میدان ِجنگ میں انقلاب لاتی مصنوعی ذہانت

سید عاصم محمود  اتوار 31 اکتوبر 2021
بارود اورایٹمی ہتھیاروں کے بعدآرٹیفیشل انٹیلی جنس سے بنا اسلحہ شعبہ جنگ وجدل میں تیسرا انقلاب لانے لگا،تحیرخیز داستان۔ فوٹو: فائل

بارود اورایٹمی ہتھیاروں کے بعدآرٹیفیشل انٹیلی جنس سے بنا اسلحہ شعبہ جنگ وجدل میں تیسرا انقلاب لانے لگا،تحیرخیز داستان۔ فوٹو: فائل

یہ آذربایئجان کا علاقہ نگورنوقرہ باغ ہے۔1993ء میں اس علاقے کے وسیع رقبے پر آرمینیا نے زبردستی قبضہ کر لیا تھا۔2020ء میں اس علاقے کے سلسلے میں آذربایئجان اور آرمینیا میں دوبارہ جنگ چھڑ گئی۔آغاز میں آرمینائی فوج کا پلّہ بھاری رہا۔

ایک دن کا ذکر ہے، ایک جگہ آرمینائی فوج کا دستہ سستا رہا تھا۔فوجی اپنے ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں کی صفائی میں مشغول تھے۔اچانک انھوں نے اپنے سروں پہ گھوں گھوں کی آواز سنی جیسے کوئی بڑا سا بھنورا منڈلا رہا ہو۔دیکھا تو وہ ایک چھوٹا سا ڈرون تھا۔وہ فوراً چوکنا ہو گئے کیونکہ ڈرون آذربائیجانی فوج کا تھا۔

ڈرون پہ مگر کوئی میزائیل نصب نظر نہیں آیا۔گویا وہ غیر عسکری ڈرون تھا۔فوجی یہی سمجھے کہ وہ ان کی جاسوسی کرنے آیا ہے۔لہذا وہ اس کے سامنے آئے اور گنوں سے گولیاں برسانے لگے۔ڈرون مگر بہت پھرتیلا تھا،وہ گولیوں سے اپنا بچائو کرتا رہا۔اچانک وہ فوجیوں پہ آن پڑا۔ان سے ٹکراتے ہی ڈرون پھٹ گیا۔وہاں موجود کئی فوجی ہلاک ہو گئے۔یہ ڈرون دراصل خودکار اڑتابم تھا جس نے آرمینائی فوجی دستے میں اچھی خاصی تباہی پھیلا دی۔

اس اڑتے ڈرون بم میں مصنوعی ذہانت کے ذریعے تخلیق کیا گیا ایک سافٹ وئیر نصب تھا ۔اس سافٹ وئیر کو سکھایا گیا تھا کہ سڑکوں پہ بھاگتی سول گاڑیوں اور ٹینکوں و بکتر بند گاڑیوں کے درمیان کیسے تمیز کرنا ہے۔وہ سافٹ وئیر عسکری لباس میں ملبوس فوجیوں اور سادہ کپڑے پہنے ہوئے شہریوں کے مابین تمیز کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا تھا۔اس سافٹ وئیر کو بتایا گیا تھا کہ صرف فوجیوں اور ان کے سازوسامان کو نشانہ بنانا ہے۔شہری اس کا ٹارگٹ نہیں تھے۔یہی وجہ ہے، جب سافٹ وئیر کو یقین ہو گیا کہ آرمینائی دستے میں شامل فوجی ہیں تو وہ ان پہ جا گرا اور انھیں تہس نہس کر ڈالا۔

نمایاں ترین بات یہ ہے کہ وہ سافٹ وئیر خودمختار تھا…اسے دور بیٹھا کوئی انسان کنٹرول نہیں کر رہا تھا۔ڈرون بھی آزادی سے اڑنے میں محو تھا،کوئی اس کو نہیں چلا رہا تھا۔آذربایئجانی فوج نے اس کے بعد دوران

جنگ ایسے کئی ڈرون نما اڑن بم استعمال کیے۔انھوں نے آرمینائی فوج کو جانی لحاظ سے بہت نقصان پہنچایا اور بہت سے ٹینک وبکتر بند گاڑیاں بھی تباہ کر دیں۔اسی تباہی کے بعد آرمینائی فوج پسپا ہونے پر مجبور ہو گئی۔آذربئیجانی فوج نے نگورنوقرہ باخ کا بیشتر علاقہ دشمن کے قبضے سے آزاد کرا لیا اور یوں جنگ جیت لی۔

ماہرین عسکریات آذربایئجان اور آرمینیا کی جنگ کو عسکری تاریخ میں سنگ میل قرار دے چکے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ یہ پہلی جنگ ہے جس میں مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی سے تیار کردہ ہتھیار وسیع پیمانے پہ استعمال ہوئے۔انھوں نے جنگ کا پانسہ پلٹ کر رکھ دیا۔ ابتداً آرمینائی فوج جیت رہی تھی۔مگر جیسے ہی آذربائیجانی فوج نے ڈرون نما اڑن بم پھینکنے شروع کیے، آرمینائی فوج کی ہار کا آغاز ہو گیا۔یہ ڈرون بم ترکی اور اسرائیل کے بنے ہوئے تھے۔

عسکری تاریخ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت پہ مبنی اسلحہ ایجاد ہونے سے جنگ وجدل کی تاریخ میں ’’تیسرا انقلاب ‘‘جنم لے چکا ہے۔ پہلا انقلاب اس وقت آیا تھا جب چودہویں صدی کے بعد جنگوں میں

بارود کا استعمال شروع ہوا۔اس کے بعد دوسرے انقلاب نے بیسویں صدی میں جنم لیا۔تب ایٹمی ہتھیار بننے لگے اور یوں انھوں نے جنگ کو نئے معنی عطا کر دئیے۔

سادہ الفاظ میں مصنوعی ذہانت(Artificial intelligence)سے مراد ایسے سافٹ ویئر ہیں جو انسان کی دی گئی ہدایات کے مطابق کوئی مخصوص عمل انجام دے سکیں۔مثال کے طور پہ اب جاپان اور بعض یورپی ممالک کے ہوٹلوں میں روبوٹ بیرے عام ہو چکے ہیں۔وہ گاہکوں کو کافی یا چائے پیش کرتے ہیں۔ان مشینی بیروں میں مصنوعی ذہانت والے سافٹ وئیر ہی نصب ہیں۔سافٹ وئیر کو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ چائے گاہک تک لے جائو یا کھانا پہنچائو۔وہ اس کے علاوہ کوئی کام نہیں کر سکتے۔حتی کہ برتن بھی نہیں دھو سکتے۔ یہ کام وہی روبوٹ انجام دے گا جس میں برتن دھونے کا سافٹ وئیر موجود ہو گا۔

امریکی و جاپانی ماہرین اگرچہ مصنوعی ذہانت کی بنیاد پر ایسا سافٹ وئیر بنانے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں جو انسانی دماغ کی طرح سوچ بچار کر سکے۔گویا وہ تجربات کے ذریعے ازخود بھی کوئی نیا کام

کرنے کے قابل ہو جائے۔جب بھی اس قسم کا سافٹ وئیر ایجاد ہوا، یہ سمجھیے کہ گوشت پوست کے انسان نے ایک آزاد وخودمختار مشینی انسان تیار کر لیا…ایسا انسان جو اپنی مرضی سے بھی مختلف کام کر سکے گا۔علم مستقبلیات کے ماہرین کا دعوی ہے، سائنس وٹکنالوجی کی جدتوں اور تیز رفتار ترقی کے باعث بااختیار مشینی انسان 2050ء تک وجود میں آ جائے گا۔

مصنوعی ذہانت پر مبنی سافٹ وئیر مگر اب بھی روزمرہ کے کئی کاموں میں انسانوں کی مدد کرنے لگے ہیں۔گوگل کا سرچ انجن اس امر کی نمایاں مثال ہے۔یہ سافٹ وئیر ہمیں وہ بات کھوجنے میں بھرپور مدد دیتا ہے

جس کی ہمیں تلاش ہو۔وہ ہماری سرچنگ کی ماہیت جانچ اور اندازے لگا کر ہمیں مفید مشورے دیتا ہے تاکہ ہم اپنی منزل پانے میں کامیاب رہیں۔

اسی طرح ہوائی اڈوں پر مجرم اور دہشت گرد شناخت کرنے کی خاطر بتدریج مصنوعی ذہانت پر مبنی سافٹ وئیرز سے مدد لی جانے لگی ہے۔ان سافٹ وئیرز میں کروڑوں انسانوں کے چہروں کا ڈیٹا محفوظ ہوتا ہے۔جو بھی ہوائی اڈے سے گزرے،اس کا چہرہ سافٹ وئیر کے ڈیٹا بینک میں چلا آتا ہے۔لہذا جب بھی وہاں کوئی مجرم یا مشکوک شخصیت آئے، تو سافٹ وئیر اسے شناخت کر کے الارم بجا دیتا ہے۔پولیس پھر اس کو فوراً دبوچ لیتی ہے۔

امریکا،جاپان اور یورپی ممالک میں صنعتی روبوٹ بھی ایجاد ہو چکے ہیں۔ان میں مصنوعی ذہانت والے سافٹ وئیر نصب ہوتے ہیں۔چناں چہ سافٹ وئیر میں جو کام کرنے کی ہدایت محفوظ ہو،روبوٹ اس کے مطابق عمل کرتا ہے۔مغربی ملکوں کے اکثر کارخانوں اور دفاتر میں ایسے روبوٹ نظر آنے لگے ہیں۔حتی کہ استقبالیہ پر بھی روبوٹ بٹھا دئیے گئے ۔اب روبوٹ کرائے پر بھی دستیاب ہیں۔

امریکی ویورپی صنعت کار ان روبوٹوں کو انسانوں پر مختلف وجوہ کی بنا پہ ترجیع دینے لگے ہیں۔پہلی وجہ یہ کہ روبوٹ بلا تھکے کئی گھنٹے کام کر سکتے ہیں۔دوسرے وہ کبھی تنخواہ بڑھانے کا مطالبہ نہیں کرتے۔تیسرے ان کے مطالبات منظور نہ ہوں تو ہڑتال نہیں کرتے۔چوتھے وہ فضول باتیں نہیں کرتے اور خاموشی سے اپنے کام میں لگے رہتے ہیں۔اسی لیے کارخانوں اور دفتروں میں ان کی مانگ بڑھ رہی ہے۔یہ امر بہرحال بنی نوع انسان کے خلاف جاتا ہے کیونکہ صنعت وتجارت اور کاروبار میں روبوٹوں کی فراوانی سے لاکھوں انسان بیروزگار ہو جائیں گے۔یوں یورپ و امریکا میں بیروزگاری میں اضافہ ہو گا۔یہ عمل وہاں کے معاشروں میں انتشار پیدا کر سکتا ہے۔

مصنوعی ذہانت کا اِس سے بھی زیادہ خطرناک پہلو اُس کا جنگ وجدل میں بڑھتا استعمال ہے۔فی الوقت سبھی سپرپاورز مصنوعی ذہانت کی بنیاد پر نت نئے ہتھیار بنانے کے لیے سرتوڑ کوششیں کر رہی ہیں۔انھوں نے اربوں ڈالر کی لاگت سے ایسے منصوبے شروع کر رکھے ہیں جن کے ذریعے سائنس داں مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیر پہ مبنی اسلحہ بنا سکیں۔ڈرون نما اڑن بم اس امر کی چھوٹی سی مثال ہیں۔امریکا اور چین تو روبوٹوں کی باقاعدہ فوج کھڑی کرنے کے متمنی ہیں تاکہ اپنی عسکری طاقت میں محیر العقول اضافہ کر لیں۔

حضرت آدم علیہ السلام نے جب نافرمانی فرمائی تو اللہ تعالی نے انھیں زمین پہ اتاردیا ۔یوں ان کی اولاد کو ایک طویل امتحان میں ڈال دیا گیا۔امتحان یہ ہے کہ انسان شیطان کو شکست دے سکے جو مسلسل انسانوں کو ورغلاتا اورانھیں شرانگیز کارروائیاں کرنے پہ اکساتا ہے۔اسی شیطان کے سبب حضرت آدم ؑکے دو بیٹوں ،ہابیل اور قابیل کے مابین لڑائی ہوئی۔

انسانی تاریخ کی اس اولیّں لڑائی میں بظاہر شیطان کو فتح ملی کیونکہ جھگڑالو بھائی، قابیل نے امن پسند بھائی،ہابیل کو مار ڈالا۔مگر یہ آغاز تھا۔تب سے اللہ تعالی کے احکامات کی پیروی کرنے والے انسان شیطان کے پیروکاروں سے جنگ کرنے میں مصروف ہیں۔

قران پاک میں رب تعالی نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ اپنے گھوڑے ہر وقت تیار رکھو تاکہ دشمن تم سے مرعوب رہے اور اسے حملہ کرنے کی جرات نہ سکے(سورہ الاانفال آیت 60)اللہ تعالی نے دفاعی جنگ لڑنے پہ زور دیا ہے۔مگر یہ بھی حکم ہے کہ مظلوموں کو حق دلانے کی خاطر ظالم سے جہاد کرو۔گویا ظالم پہ حملہ کیا جا سکتا ہے۔

دور جدید میں تفرقہ بازی اور عدم اعتماد کی وجہ سے مسلمان کمزور ہو چکے ہیں۔ ان میں بھائی چارے کے بجائے مادہ پرستی کا غلبہ ہے۔جبکہ غیر اسلامی خصوصاً مغربی قوتیں باہمی اختلافات کے باوجود مسلم

دشمنی میں متحد ہیں۔نیز سائنس و ٹکنالوجی میں برتری کی وجہ سے عالمی طاقیتں بن چکیں۔ان میںامریکا، برطانیہ، چین، روس، جرمنی اور جاپان نمایاں ہیں۔ان طاقتوں کے دو بڑے اتحاد وجود میں آ چکے۔ایک اتحاد امریکا،برطانیہ،آسٹریلیا،کینیڈا اور بھارت پہ مشتمل ہے۔دوسرے اتحاد کے قائد چین و روس ہیں۔ پاکستان سمیت خطے کے کئی ممالک اس کا حصہ ہیں۔ بہت سے یورپی ممالک واضح طور پہ کسی اتحاد میں شامل نہیں۔

اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں روس استعماری قوت رہا ہے اور اس نے وسطی ایشیا کے مسلم ممالک پہ قبضہ کر لیا۔ان ملکوں کو بیسویں صدی میں آزادی نصیب ہوئی۔انہی صدیوں میں برطانیہ عالمی استعماری قوت بن کر ابھر آیا۔بیسویں صدی میں امریکا اس کا جانشین بن گیا۔چین کبھی استعماری قوت نہیں رہا بلکہ جاپانی اسے اپنا مطیع بنانے کی سرتوڑ سعی کرتے رہے۔یہ خصوصیت چین کو تمام عالمی طاقتوں میں امتیازی حیثیت عطا کرتی ہے۔

ویت نام اور افغانستان میں شکست کھا کر بھی امریکی حکمران طبقے کے سر سے دنیا پہ حکمرانی کرنے کا بھوت نہیں اترا۔یہ طبقہ عالمی وسائل اپنے قبضے میں رکھنا چاہتا ہے تاکہ جب چاہے ان سے فائدہ اٹھا سکے۔عالمی کرنسی نظام میں ڈالر کی اجارہ داری قائم رکھنا بھی امریکی اسٹیبلشمنٹ کی ایک اہم پالیسی ہے۔اسی لیے امریکا اپنے آپ کو عسکری لحاظ سے طاقتور ترین رکھنا چاہتا ہے تاکہ جو بھی اس کے مفادات خطرے میں ڈالے، اس سے جنگ کر کے مطیع کر سکے۔اس وقت چین اور روس امریکی مفادات کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔چناں چہ امریکی حکمران طبقہ مصنوعی ذہانت پہ مبنی جدید ترین ہتھیار بنا کر خود کو انتہائی مضبوط بنانے کے خواب دیکھ رہا ہے۔

دنیا پہ اپنی حکمرانی برقرار رکھنے کے لیے ہی امریکا نے نئی قسم کے اسلحے بنانے کی نئی دوڑ کا آغاز کیا۔اس دوڑ کے دوران سپرپاورز مصنوعی ذہانت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خطرناک ترین ہتھیار بنانے کی کوشش کریں گی۔مگر ماہرین و دانشور انتباہ کر رہے ہیں کہ اسلحے کی یہ نئی دوڑ کرہ ارض پہ نوع انسانی ہی نہیں زندگی کی دیگر اقسام کو بھی تباہ وبرباد کر سکتی ہے۔مشہور سائنس داں، اسٹیفن ہاکنگ نے 2014ء میں اسی تباہی کی سمت اشارہ کرتے ہوئے انسانیت کو متنبہ کیا تھا:

’’مصنوعی ذہانت پہ مبنی ایجادات ہمارے کام آ سکتی ہیں۔یہ روزمرہ زندگی کے بہت سے کام کرنا آسان بنا دیں گی۔لیکن انسان کو چاہیے کہ وہ مصنوعی ذہانت کو کبھی آزاد وخودمختار نہ ہونے دے۔اگر مصنوعی ذہانت انسان کی طرح سوچنے سجھنے کے قابل ہو گئی تو بہت جلد نوع انسانی کو اپنا غلام بنا لے گی۔وجہ یہ کہ انسانی دماغ کا ارتقائی سفر بہت سست رفتار ہے۔جبکہ مصنوعی ذہانت سپر کمپیوٹروں کی مدد سے بہت جلد اپنے آپ کو اتنا زیادہ ذہین،عاقل و فہیم بنا لے گی کہ انسان کسی صورت اس کا مقابلہ نہیں کر سکے گا۔‘‘

امریکی حکمران طبقہ مگر اپنے ہی سائنس داں کا درج بالا انتباہ نظرانداز کر چکا۔اس کی ایما پہ امریکی ماہرین مصنوعی ذہانت کو بہتر سے بہتر بنانے کے لیے وسیع پیمانے پہ تحقیق وتجربے کر رہے ہیں۔مدعا یہی ہے کہ اس سے خطرناک اسلحہ بنا کر امریکا کی بطور عسکری طاقت دنیا میں حاکمیت ہر صورت برقرار رکھی جائے۔حالات سے واضح ہے کہ اس جنم لیتی تبدیلی میں مصنوعی ذہانت کا اپنا کوئی کردار نہیں…اگر اسے انسانیت کی فلاح وبہبود کے لیے استعمال کیا جائے تو وہ کارہائے نمایاں دکھا سکتی ہے۔مگر امریکی اسٹیبلشمنٹ کا آلہ کار بن کر مصنوعی ذہانت دنیا والوں کے لیے آگ۔خون اور تباہی کی ہرکارہ بن جائے گی۔

تھرڈ آف سیٹ حکمت عملی
حکومت امریکا اب اپنی ایک خصوصی حکمت عملی’’تھرڈ آف سیٹ‘‘(The Third Offset)کے تحت مصنوعی ذہانت کو بہت اہمیت دینے لگی ہے۔عام لوگوں کو اس حکمت عملی کی کوئی خبر نہیں مگر امریکی حکمران طبقہ اسی کے ذریعے چین اور روس کی عسکری ٹیکنالوجی کو بے اثر بنانے کا خواہاں و متمنی ہے تاکہ کُل عالم میں اپنی سپرمیسی برقرار رکھ سکے۔بنیادی مقصد یہ کہ دنیا کا کوئی بھی ملک امریکی استعمار،اقتدار اور حاکمیت کو چیلنج نہ کر پائے۔

دوسری جنگ عظیم نے دنیا میں طاقت کے مراکز تبدیل کر دئیے۔اس سے قبل برطانیہ اور جرمنی سپرپاور کا درجہ رکھتے تھے۔خاتمہ جنگ کے بعد امریکا اور سویت یونین کو یہ درجہ مل گیا۔جلد ہی ان کے مابین سرد جنگ شروع ہو گئی کہ ایک سرمایہ داری کا چیلا تھا تو دوسرا سوشلزم کو ملجا وماوی مانتا۔اسی سرد جنگ کے دوران امریکی اسٹیبلشمنٹ نے حریفوں کو شکست دینے کی خاطر ایک حکمت عملی تیار کی جسے اب ’’فرسٹ آف سیٹ‘‘کیا جاتا ہے۔اس اپنا کر امریکا نے کثیر تعداد میں ہائڈروجن بموں،ایٹم بموں،نیپام بموں وغیرہ کا ذخیرہ جمع کر لیا۔سویت یونین بھی اپنی بقا کی خاطر ایک سے بڑھ کر ایک خطرناک اسلحہ بنانے لگا۔یوں دونوں عالمی قوتوں کے درمیان نت نیا اسلحہ بنانے کی دوڑ نے جنم لیا۔اس دوران کئی بار ایسے خطرناک لمحات آئے کہ دونوں ممالک کے مابین ایٹمی جنگ چھڑتے چھڑتے رہ گئی۔ تب زمین کو خوفناک تباہی کے مناظر دیکھنے پڑتے۔

1970ء تک سویت یونین لاتعداد ایٹمی ہتھیار رکھنے والا ملک بن گیا۔تب امریکی حکمران طبقے کو محسوس ہوا کہ دنیا پہ اپنا قبضہ برقرار رکھنے کے لیے نئی حکمت عملی درکار ہے۔اسی سوچ کے باعث ’’سیکنڈ آف سیٹ‘‘حکمت عملی وجود میں آئی۔اس کے تحت طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائیل اور اسٹیلتھ ٹکنالوجی ایجاد کی گئی۔خلا میں جنگی اڈے بنانے پر بھی ٖغور وفکر ہوا جو لیزر شعاوں کے ذریعے دشمن پہ وار کر سکیں۔تاہم 1990ء میں سویت یونین زوال پذیر ہوا تو خلا میں جنگی اڈے بنانے کا منصوبہ ترک کر دیا گیا۔

اب تیس سال بعد روس کے علاوہ چین بھی روایتی عسکری ٹکنالوجی میں امریکا کے ہم پلّہ ہو چکا۔چینی حکومت جدید ہتھیار بنانے پہ سالانہ اربوں ڈالر خرچ کر رہی ہے۔یہی ماجرا دیکھتے ہوئے امریکی حکمران طبقے نے 2014ء میں تیسری حکمت عملی’’تھرڈ آف سیٹ‘‘کا آغاز کر دیا۔یہ وہی زمانہ ہے جب چین نے اپنا عظیم الشان ’’بیلٹ اینڈ روڈ انشیٹیو‘‘شروع کیا تھا۔تیسری حکمت عملی وضع کرتے ہوئے تب کے امریکی وزیر دفاع،چک ہیگل نے دنیا والوں کو بتایا :

’’ہم سمجھتے ہیں کہ تھرڈ آف سیٹ حکمت عملی عالمی سطح پہ پورے کھیل کو تبدیل کر دے گی۔اس کے تحت جدید ترین ہتھیار بنانے کے لیے سائنس وٹکنالوجی سے بھرپور مدد لی جائے گی۔ہم اس طرح اکیسویں صدی میں بھی امریکی افواج کی مکمل برتری قائم رکھ سکیں گے۔‘‘

اسی تقریر میں امریکی وزیر دفاع نے انکشاف کیا کہ پنٹاگون(امریکی وزرات دفاع)سیلی کون ویلی میں ’’ڈیفنس انوویشن یونٹ‘‘(Defense Innovation Unit)کے نام سے اپنا نیا مرکز کھول رہا ہے۔اس نئے مرکز میں سرکاری اداروں کے ماہرین کے ساتھ ساتھ نجی کمپنیوں کے سائنس داں بھی نئے ہتھیار بنانے کی خاطر تحقیق و تجربات کریں گے۔یاد رہے، امریکا میں سیلی کون ویلی سائنس وٹکنالوجی کی نجی کمپنیوں کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ پنٹاگون اب تک آسٹن(ٹیکساس) اور بوسٹن شہروں میں بھی اپنے ’’ڈیفنس انوویشن یونٹ‘‘ مراکز قائم کر چکا۔اس قسم کا سب سے بڑا یونٹ خود پنٹاگون میں واقع ہے۔

چک ہیگل رخصت ہوئے تو ایش کارٹر وزیر دفاع بن گئے۔اپریل 2015ء میں انھوں نے سائنس وٹکنالوجی کی چوٹی کی امریکی کمپنیوں کے مالکان اور سی ای اوز سے ملاقات کی۔موصوف نے مہانوں کو باور کرایا کہ امریکا میں پنٹاگون،سی آئی اے اور دیگر خفیہ ایجنسیاں سائنس وٹکنالوجی کی سب سے بڑی پشتی بان و سرپرست ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ امریکی سائنس دانوں اور موجدوں نے دوسری جنگ عظیم کے بعد خصوصاً جتنی بھی ایجادات کی ہیں،انھوں نے پنٹاگون یا سی آئی اے کی مدد سے جنم لیا۔رفتہ رفتہ نجی اداروں نے بھی سائنس وٹکنالوجی کو ترقی دی۔یوں بذریعہ تحقیق و تجربات نئی ایجادیں منظرعام پہ آنے لگیں۔

یہ تاریخ افشا کر کے ایش کارٹر نے سائنس وٹکنالوجی کی نجی کمپنیوں پہ زور دیا کہ وہ نت نئے ہتھیار بنانے میں پنٹاگون کی بھرپور مدد کریں۔امریکی وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ سرکاری اور نجی ادارے باہمی تحقیق و تجربات سے ایسے خطرناک اور موئثر ہتھیار ایجاد کر سکتے ہیں جو اب تک انسانی تاریخ میں سامنے نہیں آئے اور جو دشمن کے دلوں پہ امریکی طاقت وہیبت کا سّکہ جما دیں گے۔کارٹر صاحب کا کہنا تھا:’’یہ بہت سنجیدہ اور قومی نوعیت کا معاملہ ہے۔اس میں خطرات پوشیدہ ہیں مگر ترقی کے مواقع بھی بے حساب ہیں۔پنٹاگون کی مالی مدد سے نجی کمپنیاں بہت ترقی کر سکتی ہیں۔‘‘

سوال یہ ہے کہ امریکی حکمران طبقے کو آخر کیا ضرورت پیش آ گئی کہ وہ نجی شعبے کے پاس جا کر اس سے مدد وتعاون کی بھیک مانگنے لگا؟وجہ یہی کہ دنیا پہ امریکی اسٹیبلشمنٹ کی اجارہ داری کو چین وروس کے اتحاد سے شدید خطرات لاحق ہو چکے۔وہ سمجھتی ہے کہ یہ اتحاد عالمی سطح پر امریکا کی حاکمیت کو چلینج کر رہا ہے۔یہ تاثر بنیادی طور پہ اس لیے پیدا ہوا کہ خصوصاً چین شعبہ سائنس وٹکنالوجی میں بڑی تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔آج چین ہی ریسرچ اینڈ ڈویلمپنٹ پہ دنیا میں سب سے زیادہ رقم خرچ کرتا ہے۔پچھلے سال چینی حکومت نے اپنے ہاں سائنس وٹکنالوجی کی ترویج واشاعت پر 378ارب ڈالر خرچے تھے۔جبکہ امریکی حکومت صرف175ارب ڈالر ہی خرچ کر پائی۔

امریکی حکومت کھربوں ڈالر کی مقروض ہے۔لہذا وہ چین کی طرح اربوں ڈالر ریسرچ اینڈ ڈویلمپنٹ پہ نہیں لگا سکتی۔اسی واسے امریکی حکمران طبقہ اپنے نجی طبقے سے تعاون امنگ رہا ہے تاکہ وہ مل کر خصوصاً مصنوعی ذہانت پہ مبنی جدید ہتھیار ایجاد کر سکیں۔چند ماہ قبل امریکی حکومت نے منظوری دی ہے کہ رواں سال ریسرچ وینڈ ڈویلمپنٹ پر 250ارب ڈالر خرچ ہوں گے۔رقم میں خاطر خواہ اضافہ اسی لیے کیا گیا تاکہ شعبہ سائنس وٹکناولوجی میں چین وروس کا مقابلہ ہو سکے۔امریکی حکمران طبقے کو احساس ہو گیا کہ اگر وہ اس شعبے میں پیچھے رہا تو دنیا میں اس کی حاکمیت کا سورج غروب ہو جائے گا۔مجوزہ 250ارب ڈالر میں سے کثیر رقم مصنوعی ذہانت پہ مبنی ہتھیار بنانے پر خرچ ہو گی۔

امریکا میں پنٹاگون اور سائنس وٹیکنالوجی کے نجی اداروں کے مابین شراکت داری بڑھانے میں ایرک شمڈت سرگرم ہے۔یہ گوگل کمپنی کا سابق سی ای او ہے۔2018ء میں ایک اہم سرکاری ادارے’’نیشنل سیکورٹی کمیشن آن آرٹیفیشل انٹیلی جنس کا سربراہ بنایا گیا۔مدعا یہ تھا کہ مصنوعی ذہانت سے ہتھیار بنانے کے سلسلے میں ایرک شمڈت اور اس کا نائب، رابرٹ ووک امریکی حکومت کو مشورے دے سکیں۔رابرٹ ووک سابق امریکی نائب وزیر دفاع ہے۔

یہ دونوں شخصیات چین کو امریکا کا سب سے بڑا حریف سمجھتی ہیں۔اسی لیے وہ مصنوعی ذہانت کے ذریعے ہتھیار تیار کرنے کے پُرزور حامی ہیں۔تاکہ چین سے جنگ ہو تو انھیں استعمال کر کے چینی افواج کو شکست دی جا سکے۔ان کا استدلال ہے کہ کرہ ارض پہ امریکا کمہوریت اور انسانی حقوق کا چیمپئن ہے۔جبکہ چین دنیا میں آمریت کی ترویج چاہتا ہے۔لہذا امریکا کا فرض ہے کہ وہ چین کا اثرورسوخ بڑھنے نہ دے اور اس کا مقابلہ کرے۔

چین سے متصادم ہونے کی خاطر یہ دلیل مگر دنیا والوں کو مطمئن کرنے کے لیے ہے۔اندرون خانہ چین و روس کو دشمن قرار دینے کا ہوّا اس لیے کھڑا کیا گیا تاکہ ’’امریکی ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس‘‘میں کام چلتا رہے۔یہ عسکری صنعتی ادارہ اسی وقت رواں دواں رہتا ہے جب امریکی اسٹیبلشمنٹ جنگیں چھیڑتی رہے۔اسی لیے امریکی حکمران طبقے کی سعی ہوتی کہ نت نئے دشمن تخلیق کر کے اور نئی جنگیں اپنا کر اپنا یہ وسیع وعریض صنعتی ادارہ چالو رکھا جائے۔

دوسری صورت میں اس ادارے سے منسلک لاکھوں امریکی بیروزگار ہو کر حکومت کے لیے دردسر بن جائیں گے۔رابرٹ ووک نے ایک تقریب میں پنٹاگون کو ’’دنیا کی سب سے بڑی کارپوریشنوں میں سے ایک‘‘ قرار دیا تھا۔امریکی وزارت دفاع چونکہ کارپوریشن ہے لہذا وہ جنگیں شروع کر کے منافع کماتی ہے۔اور جنگیں اسی وقت جنم لیتی ہیں جب دیدہ ونادیدہ دشمن پیدا کر لیے جائیں۔

روبوٹ فوج
امریکا،چین اور روس کی بھرپور سعی ہے کہ وہ روبوٹوں پہ مشتمل فوج بنا لیں۔یہ فوجی روبوٹ انسانی فوجیوں سے کہیں زیادہ چست،ذہین اور لڑائی بھڑائی کے فن میں طاق ہوں گے۔مذید براں مصنوعی ذہانت رکھنے کی بدولت جنگ وجدل کے نئے طریقے بہت جلد سیکھ سکیں گے۔مثلاً یہ کہ اگر تنہا ہو جائے تو دشمن کا مقابلہ کیونکر کرنا ہے۔جبکہ دستے کی شکل میں حریف پہ کیسے حملہ کیا جائے۔

یہ روبوٹ موت سے ناآشنا ہو گی اور یہ امر اسے نہایت خطرناک بنا دے گا۔چونکہ روبوٹ بنانے کی ٹکنالوجی سستی ہو رہی ہے، لہذا عنقریب ایسی فوج کھڑی کرنے پہ خرچ کم آئے گا۔ایک حالیہ رپورٹ کی رو سے صرف دس ہزار روبوٹ فوجی نیویارک جیسے بڑے شہر کی آبادی ایک دن میں ختم کر دیں گے۔جبکہ مستقبل میں ایسا وقت آنے والا ہے جب دس ہزار روبوٹ فوجیوں والی آرمی تیار کرنے میں صرف ایک کروڑ ڈالر(ایک ارب ستر کروڑ روپے)خرچہ آئے گا۔

روبوٹ فوج کے فوائد ہیں۔مثلاً دوران جنگ کسی انسان کی جان نہیں جائے گی۔اسی طرح روبوٹ کو پروگرامڈ کیا جائے گا کہ وہ بچوں،بوڑھوں اور عورتوں کو نقصان نہ پہنچائیں۔مذید براں روبوٹ فوج کھڑی رکھنے میں اخراجات بھی کم ہوں گے۔

فائدے رکھنے کے باوجود اس کئی نقصانات بھی کافی ہیں۔سب سے بڑا نقصان یہی کہ اگر روبوٹ فوج انسانی اختیار سے آزاد ہو گئی تو پھر کیا ہو گا؟یہ فوج تب بہ آسانی دنیا پہ قبضہ کر لے گی۔وہ بنی نوع انسان کو اپنا غلام بنا کر اپنے کام کرائے گی۔ایسے مناظر فی الحال ہم سائنس فکشن فلموں میں دیکھتے ہیں ۔مگر مصنوعی ذہانت نے آگء چل کر خود کو آزاد وبااختیار بنا لیا تو تصّور حقیقت میں بدل جائے گا۔

ننھے قاتل ڈرون
مصنوعی ذہانت کو بنیاد بنا کر نت نیا سلحہ بنانے کا عمل تیزرفتار ہو چکا۔مثال کے طور پہ امریکا میں اب ایسے ننھے ڈرون تیار کرنے کی ٹکنالوجی عام دستیاب ہے جو اڑتے ہوئے کسی پہ فائرنگ کر سکیں۔ایسا ننھا ڈرون صرف ایک ہزار ڈالر(ایک لاکھ ستر ہزار روپے) میں بن جاتا ہے۔

ماہرین کے نزدیک یہ ایک خطرناک تبدیلی ہے۔کیونکہ اب جسے ڈرون تیار کرنے کا فن آ جائے، وہ مارکیٹ سے ساری ٹکنالوجی خرید کر ’’قاتل ڈرون‘‘تیار کر سکتا ہے۔یہ ڈرون پھر معاوضے کے عوض کسی کو بھی قتل کر سکتے ہیں۔چونکہ یہ چھوٹے اور بہت تیزرفتار ہوتے ہیں، لہذا ان پہ قابو پانا کافی مشکل ہے۔2018میں وینزویلا کے صدر پہ اسی قاتل ڈرون سے حملہ ہوا تھا اور وہ مرنے سے بال بال بچے تھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔