حکومت مشکلات کے باوجود متعدی امراض کے خاتمے کیلئے بھرپور کو شش کر رہی ہے

شہزاد امجد  بدھ 5 فروری 2014
ایکسپریس فورم میں محکمہ صحت کے حکام اور سماجی رہنماؤں کی گفتگو۔  فوٹو : فائل

ایکسپریس فورم میں محکمہ صحت کے حکام اور سماجی رہنماؤں کی گفتگو۔ فوٹو : فائل

انسان کی ترقی کا دارومدار تعلیم ،تحقیق اور صحت سے جڑا ہوا ہے جس قوم میں بیماری اوراس کا علاج سست روی کاشکار ہو وہاں صحت مند معاشرہ کی تکمیل مشکلات کا شکار رہتی ہے کیونکہ ملک وقوم کی ترقی کا حصہ بننے کے لیے صحت مند اورتندرست ذہن ہی کارآمد ہوتے ہیں۔

صحت مند افراد ملک و قوم کو درپیش ہر قسم کے چیلنج کا سامنا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اگر کسی ملک کی باگ ڈور بیمار اذہان کے ہاتھوں میں ہو گی تو خود اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس ملک میں تعمیر و ترقی تو ایک طرف رہی ملک کو صحیح طریقے سے چلانا ہی مشکل ہو جائے گا۔ ہماری بد قسمتی ہے کہ پاکستان کاشمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں ’’متعدی امراض‘‘ کا خاتمہ ایک چیلنج بن چکا ہے جبکہ پوری دنیا سے یہ امراض ناپید ہو تے جا رہے ہیں۔ ان متعدی امراض کے خاتمے کے لئے حکومت کو اپنے دیگر اخراجات سے ہٹ کر اربوں روپے کا بجٹ ہنگامی بنیادوں پر مختص کرنا پڑتا ہے۔

متعدی امراض جن میں خسرہ،کالی کھانسی، خناق، ٹی بی، تشنج ، پولیو قابل ذکر بیماریاں ہیں کی ویکسین فراہم کرنے کے سلسلے میں حکومت دن رات کام بھی کر رہی ہے اور آگہی مہم کے ذریعہ سے عوام کو یہ پیغام بھی پہنچا رہی ہے کہ اگر وہ اپنے بچوں کو صحت مند بنانا چاہتے ہیں اوران بیماریوں سے محفوظ بنانا چاہتے ہیں تو ان کو حفاظتی ٹیکوں کا کورس پورا کرائیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ گزشتہ چند برسوں سے ڈینگی وائر س بھی ایسی بیماریوں میںشامل ہو چکا ہے جو جان لیوا ثابت ہوئی ہیں۔

اس حوالے سے عوام میں شعور پیدا کرنے اور صحت مند معاشرہ کی تکمیل میں اپنا حصہ ڈالتے ہوئے روزنامہ ایکسپریس کے زیراہتمام ’’متعدی امراض‘‘ کے موضوع پر ایک فورم کا انعقاد کیا گیا جس میں مشیر وزیراعلی پنجاب خواجہ سلمان رفیق ، ڈائریکٹرجنرل پنجاب ڈاکٹر زاہد پرویز، ڈائریکٹر متعدی امراض ڈاکٹرمنیر، سیکرٹری جنرل لاہور عوامی ورکرز پارٹی شازیہ خان اورچیئرمین پنجاب پیرامیڈیکس الائنس ملک منیر نے شرکت کی ، اس حوالے جو گفتگوکی گئی نذر قارئین ہے۔

خواجہ سلمان رفیق (مشیر وزیراعلی پنجاب برائے صحت)

ملک اس وقت جنگی حالت میں ہے۔ پولیو، ڈینگی، خسرہ ، خناق ، کالی کھانسی، ٹی بی سمیت تمام متعدی بیماریوں کا خاتمہ کرنے کے لیے قومی یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہو گا اور ہر سیاستدان ،کارکن ، حکومت کو معاشرہ کی بہتری کے لیے جرات کے ساتھ حالات کا سامنا کرنا ہو گا کیونکہ ’’سب اچھا نہیں بلکہ سب اچھا کرنا ہے‘‘۔

مجھے پچھلے دور حکومت میں صحت کی وزارت کی ذمہ دار ملی جسے میں نے بھرپور طریقے سے پورا کرنے کی کوشش کی اور دوبارہ سے مجھ پر اعتماد کیا گیا ہے جس کو پورا کرنے کے لئے بھی کوشش کر رہا ہوں اور اگلے چار سال میں بہت کچھ کرنا ہے۔ ہمارا مقابلہ اپنے ملک کے ہی کسی صوبے سے نہیں بلکہ سارک ممالک سے ہے ۔ بحیثیت قوم ہمار ا ٹارگٹ پورے ملک کی ترقی ہے جس کے لیے وزیر اعلی پنجاب محمد شہباز شریف کا وژن کرسٹل کلیئر ہے۔

2014ء کا سال متعدی امراض سے پاک پاکستان کا سال ثابت ہوگا جس کے لیے حکومت نے اپنا ہوم ورک مکمل کر لیا ہے جس کے تحت 15 فروری سے 9 امراض سے بچاؤ کی مہم شروع ہوجائے گی اور تمام ٹاؤنز کو الرٹ کر دیا گیا ہے تاہم امسال ڈینگی وائرس کا خاتمہ ہمارے لیے بڑا چیلینج رہے گا ۔ جن شہروں میں ڈینگی کا خطرہ ہے وہاں پروفیشنلز کے ذریعے ان کی خصوصی مانیٹرنگ کی جائے گی اور آگاہی پروگرام شروع کیا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے میڈیا کے کردار کا جائزہ لیں تو ڈینگی وائرس اور پولیو جیسے امراض میں میڈیا کا کردار انتہائی اہم اورمثبت رہا ہے اور امید ہے کہ آئندہ بھی مثبت رہے گا کیونکہ جو آگہی میڈیا کے ذریعہ سے عوام کو گھر، گھر دی جا رہی ہے وہ سب سے زیادہ موثر ثابت ہوئی ہے۔

جب متعدی امراض سے بچاؤ کے لئے دی جانے والی ویکسین کی مہم شروع کی گئی تو ابتدائی مرحلہ میں ویکسین دینے میں ساٹھ فیصد کامیابی رہی اورچالیس فیصد بچے اوربچیاں اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکے تاہم ان چالیس فیصد کو بھی طبی سہولیات فراہم کرنے کے لیے حکومت پنجاب نے بڑے پیمانے پر اقدامات شروع کیے ہیں جن میں ملک کے کسی بھی حصے سے پنجا ب میں آنے والے تمام داخلی اورخارجی راستوں پر متعدی امراض سے بچاو کی ویکسین دستیاب کر دی گئی ہے اوروہاں کوالیفائیڈ سٹاف کو تعینات کیا گیا ہے اور ان کی ہمہ وقت دستیابی کے لیے تمام سرکاری محکموں کو متحرک کیا گیا ہے، یہ سٹاف کسی بھی دوسرے صوبے سے پنجاب میں داخل ہونے والے بچوں کو ویکسین دینے کے عمل کو یقینی بناتا ہے اس طرح کوئی بھی بچہ پنجاب میں داخلے کے وقت ویکسئین سے محروم نہیں رہتا اور اس طرح کسی بھی قسم کے وائرس کا پنجاب میں داخل ہونے کا امکان نہ ہونے کے برابر رہ جاتا ہے۔

ان ویکسینیٹرز کی نقل و حرکت کو بھی پوری طرح چیک کیا جاتا ہے۔ متعدی امراض سے بچاو کی غرض سے جاری مہم کی مانیٹرنگ کرنے کے لیے ہر ضلع کے ایگزیکٹو ڈسٹرکٹ آفیسر ہیلتھ (ای ڈی او ہیلتھ) کو ذمہ دار بنایا گیا ہے اور اس کے اختیارات میں بھی اضافہ کر کے اس کے کردار کو مضبوط کیا جائے گا۔ یہ بھی فیصلہ کیا گیا ہے کہ ہر ضلع میں ای ڈی او ہیلتھ کی تعیناتی خالصتا میرٹ کی بنیاد پر کی جائے گی جس کے لیے الگ سے سرچ کمیٹی بھی قائم کر دی گئی ہے جس کے بعد متعدی امراض میں غفلت کی ذمہ داری ای ڈی او ہیلتھ پر عائد ہو گی اور وہ ہی جوابدہ ہوں گے اور اسی کارکردگی کی بنیاد پر ان کی ترقی کے معاملات طے پائیں گے۔

ای ڈی او ہیلتھ کمپین سے پہلے رات کو تمام اشیاء خود تقسیم کیا کریں گے اور ڈی ڈی ایچ او سب لوگوں کی الگ الگ بیٹ طے کریں گے جبکہ اس سے آگے ایک قدم اور بڑھاتے ہوئے صوبے بھر کی تمام نو ڈویژنز میں سینئر میڈیکل آفیسرز تعینات کئے جائیں گے جن کو کنوینس کے ساتھ دیگر الاؤنس وغیرہ بھی دیئے جائیں گے۔ سرکاری ہسپتالوں، بنیادی مراکز صحت اور دیگر طبی اداروں میں نرسز، پیرامیڈیکس اورڈاکٹرز کی کمی کو پورا کرنے کے لیے بھی عمل کو تیز کر دیا گیا ہے جس کے پہلے مرحلہ میں پبلک سروس کمیشن کے تحت دوہزار ڈاکٹرز کی بھرتی کو یقینی بنایا گیا جن میں سے اسی فیصد نے جوائننگ دے دی ہے جبکہ نرسز اور پیرامیڈیکس کی بھرتی کے لیے حکومت پنجاب کو سمری ارسال کی جا رہی ہے۔

ہماری حکومت نے طے کیا ہے کہ ملک کو متعدی امراض سے پاک بنائیں گے اور اس کے لیے وزیراعلی پنجاب محمد شہبازشریف روزانہ کی بنیاد پر تفصیلات بھی طلب کر رہے ہیں اور جاری اقدامات کا عمل بھی تیز کر رہے ہیں۔ وزیر اعلی پنجاب نے پیرامیڈیکس سمیت محکمہ صحت کے ملازمین سے جو بھی وعدے کیے ہیں ان کو پورا کیا جائے گا، خصوصا ڈاکٹرز کی ترقی کا جلد ہی ٹائم فریم میں لا کر گزشتہ پندرہ سے بیس سال سے ترقی کے منتظر ڈاکٹرز کو ان کا حق دیا جائے گا جس کے لیے محکمہ نے ہوم ورک مکمل کر لیا ہے۔ اس وقت ہسپتالوں میں نرسز کی کمی جسے پورا کیا جائے گا اور پیرامیڈیکس بھی بھرتی کئے جائیں گے۔

حکومت غریب اور نادار عوام کے دکھ میں برابر کی شریک ہے اسی لیے ان کے مفت علاج معالجہ کی غرض سے ہیلتھ کیئر سسٹم کے تحت ہیلتھ انشورنس کارڈ کا اجراء جلد کیا جا رہا ہے جس کے عوض ہر غریب شخص کو چالیس ہزار روپے تک کی رقم دی جائے گی جو وہ اپنے علاج کے موقع پر سرکاری یا نجی ہسپتال سے دوران علاج استعمال کر سکیں گے۔ قوم کو صحت مند بنانے اور صحت مند معاشرہ کی تکمیل کے لیے ہر فرد کو اپنا فرض سمجھ کر کردار ادا کرنا ہو گا۔

ڈاکٹر زاہد پرویز (ڈائریکٹرجنرل ہیلتھ پنجاب)

بچوں کے حفاظتی ٹیکے اور ویکسین کی فراہمی حکومت پنجاب کا سب سے زیادہ اہم اورترجیحی پروگرام ہے۔ ہمارے جتنے بھی نونہال ہیں ہمارا فرض ہے کہ ان کی جان کی حفاظت کے لیے متعدی امراض سے بچاؤ کا پورا اہتمام بر وقت کیا جائے تاکہ ان متعدی امراض کے بگڑ جانے کے باعث اور جان لیوا ثابت ہونے سے ننھی جانوں کو محفوظ بنایا جاسکے جس کے لیے نو متعدی امراض سے بچاؤ کی مہم جاری ہے اوراس تناظر میں تمام ہسپتالوں، ڈسپنسریز، اوردیگر طبی مراکز میں ادویات کی فراہمی کردی گئی ہے اورسٹاف کی موجودگی کو بھی یقینی بنایا گیا ہے۔ یہ ہماری بدقستمی ہے کہ متعدی امراض سے بچاؤ کی غرض سے بعض اوقات والدین توجہ نہیں دیتے اوراپنے بچوں کو حفاظتی ٹیکوں کا کورس مکمل کرانے میں سستی برتتے ہیں جبکہ یونین کونسل کی سطح پر بھی ملازمین نے کوتاہی برتی ہے جس کے باعث بچوں میں ان بیماریوں کے بڑھنے کا رجحان زیادہ پایا جاتا ہے جو بعد ازاں جان لیوا ثابت ہو رہی ہیں۔

حکومت نے اس سلسلے میں جامع پالیسی بنائی ہے جس کے تحت آئندہ سے ان تمام افراد کی ترقی کا انحصار اسی بنیاد پر ہو گا کہ متعدی امراض سے بچاؤ مہم میں ان کی کیا خدمات رہی ہیں اس کے علاوہ ہر یونین کونسل کی سطح پر ایک انچارج بنایا گیا ہے جو ان کی کارکردگی کا جائزہ لیتا ہے اس کے علاوہ ان کی مانیٹرنگ کے لئے ہمارے غیر ملکی پارٹنر بھی ہمارے ساتھ شامل ہیں تاکہ مانیٹرنگ کے نظام کو مربوط بنایا جا سکے۔

پوری دنیا میں پولیو سمیت دیگر متعدی امراض تقریباً ختم ہو چکے ہیں مگر پاکستان میں ابھی تک موجود ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ پچھلے کچھ سالوں سے جو ڈینگی، خسرہ اور پولیو کی وباء آئی ہے وہ اچانک آئی تھیں اب گزشتہ دو سالوں میں ڈینگی وائرس، خسرہ اورپولیو جیسی بیماریوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے اپنی حکمت عملی کو تبدیل کیا ہے اور ایسی سہولیات بھی فراہم کی ہیں جس کے باعث ویکسین یا ٹیکوں کی سٹوریج میں مقررہ درجہ حرارت کے مطابق سٹاک میں دشواری آ رہی تھی، اس کے لیے ہر یونین کونسل کی سطح پر ڈیپ فریزر مہیا کئے گئے ہیں اور اس کے علاوہ مزید 1600 بڑے ڈیپ فریزر خریدے گئے ہیں جو کہ تمام اضلاع میں تقسیم ہو رہے ہیں اور یہ آئندہ 10 سال کی ضروریات کے لئے کافی ہوں گے جبکہ ویکسینیٹرز کی ایک ہزار سے زائد آسامیاں جو خالی پڑی تھیں ان پر ویکسی نیٹرز کی بھرتی کے لیے بھی کوششیں جاری ہیں اور اس سلسلے میں جو کمی کوتاہی رہ گئی تھی ہماری کوشش ہے کہ آئندہ وہ نہ رہے۔

دیگر صوبوں سے پنجاب میں آنے والے بچوں کے ذریعے پولیو وائرس کے پنجاب میں داخلے کے خطرے کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے پنجاب میں داخلے کے تمام راستوں پر بچوں کو قطرے پلانے والی ٹیمیں بٹھائی ہوئی ہیں جوکہ تمام بچوں کو قطرے پلاتی ہیں۔ متعدی امراض میں خدمات انجام دینے والے تمام ورکرز ، ملازمین اورڈاکٹرز کی خصوصی تربیت کی گئی ہے، ورکشاپس ہو رہی ہیں جبکہ جون 2014ء تک اس سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے مجموعی طور پر دس آگہی مہمیں شروع کی جائیں گی جن میں سے دو رواں ماہ میں ہو چکی ہیں۔ اس کے علاوہ 30 جون تک پولیو کے قطرے پلانے کی 8 کمپینز چلائی جائیں گی اور خسرے کے ٹیکے لگانے کیلئے بھی ایک مہم چلائی جائے گی تاکہ خسرے کے پھیلاؤ کو روکا جاسکے۔ حکومت پنجاب اس سلسلے میں پوری طرح آن بورڈ ہے ، وزیر صحت اور وزیر اعلیٰ پنجاب پوری طرح اس میں دلچسپی لے رہے ہیں۔

ڈاکٹرمنیر (ڈائریکٹر متعدی امراض)

ٹی بی، گردن توڑ بخار، نمونیا، خسرہ ،کالی کھانسی ، خناق، تشنج ، ہیپاٹائٹس سمیت پولیو جیسی موذی بیماری پر قابو پانے کے لیے حکومت برق رفتاری سے کام کر رہی ہے۔ ان کے خاتمے کیلئے سال میں تین دفعہ یہ قطرے پلائے جاتے ہیں اور حفاظتی ٹیکوں کا شیڈول اس طرح سے ہے کہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کو زیرو ڈوز پولیو کے قطروں کی صورت میں دی جاتی ہے اور ٹی بی سے بچاؤ کا ٹیکہ لگایا جاتا ہے۔ اس کے بعد جب بچہ 6 ہفتے کا ہوتا ہے تو اس کو ہیپاٹائٹس، خناق، کالی کھانسی، تشنج اور نمونیہ سے بچاؤ کا ٹیکہ لگایا جاتا ہے جس کو ہم پینٹا کہتے ہیں۔ یہی ٹیکے 10 ہفتے اور پھر 14 ہفتے کی عمر میں بھی لگائے جاتے ہیں۔ اسی طرح خسرے کا پہلا ٹیکہ 9 ماہ کی عمر میں اور دوسرا ٹیکہ 15 ماہ کی عمر میں لگایا جاتا ہے۔ حاملہ خواتین کو تشنج سے بچاؤ کے ٹیکے بھی حمل کے 8 ویں مہینے کے دوران لگائے جاتے ہیں۔

ہر سال 32 سے 33 لاکھ بچوں کو یہ حفاظتی ٹیکے لگائے جاتے ہیں۔ کچھ غلط افواہوں کے باعث کچھ لوگوں میں ان ٹیکوں اور ویکسیئن کے بارے میں غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں جن کے خاتمے کیلئے ہم نے علماء کرام سے فتوے لئے ہیں کہ تمام ویکسیئن حلال ہے اور پوری دنیا سمیت اسلامی ممالک میں بھی یہی ویکسیئن استعمال کی جاتی ہے۔ یہ ویکسیئن دنیا کی بہتری فرموں سے خریدی جاتی ہے اور اسے مناسب درجہ حرارت پر رکھا جاتا ہے تاکہ جب یہ بچوں کو لگے تو پوری طرح محفوظ ہو۔

اس کے علاوہ ہر یونین کونسل کی سطح پر ہمارا ایک ویکسینیٹر مقرر ہے جو بچوں کو ٹیکے لگاتا ہے اس کے علاوہ تمام مراکز صحت، بنیادی مراکز صحت، دیہی مراکز صحت، تحصیل ہیڈ کوارٹرز، ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز، میٹرنٹی ہسپالوں اور ٹیچنگ ہسپتالوں میں بھی یہ ٹیکے رکھے جاتے ہیں۔ میری تمام بچوں کے والدین سے گزارش ہے کہ دو سال سے کم عمر کے تمام بچوں کو حفاظتی مراکز پر لا کر ٹیکے لگوائیں تاکہ ایسی بیماریاں جن کا تدارک ویکسیئن لگانے سے ممکن ہو ان تمام بیماریوں سے بچوں کو محفوظ کیا جاسکے۔ پولیو کے قطروں کے حوالے سے کہنا چاہوں گا کہ ہر کمپین میں بچوں کو پولیو کے دو قطرے ضرور پلائیں اس کا کہیں کوئی نقصان نہیں ہے تاکہ آپ کے بچے اس مرض سے محفوظ رہ سکیں۔

ملک منیر احمد (چیئرمین پیرامیڈکس الائنس پنجاب)

پولیو کے حوالے سے دنیا میں پاکستان کا امیج بہت خراب ہو رہا ہے۔ اس وقت پوری دنیا میں گرین پاسپورٹ کے ساتھ سفر کرنا انتہائی مشکل ہو چکا ہے۔ پوری دنیا پولیو کے خاتمے کا جشن منا رہی ہے مگر ہمارے ہاں پولیو کے کیسز سامنے آ رہے ہیں۔ بھارت جوکہ ایک انتہائی غریب لوگوں کا ملک ہے وہاں بھی پولیو ختم ہو چکا ہے۔ جہان تک پولیو اور دیگر متعدی امراض کے خاتمے کا تعلق ہے اس میں پیرا میڈکس کا کردار بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ سی ڈی سی سپروائزر ہو یا سی ڈی سی انسپکٹر ، ویکسینیٹر، ایل ایچ وی، لیڈی ہیلتھ ورکر ہو یا لیڈی ہیلتھ ویزیٹر یہ لوگ ہر مہم میں اپنی پوری توانائیاں صرف کرکے اسے کامیاب بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔

پیرا میڈکس دور دراز کے علاقوں کے عوام میں ان بیماریوں کے بارے میں آگاہی فراہم کرتے ہیں اور مہم کے دوران ویکسینیشن کرتے ہیں۔ پولیو ورکرز اصل میں پیرامیڈکس ہی ہیں۔ ہماری حتی الوسع کوشش ہوتی ہے کہ سٹور سے پولیو ویکسئین لے کر اچھے طریقے سے محفوظ کر کے بچوں کو پلانے تک اس کی حفاظت کی جائے اور اسے خراب ہونے سے بھی بچایا جائے اور تمام بچوں کو پلائی بھی جائے۔ اس عمل میں پیرا میڈکس کو بہت سی مشکلات بھی درپیش ہوتی ہیں۔

شہری علاقوں میں تو ٹرانسپورٹ کا اتنا زیادہ مسئلہ نہیں ہوتا مگر دیہاتی علاقے جہاں دور دراز علاقوں میں کئی کلو میٹر دور تک جانا ہوتا ہے اور ٹرانسپورٹ کی سہولیات بھی بہتر نہیں ہیں وہاں زیادہ مشکلات ہوتی ہیں۔ حکومت نے کچھ عرصہ قبل ویکسینیٹرز کو موٹر سائیکلز دیئے تھے جس سے ان کیلئے ٹرانسپورٹ کا مسئلہ کسی حد تک کم ہوا ہے مگر ابھی بھی پوری طرح حل نہیں ہوا اور خواتین پولیو ورکرز تو موٹر سائیکل استعمال نہیں کر سکتیں ان کو ٹرانسپورٹ کی فراہمی کیلئے بھی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

ہم اپنی تنظیم کی سطح پر پوری کوشش کرتے ہیں کہ یہ لوگ بھرپور طریقے سے کام کریں۔ مگر حکومت کو بھی ہماری ضروریات کا خیال رکھنا چاہیے۔ کراچی اورپشاور میں قتل کئے جانے والے پولیو ورکرز کے قتل کی ہم پر زور مذمت کرتے ہیں مگر دوسری طرف پنجاب میں دیکھیں تو حکومت ان کا معاشی استحصال کر رہی ہے، ہمارے مطالبات کی طرف کبھی دھیان نہیں دیا گیا۔ ہم اپنے فرائض کی ادائیگی میں پہلے ہی پوری دلچسپی لیتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ ہماری طرف سے کوئی کوتاہی نہ ہو، تاہم اگر حکومت ہماری بنیادی ضروریات پوری کرنے کی طرف توجہ دے تو کام میں مزید بہتری لائی جا سکتی ہے۔ فیصل آباد میں پولیو ورکرز کو قتل کیا گیا مگر کسی ایک کو بھی کوئی سرٹیفکیٹ نہیں دیا گیا۔

پولیو ورکرز کی سہولیات کے لئے دیئے گئے فنڈز استعمال ہی نہیں ہوئے اور انہیں واپس کر دیا گیا، یہ غیر سنجیدہ رویہ کی نشاندہی کرتا ہے۔ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ کسی دور دراز علاقے میں بھی کوئی بچہ قطرے پینے سے رہ نہ جائے اس لئے پولیو ورکرز صبح 7 سے رات 9 بجے تک کام کرتے ہیں مگر اس کے مطابق ان کو سہولیات نہیں دی جاتیں۔

میری عوام سے بھی اپیل ہے کہ وہ بچوں کو قطرے ضرور پلائیں، اگر کسی بچے کو پولیو کے قطرے نہ پلوائے جائیں تو اس سے نقصان یہ ہوتا ہے کہ کسی ایک علاقے میں کوئی پولیوکیس نکلتا ہے تو وہ دیگر علاقوں میں بھی پہنچ جاتا ہے۔ کچھ بچو ں کے والدین قطرے پلانے سے ہچکچاتے ہیں ان کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ حکومت ان کے بچوں کی صحت کے لئے ہی مہم چلا رہی ہے اور انہیں بھی یہ سمجھنا چاہیئے کہ یہ بچوں کی صحت کے لئے انتہائی ضروری ہے۔

شازیہ خان (جنرل سیکرٹری پاکستان عوامی ورکرز پارٹی لاہور)

پولیو کے حوالے سے اس وقت ملک میں صورتحال دیکھیں تو بہت خراب ہے۔ دنیا بھر میں پولیو ختم ہونے کے قریب ہے صرف پاکستان، افغانستان اور نائیجیریا ایسے ممالک ہیں جہاں ابھی تک پولیو ختم نہیں ہو سکا اور اس کا خطرہ موجود ہے۔ پولیو کے خاتمے کی مہم جس میں دہائیاں صرف ہوتی ہیں کسی بھی ملک میں جب ایک بھی بچے میں پولیو کا وائرس سامنے آجاتا ہے تو اس کے لئے کی گئی تمام تر کوششیں ضائع ہو جاتی ہیں اور بیماری دوبارہ سے آجاتی ہے۔ کئی دفعہ ایسا ہوا کہ پاکستان سے مریض پولیو کا وائرس لے کر گئے اور مسائل پیدا ہوئے کیونکہ پولیو میں صرف بیمار کے لئے مسئلہ نہیں ہوتا بلکہ یہ وائرس آگے بھی پھیلتا ہے۔

پاکستان میں پولیو کے سب سے زیادہ کیسز فاٹا اور بلوچستان کے علاقوں میں سامنے آتے ہیں۔ یونیسف کی رپورٹ کے مطابق فاٹا میں صرف 90 فیصد بچوں کو پولیو ویکیسین ہو پاتی ہے جبکہ 10 فیصد بچے اس سے محروم رہ جاتے ہیں اور بلوچستان میں 91 فیصد بچوں کو ہوتی ہے اور 9 فیصد بچے رہ جاتے ہیں۔

اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ یہ علاقے بڑے دشوار گزار ہیں اوروہاں تک پہنچنا مشکل ہوتا ہے جبکہ دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ ان علاقوں میں پولیو ورکرز کو جانے کی اجازت نہیں ہے ، وہاں نہ صرف پولیو ورکرز بلکہ وہاں تو حکومت کو بھی جانے کی اجازت نہیں ہے۔کسی بھی پاکستانی شہری کی جان ومال کی حفاظت اور صحت کی سہولیات پہنچانے کی ضمانت آئین پاکستان میں دی گئی ہے۔

پولیو کی وجہ سے کسی بچے کی معذوری بھی اس ضمانت پر سوالیہ نشان ہے اور پولیو ورکرز جو اپنے فرائض کی ادائیگی میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے یہ بھی آئین میں دی گئی ضمانت پر سوالیہ نشان ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ حکومت کی رٹ کہاں قائم ہے؟ ہر جگہ ناخواندہ بچے، معذور بچے، بیماربچے، بیروزگار نوجوان ، خواتین اور اقلیتوں پر حملے، عام شہریوں پر حملے، فرقہ وارانہ دہشت گردی ہو رہی ہے۔ ملک سے پولیو کا خاتمہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ اس کی موجودگی میں پاکستانیوں کے بیرون ملک سفر پر پابندی لگ سکتی ہے۔ سعودی عرب نے حج کے لئے آنے والوں پر ویکسین کی شرط لگا دی ہے۔ سعودی عرب حج پر جانے پر وہاں نہ صرف بچوں بلکہ بڑوں اوربوڑھوں کو بھی ویکسئین پلائی جاتی ہے اس لئے حکومت کی ذمہ داری ہے کہ پولیو کے خاتمے کیلئے بہتر انداز میں پالیسی مرتب کرے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔