کاروں کا ہی عمل دخل ہوگا۔ اور ریاست کے عوام کی اکثریت آج ہی اْس سے اعلان برات کرتی ہے۔

جناب وزیر اعظم ہند

آپ سے رخصت ہوتے ہوئے 14 دسمبر 1989 کو سوپور اور بارہمولہ میں اور 15 دسمبر 1989 کو سری نگر، اسلام آباد (اننت ناگ) اور شوپیاں میں کرفیو نافذ کرنے کی صورت حال کے بارے میں مختصراً غرض کروں گا کہ بغیر کسی معقول جواز اور وجہ کے کرفیو کا نفاذ ہوا ہے اور کرفیو کے دوران تمام مقامات پر فوج، پولیس، سی آر پی ایف اور دوسرے نیم فوجی دستوں نے گھروں میں گھس کر عورتوں کی بے حرمتی کی، بچوں اور بوڑھوں کو زد و کوب کیا، گھروں کا اثاثہ اور مال و اسباب لوٹ لیا گیا، کھڑکیاں، دروازے، مکانوں کی سیڑھیاں توڑ پھوڑ کر جلا ڈالی گئیں، بے گناہ راہ چلتوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ غلام حسن گنائی المعروف راجہ کرہامہ گاندربل اور سوپور کے ایک نوجوان محمد یوسف کو بھی آپ کی بے رحم فوج کے آدمیوں نے گولی کا نشانہ بنایا۔

22 دسمبر 1989 کو سوپور قصبہ میں پھر گولی چلائی گئی، ایک اور نوجوان کا خون بھارت سرکار کے سر چڑھ گیا ہے۔ پھر ایک بار کرفیو کا نفاذ کر کے بربریت کی روش کو طول دیا جا رہا ہے۔ یہ نوجوان اعجاز احمد اس وقت صدر ہسپتال میں موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہے۔ اس طرح آپ کی حکومت کے اس دعویٰ کے باوجود کہ آپ جلد بازی میں کوئی اقدام نہیں کریں گے، بلکہ حالات کا تفصیل سے جائزہ لینے کے بعد ہی کسی مثبت حل کی طرف پیش قدمی کریں گے۔ آپ کی فوج اور ریاستی پولیس لوگوں کو جبر و تشدد کا نشانہ بناتی ہے۔

بلاوجہ کرفیو کا نفاذ اور پھر پوری وادی کو فوجی کی تحویل میں دینے کا عمل بھارت کے 42 سالہ متشددانہ اور ظالمانہ اقدامات کا ایک حصہ ہے اور کشمیر کے غیور اور حریت پسند عوام نے جس حوصلہ، ہمت، صبر اور برداشت سے اس صورت حال کا مقابلہ کیا ہے اْس کو دیکھ کر آپ کی حکومت کو اپنے کند ہتھیاروں کے استعمال سے باز آ کر جمہوری اور انسانی قدروں کا احترام کرتے ہوئے آزادانہ ماحول میں یہاں کے عوام کو اپنا مستقبل طے کرنے کا موقع فراہم کر کے پوری دنیا میں بھارت کے وقار میں اضافہ کرنے کا اقدام کرنا چاہیے۔

آپ کا خیر اندیش
سید علی گیلانی
21 دسمبر 1989

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔