کچھ تو خیال کرو

سعد اللہ جان برق  جمعرات 28 اکتوبر 2021
barq@email.com

[email protected]

ہمیں سب سے زیادہ تعجب تو اس بات پر ہے کہ یہ ’’چیز‘‘جسے ہم ’’پاکستانی‘‘ کہتے ہیں ،ہے کیا؟ پورے اکہتربہترسال ان کے ساتھ گزارنے کے بعد بھی ہم یہ پتہ نہیں لگاپائے کہ پاکستانی نام کی یہ ’’چیز‘‘ اگر ’’چیز‘‘ ہیں تو کیا’’چیز‘‘ ہیں اوراگر نہیں ہیں تو کیاکیاچیزنہیں ہیں اور روز اول کی طرح اگر ہو بھی تو کوئی پوچھے تو ہم صرف یہی کہہ سکتے ہیں کہ  ؎

کبھی گماں کبھی یقین سمجھے

زندگی ہم تجھے نہیں سمجھے

مثلاً آج جس منہ کو دیکھئے جب بھی کھلتا ہے تو مہنگائی مہنگائی کہنے کے لیے کھلتا ہے بلکہ سارے ہی منہ کھلے ہیں اورسب سے یہی ایک لفظ لگاتاراور ریپڈ نکل رہا ہے ،مہنگائی مہنگائی مہنگائی ۔

کم بختو یہ اتنے سارے الفاظ ہیں جو یہاں وہاں سارے وزیرمشیراورمعاونین خصوصی اوروژن والے استعمال کررہے ہیں ، اینکراوربھنکر جن کی دن رات جگالیاں کررہے ہیں،اخبارات کے دانا دانشور جن کی قوالیاں گارہے ہیں لیکن تم ان میں سے کوئی بھی لفظ دہرانے کی بجائے بس ایک نقطہ پکڑے ہوئے ہوں،مہنگائی اف مہنگائی ہائے مہنگائی، کیا ڈکشنریوں کے باقی سارے الفاظ اڑگئے ہیں، مٹ گئے ہیں، غائب ہوگئے ہیں۔

خدا کو مانو،وژن کو سمجھو،ریاست مدینہ کی خاطرکرو اپنے بڑے بڑے صادقوں اور امینوں کا لحاظ کرو اورکچھ بھی نہیں تو انصاف کرو،بلکہ تحریک انصاف کرو،پٹائی کرو، کہ صرف مہنگائی ہی تو اس ملک میں نہیں ہے اوربھی بہت کچھ ہے، کیاکیا مفت تقسیم نہیں ہو رہا ہے اورکیاکیاہے جو گھر گھر اوردہلیزدہلیزپہنچ رہا ہے۔

شفق دھنک مہتاب ہوائیں بجلی تارے نغمے پھول

اس دامن میں کیاکیاکچھ ہے وہ دامن ہاتھ میں

اوروہ ’’دامن‘‘تم کم بختوں کے ہاتھ میں آچکا ہے لیکن تم پھر بھی ناشکرے بن کر وہی ایک رٹ لگائے ہوئے ہو مہنگائی مہنگائی مہنگائی۔

سچ کہیے تو اس میں حکومت یا اس کے ’’کٹ‘‘کا کوئی قصورنہیں ہے وہ تو اپناکام کرکے حق حلال کی مزدوری لے لیتے ہیں باقی سارا کیادھرا تو تمہارا ہے۔

سو بات کی ایک بات یہ ہے کہ کوئی چیزمہنگی ہے تو مت خریدو،مرنہیں جائو گے اورنہ ہی تاریخ میں ایسی کوئی مثال ہے کہ کوئی شخص کسی چیزکے ’’نہ خریدنے‘‘ سے مرا ہو بلکہ نہ خریدنے سے فائدہ ہی فائدہ ہوتا ہے مثلاً اگرآپ شکرخریدنا چھوڑدیں تو اس کے ساتھ جو ہزارہزار بیماریاں لگی ہوئی ہیں ان سے بھی بچ جائوگے اور’’کمائی‘‘ بھی ہو جائے گی۔

اس کمائی کاذکر ہم کافی عرصہ پہلے ہی کر بھی چکے ہیں وہ ایسا ہوا کہ ہم نے کسی اخبار یاکتاب میں یا ٹی وی پر کسی دانا دانشور کا یہ قول زریں سنا کہ جو پیسہ تمہارے ہاتھ یاجیب یابنک میں ہے اگر اسے خرچ کرنے سے بچائو گے تو یہ ایسا ہے جیسے تم نے وہ پیسہ پھر سے کمالیا۔

اس قول زریں کو گانٹھ باندھ کر ہم حسب معمول بازار سے ہو کر گھر جانے لگے تو ایک جگہ خربوزوں کا یہ بڑا ڈھیر پڑا ہوا تھا اور ہرہر خربوزہ ہمیں دیکھ دیکھ کر آنکھیں مارنے لگا ،ہم نے دکاندار سے پوچھاکتنے کا ہے بولاڈھائی سو روپے کا،ہم نے خربوزے کو در فٹے منہ کرکے بیٹے سے کہا ،حساب رکھو یہ رہے ڈھائی سو روپے جو ہم نے خربوزہ نہ خرید کر بچالیے بلکہ کمالیے۔

آپ یقین کریں اس دن جب ہم گھر پہنچے اور بیٹے سے حساب پوچھاتو ہم تین ہزار روپے بچا کر کماچکے تھے،اورمزے کی بات یہ ہے کہ نہ ہمیں کچھ ہوا نہ گھر میں کسی اورکو، اچھے خاصے سوئے اوردوسرے دن زندہ جاگے اورابھی تک یہ سلسلے جاری ہیں ،ابھی کل ہی کی بات ہے ہمارے سامنے سے ایک سیاسی جماعت والے کی چمچماتی گاڑی گزری جو چند سال پہلے خربوزہ اورسبزی بیچتا تھا، ہم نے حساب لگایاتو ایسی گاڑی خریدنے کے لیے ہمارے پاس پیسہ پورا ہو سکتا تھا۔

تھوڑی سی زمین اورگھر بیچ کر اوربنک سے لون لے کر خرید سکتے تھے لیکن پھر اس بزرگ کے قول زرین کا خیال آگیاتو بڑے آرام سے یہ سب کچھ ہم نے بچا لیا،آپ قسم لے لیں ہمیں کچھ بھی نہیں ہواہے،اورپھر تم ذراخیال کرو،ایک طرف تو ایک کروڑدکانوں کی ریوڑیاں بھی چاہتے ہو، کروڑوں نوکریوں کے بتاشے بھی مانگتے ہو،بے نظیرانکم سپورٹ، ہشاش بشاش احساس حساس کی جلیبیاں بھی کھاناچاہتے ہو، رنگ برنگے قرضوں کے شکر پارے بھی مانگتے ہو اورمہنگائی مہنگائی بھی الاپ رہے ہو،کچھ خیال ہے کہ نہیں؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔