’’دی چیلنج‘‘

ناصر ذوالفقار  اتوار 31 اکتوبر 2021
خلاء میں بننے والی دنیا کی پہلی فیچر فلم ۔ فوٹو : فائل

خلاء میں بننے والی دنیا کی پہلی فیچر فلم ۔ فوٹو : فائل

قازقستان کے بیکونور خلائی مرکز پر خلائی جہاز کا راکٹ فائر ہونے کے لیے بے قرار ہے۔ ادھر ذرا اس خوب رو اور دھان پان سی اداکارہ کی خوداعتمادی کا لیول چیک کریں جو کہ کوئی پیشہ ور خلاباز تو نہیں ہے اور ایک بالکل اجنبی مقام کی طرف جانے والی ہے۔

اس کے باوجود اس کے چہرے پر کسی قسم کی گھبراہٹ یا پریشانی کے اثرات دکھائی نہیں دیتے بلکہ وہ پُراعتماد طریقے سے پاکٹ سائز آئینے میں اپنے چہرے کا آخری بار سرسری جائزہ لے رہی ہے۔ یہ روس کی ایک مقبول گلوکارہ اور اداکارہ یولیا پیریسلڈ(Yulia Peresld) ہیں جن کے فلمی کیریئر پر متعدد کام یاب فلمیں اور کئی گانے ہیں۔

37 سالہ یولیا نے 5 اکتوبر 2021 ء کو خلاء کی تاریخ میں ایک نئی تاریخ رقم کردی ہے جب وہ اپنے فلم ڈائریکٹر کے ساتھ خلائی اسٹیشن آئی ایس آئی پہنچیں اور خلاء میں شوٹ ہونے والی دنیا کی پہلی مووی ’’دی چیلینج‘‘ کے لیے عکس بندی میں مصروف رہیں اور اب وہ دنیا کی پہلی اداکارہ یا ہیروئن بن چکی ہیں جو کہ اگلے برس خلاء میں بننے والی فلم میں پیش ہوںگی۔

روس کاسموس کی جانب سے یہ پہلا موقع ہے جب ماہر خلاباز وں کے علاوہ عام خلائی مسافروں کو خلاء میں بھیجا گیا ہے۔ ان مہمان خلابازوں میں یولیا کی فلم کے ڈائریکٹر 38 سالہ کلمِ شپینکو(Kilm Shipenko) ان کے ہم راہ ہیں، جب کہ ایک ماہر روسی خلابازاینتن شاکیپلیروو(Anton Shakaplerov) اس فلمی مشن کے کمانڈر تھے۔

49 سالہ خلاباز اینتن کی خلائی اسٹیشن پر آمد ان کی چوتھی اینٹری ہے جو کہ بننے والی فلم میں ایک مہمان اداکار کے طور پر نظر آئیں گے۔ یوں روس کی جانب سے اب تک کسی بھی فیچر فلم کی عکس بندی کے لیے اولین موقع اور ایک تاریخی واقعہ ہے جب خلاء میں فلمی عملے کی روانگی ہوئی اور اسٹیشن پر عکس بندی کی گئی ہے تو روس نے مدمقابل امریکا کی فلم نگری ہالی وڈ کے خلاف یہ دوڑ جیت لی ہے۔ روس کی جانب سے یہ بھی پہلا موقع ہے جب دو عام شہریوں کو خلائی مسافر کے طور پر خلاء کی جانب روانہ کیا گیا تھا۔

یاد رہے کہ سال کے آغاز پر امریکا کی جانب سے ہالی وڈ کی مشہورزمانہ فلم سیریز ’’مشن امپوسیبل‘‘ کے سلسلے کی مووی بنانے جانے کا اعلان کیا گیا تھا جس میں مرکزی کردار ادا کرنے والے اداکار ٹام کروز خلاء میں فلم بندی کے لیے جائیں گے۔ ٹام کروز کو اسپیس ایکس کے چیف ایلون مسک کی جانب سے خلاء میں بھیجا جائے گا۔ خلائی سیّاحت میں ایک اور بڑی پیش رفت ماہ اکتوبر میں ہوچکی ہے۔13 اکتوبر کو بدھ کی صبح آن لائن کامرس کمپنی ایمازون کے چیف جیف بیزوس کی جانب سے معروف کلاسک ٹی وی ’’اسٹارٹریک‘‘ کے لیجنڈری اسٹار ولیم شینٹر کو خلائی سفر پر بھیجا گیا اور وہ اب حقیقی زندگی کے بھی خلاباز بن چکے ہیں۔

ولیم شینٹر (کیپٹن کرک) کو کمپنی کے راکٹ نیو شیپرڈ کے ذریعے ’’بلیوارجن‘‘ خلائی جہاز میں بھیجا گیا تھا جو کہ کمپنی کا دوسرا سیاحتی مشن ہے اور اس طرح لیجنڈری اداکار اب خلاء میں جانے والے پہلے مرد اداکار اور سب سے معمر خلاباز بھی بن چکے ہیں جن کی عمر 90 برس ہے جب کہ اس سے پہلے بلیو اور جن کے پہلے سیاحتی سفر میں 82 سالہ خاتون بیزوس کے ساتھ گئی تھیں۔

5 اکتوبر کو خلائی اسٹیشن ISS پر روسی فلمی عملے کی آمد کے ساتھ ہی خلابازوں کی تعداد 10ہوچکی تھی۔ ان میں تین امریکی، تین روسی، ایک جاپانی و یورپی انٹرنیشنل خلاباز جب کہ دو روسی مسافر مہمان شامل ہیں۔ ان خلابازوں میں اب دو خاتون خلاباز ہیں جن میں چھ ماہ سے موجود امریکا کی میگن مک آرتھر پہلے سے اسٹیشن پر ڈیوٹی دے رہی ہیں۔ عالمی خلائی اسٹیشن اپنی زندگی کے 21 ویں سال میں ہے اور جس پر ایکسپیڈیشنز کے نام سے تجربات کیے جاتے رہے ہیں۔ اس وقت اسٹیشن پر ’’ایکسپیڈیشن۔65 ‘‘ کا عملہ تعینات ہے جو کہ اپنے روزمرہ و تحقیقاتی کاموں میں مصروف عمل ہے۔

اس ایکس۔65 کے کمانڈر یورپی خلائی ایجنسی (ESA) کے خلاباز تھامس پیسکیوٹ (Tomas Pesquet) ہیں ان کے ساتھ ناسا کے فلائیٹ انجینئرمارک وینڈ ہیں (Mark Vande Hei) ، دوسری فلائیٹ انجینئرخاتون میگن آرتھر، شین کم بروگ (Shane Kimbroagh) ، جاپان کے خلاباز آکی ہیکو ہوشیڈے   ,(Akihiko Hoshide) دو روسی خلاباز اولیگ نووتکسی (Oleg Novitskiy) اور پیوتر ڈیبریو (Pyotr Dubrov) اپنی خدمات انجام دے رہے تھے۔ اسٹیشن پر آنے والے ان مہمانوں کو مامور عملے نے خوش آمدید کہا اور انکے فلمی کاموں میں بھی مدد کی۔ روس کے اس فلمی عملے کی روانگی12روزہ اسٹیشن پر مہمان رہنے اور شوٹنگ کرنے کے بعد 17 اکتوبر کو ہوئی ہے جب روسی خلاباز اولیگ جو کہ گذشتہ 6 ماہ سے اسٹیشن پر رہ رہے تھے۔

ان کی قیادت میں خلائی جہاز Soyuz MS-18 عملہ زمین پر لوٹ آئے ہیں۔ روسی عملے کی زمین پر روانگی کے ساتھ ہی ایکسپیڈیشن۔65 اختتام پذیر ہوا اور اب اسٹیشن پر ایکسپیڈیشن۔66 پر عمل درآمد شروع ہوچکا ہے۔ اس وقت خلائی اسٹیشن سے منسلک پلیٹ فارم پر پانچ خلائی سواریاں پارک تھیں، ان میں رسد کی سپلائی یا کارگو جہازنارتھ ٹاپ گرومین سگنس، جہاز فرائیٹر، اسپیس ایکس کا ڈریگن کریو جہاز اور روس کے خلائی جہاز سوئیزMS-18 ، اورMS-19 ۔ ان میں حالیہ سوئیز ایم ایس – 18 سے فلمی عملے کی واپسی ہوچکی ہے۔

روس کی شہریت رکھنے والی یولیا کو اس خلائی مشن نے انٹرنیشنل سلیبرٹی بھی بنادیا ہے جو کہ فلم اسٹار کے ساتھ اب خلاباز کے طور پر بھی بین الاقوامی شہرت حاصل کرچکی ہے۔ یولیا کے ساتھی مسافر شپینکو بھی اب دنیا کے پہلے فلم ساز اور ڈائریکٹر بن کر عالمی سیلیبریٹی ہوگئے ہیں جنہوں نے خلاء میں بننے والی پہلی فلم بنائی۔

گرینیچ وقت پر صبح 8:55 پر بیکونور کاسموڈوم سے روسی راکٹ سوئیز 2.1a خلائی جہاز سوئیز  MS-19کو لے کر روانہ ہوا۔ یہ اس وقت لاؤنچ کیا گیا ہے جب روسی خلائی صنعت مشکل وقت سے گزر رہی ہے جو صنعت پر فوجی اخراجات کو ترجیح دینے کے خلاف کریملن کے ساتھ ریاستی فنڈ کے حصول کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔

خلابازوں کے اسٹیشن پہنچتے ہی روس کوسموس نے ٹوئٹر پر پیغام دیا ’’خلائی اسٹیشن پر خوش آمدید!‘‘ یولیا نے روانگی سے قبل پریس کانفرنس میں کہا کہ اس مشن کے لیے انہیں سخت تربیتی مراحل سے گزرنا پڑا۔ تاہم ایسا موقع زندگی میں ایک بار ہی ملتا ہے! یہ ایک معجزہ اور ناقابل یقین موقع ہے، ہم نے واقعی بہت محنت کی اور تھک چکے ہیں لیکن پھر بھی ہشاش بشاش ہیں۔ یہ ذہنی و جسمانی لحاظ سے اور اخلاقی طور پر بھی مشکل کام تھا لیکن میرا خیال ہے کہ جب ایک بار آپ ہدف پالیتے ہیں تو کچھ بھی مشکل نہیں رہتا۔ ہم اس وقت کو مسکرا کر یاد کریں گے۔

وہ مزید کہتی ہیں کہ آپ کو سخت نظم و ضبط اور تربیت کے تقاضے پورے کرنا مشکل ہوتا ہے۔ ہم بیکو نور میں ایک دوسرے کے دوست بن چکے ہیں لیکن ابتدا میں بڑی مشکلات رہیں کیوںکہ آپ کے پاس زیادہ مواقع نہیں ہوتے، جانا!، دوڑنا!، تیزی سے آگے بڑھنا اور کام جاری رکھنا ہوتا ہے، یہ ہمارے لیے آسان نہ تھا بلکہ بالکل غیرمتوقع تھا لیکن ہم نے یہ مراحل طے کرلیے۔ خلائی جہاز کا ڈیزائن اور اس کا استعمال، پرواز کی تیاری کرنا سب سے اہم اور مشکل مرحلہ تھا۔ سچ ہے کہ یہ آساں نہیں تھا۔

دو ہفتے رات سے صبح 4 بجے تک مشن کے بارے میں سیکھتی رہی، ان میں مختصر نام تھے جنہیں اگر نہ سیکھا جائے تو آپ کے پلے کچھ نہیں پڑتا۔ فلم ساز شپینکو کئی کام یاب کمرشل فلمیں بناچکے ہیں جن میں ’’خولوپ‘‘ (مزارع) نامی فلم بھی شامل ہے۔2019 ء میں بننے والی اس فلم نے روسی باکس آفس پر ریکارڈ بزنس کیا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ بلاشبہہ ہم پہلی کوشش میں بہت کچھ نہیں کرپاتے، بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے تیسری کوشش میں بہت کچھ نہ کرسکیں، لیکن یہ معمول کی بات ہے! انہوں نے اپنی روانگی کے وقت کہا تھا کہ “Something will workout and somthing will not!” (کچھ چیزیں ہوں گی اور کچھ نہیں ہوں گی)۔ فلم کے اسکرپٹ میں بھی تبدیلی آسکتی ہے کیوںکہ ہم تمام وقت سیکھنے کے عمل میں ہوں گے۔ یہ مشکل ہے، میں اداکار نہیں ہوں یہ بے مثال تجربہ ہوگا!۔

خلائی اسٹیشن پر پہنچنے کے دوسرے روز ہی 6 اکتوبر کو روسی فلمی عملے نے اپنی شوٹنگ کا آغاز کردیا تھا جس کے بعد خلاء میں اداکاری اور عکس بندی کرنے والا یہ دنیا کا پہلا فلمی عملہ قرار پایا۔ جس وقت نئے مہمان روسی اسٹیشن سے ڈوکنگ کے اندر داخل ہوئے اس وقت انہوں نے سبز رنگ کا خلائی سوٹ پہنا ہوا تھا جب کہ اداکارہ یولیا کو نمایاں کرنے کے لیے سرخ رنگ کا سوٹ پہنایا گیا۔ اسٹیشن پر مامور میزبان عملے نے حسب دستور نیلے رنگ کے لباس زیب تن کیے ہوئے تھے۔ یولیا ایک ماں بھی ہیں اس کے باوجود خود بچوں جیسی معصومیت رکھتی ہیں۔

وہ ہنستی مسکراتی ہوئی اسٹیشن کے دروازے (Hach) سے اندر داخل ہوئیں اور زیادہ وقت خوش گوار موڈ میں نظر آئیں۔ شوٹنگ کے وقت یولیا کے ساتھ ان کے ساتھی شپینکو نے نیلے رنگ کی ٹی شرٹ پہنی ہوئی تھی جس پر تحریر ہے “nothing is impossible” (کچھ بھی ناممکن نہیں ہے)۔ فلم کا عملہ اپنے ساتھ کیمرے، لائٹس، ساؤنڈسسٹم اور میک اپ کا سامان وغیرہ لے گیا تھا اور ہر ایک مسافر کو ایک محدود وزن کا سامان ساتھ لے جانے کی اجازت تھی۔

فلمی خلائی مشن کے عملے کو روانگی سے قبل کلاسک روسی فلم “The White Sand of the Desert” بھی دکھائی گئی جو کہ روس خلابازوں کو خلائی سفر پر روانگی سے پہلے روایتی طور پر دکھائی جاتی ہے۔ روس کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ خلاء میں شوٹ ہونے والی نئی فلم ایک مکمل درجے کی فلم ہوگی۔ ’’دی چیلینج‘‘ (Vyzov) نامی فلم میں یولیا کا کردار ایک سرجن Zhenya کا ہے جسے ہنگامی طور پر خلائی اسٹیشن کے ایک رکن کی سرجری کے لیے اسپیس روانہ کیا جاتا ہے جو دل کا مریض ہے۔ اس کے لیے سرجن کو ہنگامی طور پر تیاری کے بعد بھیجا جاتا ہے جہاں وہ اسٹیشن ISS پر روسی خلاباز کی سرجری کرتی ہے۔

ساڑھے پانچ فٹ قد رکھنے والی حسین یولیاسرجیوناپیریسلڈ(Yulia Sergeevna Peresld) کی پیدائش5 ستمبر 1984 ء کو Pskov میں ہوئی تھی۔ یہ ایک چھوٹا سا شہر ہے جو شمال مشرق میں اسٹونیا اور لیتویا کی سرحدوں کے ساتھ ہے۔ بڑی ہونے پر وہ اپنے علاقے سے ناخوش رہتی تھی اور ہمیشہ وہاں سے نکلنے کے خواب دیکھا کرتی تھی کیوںکہ اداکارہ بننے کا خیال اس کے ذہن پر سوار تھا پھر آخرکار ایک روز وہ آبائی شہر کو چھوڑ کر ماسکو آگئی تاکہ داراؒلحکومت میں قسمت کو پرکھا جاسکے۔ یہاں اس نے تھیٹر کے امتحان میں شرکت کی اس کے برعکس کہ زندگی میں تھیٹر کبھی نہ دیکھا تھا۔

وہ سونے اور رات گزارنے کے لیے ٹرین اسٹیشن پر تکیہ کرتی تھی۔ اس نوجوان لڑکی نے جلد ہی2003 ء کی ٹی وی کی سیریز “Land” میں اپنی پیشی کو ممکن بنالیا، اس نے ایک معاون کردار نبھایا تھا۔ جلد ہی یولیا کو ڈائریکٹرAleksey Uchitel کی شکل میں ایک ہم سفر مل گیا جس سے اس کی دو بیٹیاں12 سالہ اینا اور 9 سالہ ماریہ ہیں۔ 2008 ء کی فلم قیدی(Prisner) سے یولیا کو بہت پذیرائی ملی۔ 2010 ء کے ڈرامے “The Edge” میں اداکاری کرنے پر اسے متعدد ایوارڈ ملے جن میں وہ صوفیہ بنی تھی۔ یولیا اپنے بہترین رول “Lyvdmila Pavlichenko” سے پہنچانی جاتی ہے، یہ کردار ایک قاتل خونی عورت کا ہے جو کہ ریڈ آرمی کے لیے کام کرتی ہے۔ یہ 2015 ء میں بننے والا جنگی ڈراما “The Battle of Sevastopol” ہے، یہ فلم جنگ عظیم دوم کے حوالے سے بنائی گی تھی۔

یولیا تھیٹر کی پروڈکشنز میں بھی پیش ہوتی رہی ہے اور متعدد سالوں میں اس نے کئی ایوارڈ سمیٹے ہیں۔ وہ بچوں کے ایک فنڈ “Gachonok”کی بانی و نگراں بھی ہے۔ وہ اپنے 70 سے زائد کرداروں کے ذریعے مقبولیت حاصل کرچکی ہے اور میڈیا میں 35 سال کی عمر کے اندر ٹاپ ٹین کی لسٹ میں آچکی تھی۔ یولیا سرکاری ٹی وی چینل کے ایکٹر پول میں بھی پذیرائی رکھتی ہے جہاں وہ باقاعدگی سے جلوہ گر ہوتی رہتی ہے۔ یہ چینل جذبۂ حب الوطنی پر مبنی مشہور بلاک بسٹرز سیریز پیش کرتا ہے۔ اس کی حالیہ 2021 ء کی فلم “The Petrov’s Flu” کو کینز فلمی میلے کی زینت بنایا گیا۔ اس میں یولیا مارینا بنی ہے۔

یولیا کو نہایت سوچ بچار کے بعد روسی سنیما کے ستاروں میں سے چنا گیا ہے۔ وہ کہتی ہے کہ اس کے خاندان اور عزیزوں نے کبھی اس کی اس خواہش کو سنجیدگی سے نہیں لیا تھا کہ وہ ایک روز خلاء میں جائے گی! ’’میری ماں ہمیشہ مجھ سے کہتی تھیںکہ میں ایک غیر معمولی باصلاحیت لڑکی ہوں۔ انہوں نے ہمیشہ مجھے وہ باتیں سمجھائیں جو کہ اسکول میں استاد بھی نہیں سکھاتے۔ عمدہ فلمی کیریئر رکھنے کے باجود خلائی سفر کے لیے اس نے ایک اوپن ٹیلنٹ مقابلے میں 3000 ہزار امیدواروں کو شکست دی ہے جس میں پائیلٹس، فزیالوجسٹ اور سائنس داں تک مقابلہ آرائی میں شریک تھے۔

یولیا کی تخلیقی صلاحیتوں کی بنیاد پر اس نے کریٹیو اور میڈیکل کے امتحان بھی پاس کرلیے جس کے بعد ہی وہ خلابازی کی تربیت میں شامل ہوئی تھی جو تین ماہ جاری رہی۔ اس تربیت میں سینٹری فیوج(centrifue) ، متعدد غیرمعمولی مشقیں، کیپسول زمین پر اتارنے کا ہدف، زیرو کشش ثقل کی پرواز اور دوسرے امتحانوں کے علاوہ خلائی سوٹس اور گیس ماسک کی معلومات وآگاہی، خلاء تک رسائی ورہائش کا تجزیہ، مینول کی بار بار یاددہانی کرنا تاکہ غلطیوں کو مزید نہ دہرایا جاسکے، تربیت کا حصہ رہے ہیں۔

یولیا اب روس کی جانب سے پانچویں خاتون خلاباز بن چکی ہیں اور4 201 ء کے بعد سے خلائی اسٹیشن پر پہنچنے والی دوسری خاتون ہیں ان سے پہلے یالینا سیروا خلائی اسٹیشن پر پہلی بار پہنچی تھیں۔ وہ اس مشن کے دوران اپنے تجربے کو بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ میری سوچوں میں یہ سب کچھ ایک خواب جیسا لگ رہا تھا۔ ان کی زندگی ثابت قدمی اور جدوجہد سے عبارت ہے ان کا کہنا ہے کہ یہ میری ترغیب ہے کہ واقعی میں مشکلات سے محبت کرتی ہوں اور اسی لیے میں کام یاب رہی ہوں۔

یولیا کے حاصل کردہ ایوارڈز
2013 ء: صدارتی ایوارڈ برائے ’’نوجوان آرٹسٹ۔‘‘
2010 ء: سفید ہاتھی پرائز برائے ’’بہترین معاون اداکارہ۔‘‘
2010 ء:گولڈن ایگل ایوارڈ ’’بہترین معاون اداکارہ برائے فلم ’’The Edge‘‘
2010 ء: کرسٹل تورینڈاٹ (Turandot ) پرائز: بہترین نسوانی کردار برائے اسٹیج

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔