دو مشاعرے

امجد اسلام امجد  اتوار 31 اکتوبر 2021
Amjadislam@gmail.com

[email protected]

میر صاحب کا ایک بہت مشہور شعر ہے:

شکست و فتح نصیبوں سے ہے ولے اے میر
مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا

اس میں ایک زمانے میں کچھ دوستوں نے ایک لفظ کی ترمیم کی تھی اور دوسرا مصرعہ کچھ یوں بن گیا تھا کہ

’’مشاعرہ‘‘ تو دل ناتواں نے خوب کیا

اب امر واقعہ یہ ہے کہ تقریباً نصف صدی ملک کے طول وعرض سمیت دنیا میں مشاعرے پڑھتے ہوئے کم وبیش آدھی صدی ہو چکی ہے اور مسلسل تکرار کے باعث کسی بھی طرح کا مشاعرہ بھی ایک عام سی بات ہو گیا تھا اور کسی مشاعرے کے کچھ دن بعد اس کے سامعین کی تعداد، جوش وخروش، انتظامات، منتظمین کا حسن سلوک بلکہ اس کی وجہ اور مقام بھی ٹھیک سے یاد نہیں رہتے تھے مگر 28 اور 29 اکتوبر کو کراچی کلب اور کراچی آرٹس کونسل میں ہونے والے مشاعروں نے اس جمود کو یکسر توڑ دیا ہے کہ یہ گزشتہ سترہ ماہ میں پہلے دو مشاعرے تھے جس میں شاعروں کو سامعین نظر بھی آ رہے تھے کہ کووڈ کے آغاز سے اب تک 200m یا دیگر ایپس کی معرفت جتنے بھی مشاعرے ہوئے ان میں سامعین کو صرف تصور ہی کیا جا سکتا تھا جس کی قریب ترین مثال 23 اکتوبر کو ہیوسٹن امریکا سے علی گڑھ کے سابق طلبہ کی ایسوسی ایشن کا سرسید احمد خان کے حوالے سے ترتیب دیا ہوا مشاعرہ تھا جسے ہماری شاعرہ بہن عزیزہ عشرت آفرین کے میاں پرویز جعفری اور ان کے رفقاء نے ترتیب دیا تھا، جسے اطلاعات کے مطابق 22 ملکوں میں دیکھا اور سنا گیا مگر شاعروں کو بوجوہ ان میں سے ایک بھی نظر نہ آ سکا۔

مجھے یاد ہے اس سے قبل سامعین سے آخری بالمشافہ ملاقات والے مشاعرے 2020 کے اوائل میں انگلینڈ میں ہوئے تھے جن کی غایت انڈس اسپتال کے لیے فنڈ ریزنگ کا ایک پروگرام تھا جس میں خود ڈاکٹر عبدالباری بھی ہمارے شریک سفر تھے۔

تو بات ہو رہی تھی کراچی کلب کے روایتی اور کراچی آرٹس کونسل کے ربیع الاول کے حوالے سے نعتیہ مشاعرے کی جہاں سامعین کا دیدار ایک خوش خبری کی طرح ملا۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ دینی پروگراموں کے سبب سے معتبر اینکر اور عزیز دوست اتیق احمد نے اگرچہ چند ماہ حالات ک پیش نظر اسے ملتوی کرنا پڑا اور یہ التوا 28 اکتوبر 2021 کی شام تک کھنچتا ہی چلا گیا۔

کراچی کلب کا قیام ڈھاکا میں پاکستان مسلم لیگ کے قیام کے آس پاس ہی کہیں ہوا ۔ یہاں پہنچ کر مجھے یاد آیا کہ بہت سال قبل بھی یہاں ایک دو بار مشاعرہ پڑھنے کا موقع ملا تھا کہ ماحول میں ایک مخصوص قسم کی آشنائی کی جھلک قدم قدم موجود تھی۔ اس کلب کے زیادہ تر ممبران اور انتظامیہ کا تعلق میمن برادری سے ہے جن کی زبان اور شعری روایت مختلف ہے مگر وہ اردو کی ترویج و ترقی کے لیے ہمیشہ مستعد رہتے ہیں۔

اس مشاعرے کو انھوں نے اپنے ایک مرحوم ممبر مشہور صحافی اور دانشور صلاح الدین حیدر مرحوم کے نام سے رکھا تھا جن کا کچھ عرصہ قبل ہی کووڈ سے انتقال ہو گیا ہے۔ سامعین میں ان کی بیگم اور صاحبزادی بھی موجود تھیں۔ صدارت برادر عزیز ڈاکٹر پیرزادہ قاسم کی تھی جب کہ بارہ کے قریب مقامی شعراء کے علاوہ لاہور سے مجھے اور عباس تابش کو اور ملتان سے خالد مسعود کو مدعو کیا گیا تھا۔

میں ہفتہ 30 اکتوبر کو عزیزانِ محترم حمیدہ شاہین اور ڈاکٹر ضیاء الحسن کی دختر نیک اختر کی شادی میں شرکت کا، ان دونوں سے وعدہ کر چکا تھا مگر ہوا یہ کہ کراچی آرٹس کونسل کی طرف سے بھائی احمد شاہ کا فون آیا کہ وہ 29 اکتوبر کو ایک نعتیہ مشاعرے کا اہتمام کر رہے ہیں اور محفل میں مجھے ضرور شامل ہونا چاہیے۔ انھوں نے فوراً میری فلائٹ کی بکنگ 30 کی شام کے لیے کرا دی بلکہ میرے قیام کو جم خانہ ہی میں ایک دن کے لیے Extend کرا دیا گیا ہے۔

سو اب ڈاکٹر ضیاء اور عزیزہ حمیدہ شاہین سے ایک بار پھر معذرت کرنا پڑے گی کہ چند ماہ قبل ان کے بیٹے کے ولیمے میں بھی شاید کارڈ کو توجہ سے نہ پڑھنے کے باعث میں دوپہر کے بجائے رات کے وقت پہنچا تھا۔ اب تو یہ شرمندگی ڈبل ہو گئی ہے۔

احمد شاہ کے دفتر میں فلم او میوزک کے شعبوں کے ماہر سلطان بھائی سے بھی ملاقات رہی۔ شام کو مشاعرے سے قبل برادرم اشرف شاہین کے ساتھ حال ہی میں رخصت ہونے والے دوست چراغ احمد سلیمی کے اہل خانہ سے تعزیت اور مرحوم کے لیے دعائے مغفرت کے بعد کراچی کی بے ہنگم ٹریفک کی وجہ سے مشاعرے میں دیر سے پہنچے۔

عزیزہ عنبرین حسیب عنبر نظامت کر رہ تھی اور اس کے والد گرامی اور مشاعرے کے صدر برادرم سحر انصاری کے ہمراہ ڈاکٹر پیرزادہ قاسم، انور شعور، سبزواری ریحانہ روفی، اجمل ستار، خالد معین، حمیرا راحت، رخسانہ صبا اور چند اور احباب اپنے اپنے گل ہائے عقیدت پیش کر رہے تھے۔

واپسی پر شہر میں پاکستان کی افغانستان سے کرکٹ میچ میں جیت پر لوگوں کا جوش وخروش دیکھا اور کمرے میں آ کر ٹی وی پر میچ کی High Lights دیکھیں اور تبصرے سنے جو دونوں ہی بہت پرلطف تھے اور پھر ایک غزل کی فائن ٹیوننگ کی جو کچھ دنوں سے چل رہی تھی۔ سو آخر میں معمول کے مشاعروں کے دوبارہ آغاز کے خوشگوار احساس کے ساتھ اسی تازہ ترین غزل کے چند اشعار:

ہر دلِ زار کا مکیں ہونا
لامکاں ہو کے ہر کہیں ہونا

سچ کی ہمت نہ جس زباں میں ہو
اس کا ہونا بھی ہے نہیں ہونا

ہم نے دیکھا فلک نژادوں کا
ایک ہی پل میں بے زمیں ہونا

جس بھنور میں جدا ہوئے تھے ہم
اس نے پوچھا کہ تم ’’وہیں، ہو، نا!‘‘

کیوں آئے حشر سے پھر اٹھا رکھیں
طے ہے جو فیصلہ یہیں ہونا

سچ کہو بستیوں میں اندھوں کی
کیا لگتا ہے مہ جبیں ہونا

ظلم میں کچھ کمی ہی کر دیکھو
تم سے انصاف کو نہیں ہونا

ایسا بدصورتی کا موسم ہے
عجیب سا ہو گیا حسیں ہونا

اس سے بدتر نہیں ہے کچھ امجد
آدھے رستے میں بے یقیں ہونا

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔