کتنے بدل جاتے ہیں لوگ

نصرت جاوید  جمعرات 6 فروری 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

جن بزرگوں سے میں نے صحافت سیکھی ان کی اکثریت مجھ پر بہت شفقت فرمایا کرتی تھی۔ چند سخت گیر اُستادوں کو مگر اس بات پر بہت غصہ آجاتا کہ میں کسی خبر کا جنونیوں کی طرح پیچھا کرتا ہوا بہت جذباتی ہوجاتا ہوں۔ ان اُستادوں کا ہمیشہ یہ اصرار رہا کہ پہلی نظر میں سادہ اور بنیادی دِکھنے والے ’’حقائق‘‘ کو بھی شک اور شبے کی نظر سے دیکھنے کی عادت اپناؤں۔ کوئی شخص اور خاص طور پر کوئی افسر یا سیاست دان خواہ کتنا ہی سچا اور پُرخلوص دکھائی دے اس میں سے کوئی ’’ہیرو‘‘ تلاش کرنے کی ہرگز کوشش نہ کروں۔

صحافت کے ابتدائی دنوں میں اپنے بزرگوں کی ایسی باتیں مجھے بالکل پسند نہ آتیں۔ میں بڑی شدت سے بلکہ یہ محسوس کرتا کہ اپنی زندگی میں بہت سارے تلخ تجربات سے گزرنے کے بعد یہ بزرگ پتھر دل ہوچکے ہیں۔ صحافت ان کے لیے اب محض ایک روٹین ہے اور وہ نپے تلے نصابی انداز میں نوکر پیشہ لوگوں کی طرح اسے گھسیٹتے چلے جاتے ہیں۔ لیکن اب گزشتہ دس برسوں سے میں دل ہی دل میں ان بزرگوں کے بارے میں جن کی اکثریت اب اس دنیا میں نہیں رہی بارہا ندامت بھرے احساسِ جرم میں مبتلا ہونا شروع ہوگیا ہوں۔ لوگوں میں ہیرو ڈھونڈنے کی میری عادت بالکل ختم تو نہیں ہوئی البتہ بہت کم ہوچکی ہے۔ جب بھی میرے من میں تراشا ہوا کوئی بت بالآخر اپنی اصلیت دکھا دیتا ہے تو مجھے اس سے زیادہ غصہ خود اپنے پر آنا شروع ہوجاتا ہے۔

اپنے گھر میں نامعلوم افراد کے درآنے کے بعد میں خود کو ذہنی طور پر مفلوج محسوس کررہا تھا۔ دیگر امور کی جانب اپنی توجہ موڑنے کے لیے منگل کی صبح قومی اسمبلی کا اجلاس دیکھنے چلا گیا۔ پریس گیلری میں داخل ہوا تو جمشید دستی نے مائیک سنبھالا ہوا تھا۔ یہ دن قومی اسمبلی کے اراکین کی جانب سے ان کی نجی حیثیت میں متعارف کروائے بزنس کے لیے مختص ہوتا ہے۔ اسی حوالے سے اویس خان لغاری نے ایک قرارداد جمع کروا رکھی تھی جس کی خواہش تھی کہ جنوبی پنجاب کے نوجوانوں کے لیے سرکاری نوکریوں کا حصول سہل بنانے کے لیے پنجاب کے لیے کچھ اس طرح کا نظام وضع کیا جائے جو کئی برسوں سے سندھ میں شہری اور دیہی کوٹے کے نام پر چلایا جارہا ہے۔ دستی صاحب اسی قرارداد کی حمایت میں تقریر فرمارہے تھے۔

ذاتی طورپر مجھے اس قرارداد سے کوئی اختلاف نہ تھا۔ لاہور جیسے شہروں میں بہت ہی ترقی یافتہ تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہونے والے سرکاری نوکریوں کے امتحانات میں بیٹھتے وقت خود کو جنوبی پنجاب کے پسماندہ علاقوں کے عام اسکولوں اور کالجوں سے آئے امیدواروں کے مقابلے میں زیادہ بااعتماد محسوس کرتے ہوں گے۔ یقینا ان کے اس فطری احساسِ برتری کا تدارک ہونا چاہیے۔ طویل المدتی تناظر میں ترقی یافتہ تعلیمی نظام کو جنوبی پنجاب میں بھی پھیلانا  اصل حل ہے۔ اس مقام تک پہنچنے سے پہلے شاید کسی نہ کسی نوعیت کا کوٹہ مختص کرنا بھی ضروری ہے تاکہ وہاں کے نوجوانوں میں احساسِ محرومی نہ پھیلے۔

دستی صاحب نے اس ’’احساسِ محرومی‘‘ کا جذباتی انداز میں حوالہ دیتے ہوئے بارہا ہمیں متنبہ کیا کہ اگر اس کا ازالہ نہ کیا گیا تو جنوبی پنجاب کے نوجوان بھی بندوق اُٹھانے پر مجبور ہوجائیں گے۔ وہ بندوق اُٹھانے کے ’’امکانات‘‘ کا ذکر کررہے تھے تو میرے ذہن میں کچھ نام، صورتیں اور جماعتیں آنا شروع ہوگئیں جو ان دنوں جنوبی پنجاب میں پہلے ہی سے کافی طاقتور سمجھی جارہی ہیں۔ میں اس کالم میں لیکن جنوبی پنجاب کے ’’حال‘‘ اور دستی صاحب کے ذہن میں موجود امکانات کا تقابل نہیں کرنا چاہ رہا۔

مجھے منگل کی صبح دستی صاحب نے حیران وششدر کیا تو اپنے اس دعوے کے ساتھ کہ وہ جنوبی پنجاب کو غالباً ’’اصل‘‘ پنجاب میں مدغم ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔ داستانوں والے سامعین کی طرح مجھے سمجھ نہ آسکی کہ میں ان کے اس دعوے پر روؤں یا ہنسوں۔ مسئلہ میرا یہ ہے کہ میں نے 2008ء سے 2013ء تک قائم رہنے والی قومی اسمبلی کے تقریباََ سارے اجلاسوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور کانوں سے سنا ہے۔ دستی صاحب ان دنوں پاکستان پیپلز پارٹی کی نشستوں پر بیٹھا کرتے تھے۔ ان کو ’’جعلی ڈگری‘‘ کے الزام میں اُلجھایا گیا تو مجھے ان کی میڈیا اور عدالتوں میں ندامت پر دلی دُکھ ہوا۔ 2010ء کے سیلاب کے دوران میں نے مظفر گڑھ میں پانچ روز گزارے ۔ دستی صاحب ان دنوں مجھے سیلاب زدگان کے سب سے زیادہ اور مخلص ہمدرد نظر آئے۔ بطور صدر آصف علی زرداری ان کی اسی شہرت کے باعث دستی صاحب کی خواہش پر ان کے ’’حلقے‘‘ میں خصوصی طیارہ لے کر اُترے۔ وہاں اُترنے کے بعد انھوں نے اس وقت کی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کو اپنے سے بہت دور رکھا۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ دستی صاحب کھر خاندان کی مظفر گڑھ پر سیاسی بالادستی کو ختم کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔

آصف زرداری انھیں اپنے دائیں ہاتھ رکھے گھومتے رہے۔ دور ایک کونے میں دبکے کھڑی حناربانی کھر کا چہرہ اس دن بے حد افسردہ تھا۔ اس دن کے بعد سے دستی صاحب پیپلز پارٹی کے وزیروں کو کسی خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ انھیں بس حکم دیا جاتا جس کی فوری تعمیل ہونالازمی سمجھا جاتا۔ 2013ء کے انتخاب لڑنے کے لیے یہی دستی صاحب مگر ’’آزاد‘‘ ہوگئے۔ انھوں نے مظفر گڑھ سے ایک نہیں بلکہ دونشستیں جیت لیں تو نتائج آنے کے فوراً  بعد رائے ونڈ بھاگے اور نواز شریف صاحب کو اپنا دوست بنانے کی کوششیں شروع کردیں۔ ایسا کرتے ہوئے وہ قطعاً بھول گئے کہ گزشتہ قومی اسمبلی میں ان کی اکثر تقاریر کا اصل مقصد ’’تخت لہور‘‘ کو لتاڑنا اور ’’سرائیکی وسیب‘‘ کے لیے الگ صوبہ حاصل کرنا ہوا کرتا تھا۔ منگل کو اسی وسیب کو ’’تخت لہور‘‘ کے ساتھ ٹچ بٹناں دی جوڑی کی طرح ملانے کو بے چین نظر آنے والے جمشید دستی مجھے کافی عجیب لگے۔ سچی بات ہے صحافی کو صحافی ہی رہنا چاہیے اور ہمارے معاشرے میں ’’ہیرو‘‘ پیدا نہیں ہوتے۔ ہر قدم پر اک نئی صورت بنا لیتے ہیں لوگ۔ دیکھتے ہی دیکھتے کتنے بدل جاتے ہیں لوگ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔