خلاء۔۔۔ حدِآخر

ناصر ذوالفقار  اتوار 7 نومبر 2021
خلائی تسخیر کی کہانی، سائنس فکشن سے حقیقت تک۔ فوٹو : فائل

خلائی تسخیر کی کہانی، سائنس فکشن سے حقیقت تک۔ فوٹو : فائل

SPACE,The Final Frontier!:”To Boldly go were no man gone before!” یہ وہ تاریخی انائوسمنٹ ہے جو کہ مشہور زمانہ ٹی وی سیریز ’اسٹارٹریک‘ کے آغاز پر بڑی گونج دارآواز میں سنائی جاتی ہے۔ یہ آواز لیجنڈری اداکار اور وائس اوورآرٹسٹ لینرڈنموئے کی ہے۔

(خلاء، حدآخر: دلیری سے وہاں گئے جہاں کوئی انسان اس سے پہلے نہیں گیا!) اداکار نموئے نے اسٹارٹریک میں لافانی کردار ’اسپوک‘ ادا کیا ہے جو کہ آدھا انسان اور نصف وولکن (یونانی دیوتا) ہوتا ہے۔ وہ خلائی جہاز پر سیکنڈ ان کمانڈر ہوتے ہیں۔ پروڈیوسر جِین رَوڈن بِیری(1921-1991)کی اس تاریخی اوریجنل سائنس فکشن سیریز نے ایک زمانے کو متاثر کیا تھا اور اب بھی اپنے سحر میں جکڑ کر رکھا ہوا ہے۔ ساٹھ اور ستر کی دہائیوں میں اس جادوئی ٹی وی سیریز، جس کا کہ موضوع خلائی کھوج ہے، بے شمار شائقین کو خلاء کی جانب متوجہ کیا جن میں راقم الحروف بھی شامل ہے۔

اس کے فینز ایسے بھی ہیں جن میں کئی مرد خواتین ماہر خلاباز بھی بنے ہیں اسی طرح کی ایک اور زندہ مثال لیجنڈری ماہرفلکیات کارل ساگان ( 1934-1996 ) کی مقبول ڈاکومینٹری ’’کاسموس ‘‘ کے حوالے سے بھی دی جاتی ہے جو کہ ستّر اور اسّی کے عشروں میں دنیا بھر کے ٹی وی چینلوں پر دکھائی گئی اور جس نے دھوم مچادی تھی۔ اس مقبول ٹی وی سیریز کے اختتام پر سیکڑوں نوجوان لڑکے اور لڑکیوں نے ماہرفلکیات بننے کا عزم کیا تھا۔

خلائی تسخیر کے حوالے سے اہم ماہ اکتوبر ہے جب دنیا کا پہلا مصنوعی سیارچہ ’اسپٹنک‘ مدار میں بھیجا گیا اور ایک نئی تاریخ رقم ہوگئی۔ جب اسٹارٹریک سیریز کے اسٹار ولیم شینٹر ’کیپٹن کرک‘ نے ایک تاریخی معرکہ سرانجام دیا۔ یوں سالوں تخیلاتی خلابازی میں رہنے والے اداکار اب حقیقی دنیا کے بھی خلاباز قرار پاچکے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی وہ خلائی سفر پر جانے والے معمر ترین خلاباز بھی بن گئے۔

13 اکتوبر 2021 ء کو جب جیف بیزوس کی ’’بلیو اورجن‘‘ کمپنی کی جانب سے دوسری انسان برادر خلائی پرواز کی گئی تھی تو ولیم 90 برس کے ہوچکے تھے، اس سے پہلے اسی کمپنی کی پہلی انسانی خلائی پرواز کے ذریعے 82 سالہ معمر خاتون خلاء کا سفر کرچکی تھیں۔ ماضی میں دنیا کے تیسرے خلاباز اور زمینی مدار میں جانے والے پہلے امریکی خلاباز جان ایچ گلین ( 1921-2016 ) بھی معمر خلاباز کا اعزاز حاصل کرچکے ہیں۔ 1998 ء جب وہ دوسری بار خلائی شٹل ڈسکوریSTS-95 سے خلائی سفر پر گئے تھے تو 77 برس کی عمر کے ہوچکے تھے۔

سائنس و ٹیکنالوجیز میں ہمیشہ سے فکشن کا بڑا عمل دخل رہا ہے۔ سائنس دانوں، انجنیئرز کے علاوہ قلم کار، فن کار، گرافکس ڈیزائنر، ماہرین فن تعمیرات سب ہی نے اسے اپنا لہو دے کر کر پروان چڑھایا ہے۔ سائنسی کاموں کو عوام کے سامنے پیش ہونے سے پہلے اسے قلم کاروں اور آرٹسٹوں نے لوگوں میں روشناس کروایا۔ جب اڑنے والے قالین اور اڑن کھٹولے کا تصور قائم ہوا تب ہوائی جہاز کا وجود تک نہ تھا، آج ہوائی و خلائی سفر ایک عام حقیقت بن چکا ہے جب کہ ڈرون کی شکل میں ہمارے پاس مختلف سواریاں ہیں جن میں بجلی کی کاریں، ہیلی کاپٹرز وغیرہ قابل ذکر ہیں جو کہ ہمارے مستقبل کی ضرورت بنتے جارہے ہیں۔ جب انسان نے خلائی دسترس حاصل نہیں کی تھی۔ اس وقت چاند کے سفر کی کہانیاں لکھی گئیں جن میں سب سے مشہور کہانی ’’چاند پر پہلا آدمی‘‘ ہے۔

ان مصنفین نے عوام کے تجسس کو بہت بڑھادیا۔ اسٹارٹریک میں بہت سے ایسی ایجادات متعارف کروائی گئی تھیں جو کہ آنے والے دنوں میں اور آج ہماری زندگی کا جز بن چکی ہیں۔ انم یں دستی وڈیو فونز، خودکار کھلونے، بند ہونے والے بجلی کے دروازے، ایک جگہ سے دور مطلوبہ مقام پر منتقل ہوجانا، یہ ایک ایسی مشین ہوتی ہے جوکہ انسان کو انرجائز کرتی ہے، جس کا مطلب ہے کہ اس کا پورا وجود نہایت برق رفتاری سے کہیں بھی بھیجا جاسکتا ہے۔

یہ آج ٹیلی پورٹیشن(Teleportation)کی شکل میں ہمارے سامنے ہے جس میں ٹی وی اسٹوڈیو میں دوسرے شہر سے یا غیرملکی نمائندے کا عکس تھری ڈی ’’ہولوگرامز‘‘ کی شکل میں نمودار ہوتا ہے اور وہ ٹیلی فونک رابطے کی طرح ہم کلام ہوتا ہے۔ یہ مصنوعی ذہانت کا کمال ہے۔ آنجہانی عظیم ماہر فزکس اسٹیفن ہاکنگ نے بلیک ہول سے متعلق اپنی تحقیق میں نیا رخ اختیار کرتے ہوئے کہا تھا کہ بلیک ہول میں پہنچنا ممکن ہے، لیکن یہ انسانی عکس ہولوگرامز کی صورت میں سفر کرسکتا ہے اور واپس آسکتا ہے جب کہ اس سے پہلے وہ کہتے رہے تھے کہ وہاں جانا اور واپسی ممکن نہیں۔ یہ بیان انہوں نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں دیا تھا۔

غرض یہ ہے کہ آئندہ ٹیلی پورٹیشن کی ترقی سے عین ممکن ہے کہ انسانی وجود کو مادے کی شکل میں ایک نقطے سے دوسرے مقام پر منتقل کیا جاسکے گا۔ فکشن کے بارے میں ہاکنگ کا کہنا تھا کہ ’’سائنس فکشن اور زیادہ تسکین دیتی ہے جب کہ اصل سائنس کہیں زیادہ اجنبی ہوسکتی ہے!‘‘ “Real science can be far stranger than science fiction and much more satisfying.”۔

مونٹریال کینڈا میں پید ا ہونے والے اداکار شینٹر مصنف، پروڈیوسر، ڈائریکٹر، اسکرین پلے رائٹر اور موسیقار بھی رہے ہیں۔ وہ سات عشروں تک اداکاری کے جوہر دکھاتے رہے۔ انہوں نے چار شادیاں کیں۔ ان کی موجودہ شریک حیات ایلزبتھ شینٹر پچھلے سال فوت ہوچکی ہیں جن سے ان کی شادی 2001 ء میں ہوئی تھی۔ ان کی تین بیٹیاں اور چار نواسے نواسیاں ہیں۔ اپنی حالیہ پرواز پر جانے سے پہلے انہوں نے “Today Show”میں اقرار کیا تھا کہ وہ اپنے نئے مشن ایڈونچر کے لیے قدرے خوف زدہ ہیں۔

ایسوسی ایٹیڈ پریس والوں نے اپنے اخبار پر ان کی سرخی کچھ اس طرح لگائی تھی،”Shatner Boldly goes and Emotionally Return!” (شینٹر بہادری سے گئے اور جذباتی ہوکر لوٹے)۔ اپنے خلائی پرواز کے تجربہ کے بارے میں انہوں نے کہا ،”Every body in World need to do this!, Every body in World needs to see it!” (دنیا میں ہر ایک کو ہی یہ کرنے کی ضرورت ہے! دنیا میں ہر ایک کو اسے دیکھنے کی ضرورت ہے!‘‘)۔

ولیم خلاء میں بے وزنی کے عالم میں کچھ خوف زدہ سے دکھائی دیے، ایک 90 سال کے شخص کے لیے یہ کوئی معمولی بات نہ تھی۔ اس وقت جب کہ ان کے تینوں ساتھی خلاباز بے وزنی کی کیفیت سے لطف اندوز ہورہے تھے، شینٹر اپنی سیٹ کو تھامے کھڑے تھے اور اپنی کھڑکی سے باہر کا نظارہ کرتے ہوئے حیرت زدہ ہورہے تھے، ایک آواز سنائی دیتی ہے،”This is Earth?” ۔ اس موقع پر خاتون خلانورد پاورز کی پرجوش آواز بھی وڈیو میں سنائی دیتی ہے جو کہ چند منٹوں کی بے وزنی کی کیفیت میں ریکارڈ کئی گئی ہے۔ اس وڈیو کی بعد میں کئی دل چسپ میمز بھی بنائی گئیں، جن میں ولیم حیرت زدہ ہیں اور کھڑکی سے اسٹارٹریک کے جہاز وغیرہ کو ایڈٹ کیا گیا ہے۔

طویل عمری کے تجربے اور کچھ نیا کرنے کی جستجو کے باوجود جس وقت ولیم شینٹر اپنے دیگر ساتھی خلابازوں کے ساتھ بیٹھے کار میں لائونچنگ پیڈ کی جانب جارہے تھے، تو ان کے چہرے پر فکر اور پریشانی نمایاں تھی۔ انہوں نے اپنے خلاء کے مشاہدے کو بڑے جذباتی انداز میں کمپنی کے چیف بیزوس کے ساتھ شیئر کرتے ہوئے بتایا کہ اوپر خلاء سیاہ اور تاریک ہے جب کہ نیچے کی جانب نیلے رنگ کی دھرتی ماں، انہوں نے خلاء کی اس تاریکی کو موت اور زمین کے کُرے کو زندگی قرار دیا، ’’یہاںسکون ہے!‘‘ وہ کہتے ہیں کہ یہ تجربہ ناقابل بیان ہے۔ شینٹر کا ردعمل شاید کچھ زیادہ مختلف نہ تھا۔

یوری گاگارین سے لے کر اب تک کے خلائی مسافروں کو خلاء کو پہلی بار دیکھنے پر ایسا ہی محسوس ہوتا ہے اور تاثر یہی جنم لیتا ہے کہ ہماری دنیا یا ’زمین‘ ایک بہترین جگہ ہے۔ عالمی قوانین برائے خلاء کے مطابق 50 میل کی بلندی یا اس سے زائد سفر کرنے والوں کو خلاباز کا ٹائیٹل دیا جاتا ہے جب کہ وہ 66.5 میل کی بلندی کی دوری تک گئے۔ اس سفر کا دورانیہ11 منٹ تھا جس میں تین سے چار منٹ تک بے وزنی کا تجربہ کیا گیا۔

اسٹار ولیم شینٹر کے ساتھ اس تاریخی خلائی سفر میں جو شریک کار مسافر تھے ان میں ناسا کے ایک سابق انجنیئر اور نانو سیٹلائیٹ سوفٹ وئیر کمپنی “Planet Labs” کے مشترکہ بانی Chris Boshuizen ، کلینیکل تحقیقات کے ماہر ,Glende de Vries وہ کمپنی “Medidata” کے مشترکہ بانی ہیں اور بلیو اورجن کی نائب صدر برائے مشن اینڈ فلائیٹ کنڑول آپریشن Audrey Powers شامل تھیں۔ وہ ناسا کی سابق فلائیٹ کنٹرولر ہیں۔

بلیواورجن کے راکٹ نیو شیپرڈ کا نام امریکا کے پہلے اور دنیا کے دوسرے خلاباز ایلن شیپرڈ کے نام پر رکھا گیا ہے اور یہ 2000 ء میں قائم کی گئی تھی۔ بلیو اورجن کی یہ فلائیٹ خودکار ہے، اسی لیے اس میں پائیلٹ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ خلاباز راکٹ کے اوپری حصّے میں کیپسول میں سوار ہوتے ہیں جو کہ گن ڈراپ شکل کی ہے۔NS-18 بلیو اورجن کی ٹیکساس کے لائونچنگ پیڈ سے روانگی بدھ صبح 9:30 پر مشرقی وقت کے مطابق ہوئی۔ پہلے اس پرواز کا شیڈول منگل 12 اکتوبر تھا لیکن خرابی موسم کے باعث ایک روز کی تاخیر ہوئی۔ پرواز کی دو سیٹیں 20 سے 28 ملین ڈالر میں نیلامی کے ذریعے فروخت کی گئی تھیں۔ یہ قیمت Chris Boshuizen اور Glende Vriesنے ادا کی، جب کہ ولیم شینٹر کو بیزوس نے اعزازی مہمان کے طور پر فلائیٹ کا حصہ بنایا۔

ابھی یہ اخراجات بہت زیادہ ہیں جو کہ امیر ترین لوگ ہی برداشت کرسکتے ہیں جب کہ بلیو کی حریف کمپنی ’’ورجن گالیٹیک‘‘ نے اپنی خلائی سب آربیٹل سیّاحتی سیٹوں کو 450,000 ڈالر فی سیٹ فروخت کیا ہے۔ اپنی پرواز کے اڑان لفٹ آف ہونے کے دو منٹ 45 سیکنڈ میں راکٹ کو خلائی مسافر کیپسول (جہاز) کو ریلیز کرنا ہوتا ہے۔

خلاء کی سرحدوں میں 62 میل کی بلندی یا اونچائی کو ہدف بنایاگیا ہے۔ یہ سمندری سطح کے اوپر ہے جسے “Karman Line” کہا جاتا ہے، یہ انٹرنیشنل ایئروناٹکس فیڈریشن کے مطابق وہ مرتب کردہ بانڈری ہے جو کہ زمینی ماحول اور بعید خلاء کے مابین حد مقرر کرتی ہے۔ خلاء میں دسترس حاصل ہوتے ہی مسافروں کو خود سے بندھی سیٹ بیلٹس کھولنے کی اجازت ہوتی ہے تاکہ وہ اس بے وزنی کی کیفیت سے لطف اٹھا سکے اور باہر کے مناظر کو کھڑی سے دیکھ سکیں، جہاں سے انہیں خوب صورت نیلی و سفید زمین کا نظارہ کرنے کا ایک موقع ملتا ہے۔ شاید پہلی بار یا پھر آخری بار۔ یہ نظارہ تین سے چار منٹ تک کیا جاسکتا ہے، جس کے بعد ایک بار پھر سے مسافر اپنی سیٹوں کے ساتھ بندھ جاتے ہیں۔

اب کیپسول ایک جھٹکے کے ساتھ نیچے کی جانب غوطہ کھاتا ہے اور زمین کی جانب واپسی کا سفر شروع کرتا ہے۔ زمین کے قریب پہنچتے پر رفتار وزن کو قابو کرنے کے لئے تین سرخ و سفید رنگ کے پیرا شوٹس کھل چکے ہوتے ہیں جو کہ آہستگی کے ساتھ مسافروں کے کیپسول کو باحفاظت زمین پر اتاردیتے ہیں۔ اس سلسلے کا پہلا پیراشوٹ 14 جنوری 2021 ء کو ٹیکساس میں اتارا گیا تھا۔ بلیو اورجن کی پہلی پرواز میں جیف بیزوس کے بھائی مارک بیزوس، 82 سالہ ہوابازی کی شریک بانی ٹیسٹ پائیلٹ خاتون Walley Funk جو کہ خلاء سے محبت رکھتی ہیں اور ان کے ساتھ اٹھارہ سالہ نوجوان فزکس کے طالب علم Oliver Daemen تھے جو پرواز کے کم عمر ترین خلاباز بن گئے ہیں۔ یہ پرواز 10 منٹ 17 سیکنڈ تک جاری رہی۔

زمین پر واپسی کے کچھ منٹوں بعد ہی بلیو کمپنی کا ریسکیو عملہ معہ ان کے چیف جائے وقوع پر موجود تھا۔ شینٹر محتاط انداز میں کیپسول کی سیڑھیوں سے نیچے اترے اور گرم جوشی سے بیزوس کو گلے لگایا۔ وہ اس وقت انتہائی جذباتی ہورہے تھے اور انہوں نے تمام کیفیت کا غیررسمی طریقے سے بیزوس کے ساتھ اظہارِخیال کیا۔ انہوں نے خصوصی طور پر کمپنی کے چیف کا شکریہ بھی ادا کیا کہ انہوں نے اس حیرت انگیز سفر کے لیے مہمان کے طور پر ان کے لیے انتظام کروایا۔

یہاں ولیم نے تاریخی کلمات کہے، ان کی آنکھیں نم تھیں ان کے کہنے کے مطابق یہ سب غیرمعمولی اور غیرمعمولی تھا۔ وہ کہہ رہے تھے کہ میں اس کے سحر سے نکل نہ پائوں گا، اور امید ہے کہ جو محسوسات ہیں اسے برقرار رکھوں گا۔ میں اسے کھونا نہیں چاہتا۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ میرے اور میری زندگی سے بھی بڑھ کر بڑی شے ہے۔ حالاںکہ کیپسول کے اندر شینٹر نہایت چپ چاپ اور اندر کی صورت حال سے غافل سے نظر آئے۔

شینٹر اور ان کے دیگر ساتھیوں نے ایک لفٹ آف کی تیزرفتاری (ایکسریلشن) کو برداشت کیا گو کہ اس سے قبل خلائی شٹل کے خلاباز محسوس کرتے تھے کہ وہ نارمل کشش ثقل کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہے۔ اس طرح بہت زیادہ کشش ثقل کا بوجھG-Load) ) زمین پر واپس لوٹنے پر ہوتا ہے۔ جب کم ترزمینی مدار کے ماحول میں خلائی جہاز داخل ہوتا ہے۔ شینٹر اور ان کے تمام ساتھی مسافر جو شیپرڈ کے ذریعے خلاء میں پہنچے پیشہ ورانہ خلابازوں کے بجائے زمین پر ان کا بھائی چارے کے خلائی سفیر کے طور پر خیرمقدم کیا گیا۔

اکتوبر کے مہینے میں ہی روس کاسموس کے جانب سے سرکاری طور پر دنیا کے پہلے فلمی عملے کو شوٹنگ کے لیے بھیجا گیا، تاکہ فلم ’چیلینج‘ کی خلاء میں فلم بندی کی جاسکے اور اس طرح روسی فن کارہ یولیا پہلی اداکارہ ہیں جو خلائی سفر پر گئیں۔ یو ں ٹام کروز کے بجائے اب ولیم شینٹر دنیا کے دوسرے اور پہلے مرد اداکار ہیں جو خلائی سفر پر بھیجے گئے۔

سائنس فکشن فلموں کی ابتداء: 1927 ء میں جرمنی میں پہلی سائنس فکشن فلم بنی تھی۔ برلن کی اس مہنگی ترین فلم میں مستقبل کے ایک زیرزمین شہر کو دکھایا گیا تھا۔ یہ فلم بدترین ناکامی سے دوچار ہوئی، لیکن بعد کے آنے والے زمانے میں فکشن فلموں نے غیرمعمولی بزنس کرنا شروع کردیا تھا جب کہ ان کے بجٹ بھی غیر معمولی رکھے جاتے ہیں۔ فی زمانہ کمپیوٹر کی ترقی کے بعد اب سنیما میں فینٹسی اور ٹیکنالوجی کے ملاپ کو اسکرین پر دکھایا جاتا ہے جسے ” “Computer Generated Imageryیا عرف عام میں CGI ٹیکنیک کہا جاتا ہے۔

آج کی مہنگی ترین سائنس فکشن فلمیں باکس آفس پر ریکارڈ بزنس کرتی ہیں۔ اب تک کی ریکارڈ چار سب سے زیادہ بزنس کرنے والی فلموں میں ٹائیٹینک کے علاوہ دیگر تینوں فلمیں سائنس کے موضوع پر ہی بنائی گئی تھیں۔ ان میں AVITAR ، AVENGER اور مشہور زمانہ اسٹار وارز کی فلمیں شامل ہیں۔ زیادہ تر منافع سائنسی موضوعات کی فلموں کی تشریحی مہم اور مارکیٹنگ سے کمایا جاتا ہے۔ اسٹار وارز اس طرح کی پہلی فلم تھی جس نے مرچنڈائزنگ مووی کے طور پر فلم سے متعلق اشیاء اور بچوں کے کھلونوں کی آمدنی وغیرہ سے 98 ارب یورو کا کاروبار کیا ہے۔

اسٹارٹریک (اورجنل سیریز):
امریکی ڈائریکٹر و پروڈیوسر جین روڈن بیری(Gene Rodden Berry) اگست 1921 ء میں ٹیکساس میں پیدا ہوئے تھے اور وہ لاس انجلس،کیلی فورنیا میں پلے بڑھے۔ بیری نے اوریجنل اسٹارٹریک کا آغاز 8 ستمبر 1966 ء کو کیا تھا جو کہ خود بھی سائنس فکشن کے پرستار رہے تھے ۔CNB کی یہ سیریل تین سیزنز میں پیش کی گئی تھی جس کی 79 اقساط ہیں۔ ایک قسط کا اوسط دورانیہ 50 منٹ ہے۔ پہلا سیزن 1966-1967، دوسرا 1967-1968 جب کہ تیسرے سیزن کے لیے یہ سیریز1968-1969 تک متواتر چلتی رہی۔ پیرا مائونٹ کی اس ٹی وی فلم کے نمایاں ستاروں میں Leonard Nimoy (اسپوک)، Willium Shatner (کیپٹن کرک) اور ڈاکٹر کے روپ میں اداکار De Forest Kelly ہوا کرتے تھے۔

طشتری نما خلائی جہاز کا نام ’’یوایس ایس انٹرپرائز‘‘ رکھا گیا تھا۔12 اپریل 1981 ء کو جب انسانی خلائی پرواز کی 20 ویں سال گرہ منائی جارہی تھی اس وقت پہلی خلائی شٹل کولمبیا کو لائونچ کیا گیا تو اس کا نام اسٹارٹریک کے شپ پر ’’انٹرپرائز‘‘ رکھا گیا تھا جس کے خلاباز جان ینگ اور کریپن تھے۔ شٹل کولمبیا کی لائونچنگ سے پہلے ناسا کی طرف سے پوری اسٹارٹریک کاسٹ کو کولمبیا انٹرپرائز کا دورہ کرایا گیا۔ اسٹارٹریک پر اب تک سنیما کے لیے 9 موویز بنائی جاچکی ہیں جن میں 6 مووی اسٹارٹریک کی حقیقی کاسٹ کے ساتھ جب کہ چار فلمیں نئی کاسٹ کے ساتھ تیار کی گئی ہیں۔ ان میں آنے والی دسویں فلم ’’اسٹارٹریک ۔4 ‘‘ عالمی وبا کورونا کے سبب التوا کا شکار ہوگئی ہے۔ اسٹارٹریک کی چھے اوریجنل فلمیں عوام میں زیادہ پذیرائی حاصل نہ کرسکی تھیں۔

صرف پہلی فلم نے 45 ملین ڈالر کا بزنس کیا تھا جب کہ اس کے مقابلے میں نئی کاسٹ کے ساتھ بنائی جانے والی تین اسٹارٹریک فلموں نے بہتر کاروبار کیا ہے، جن میں 2009ء کی ’’اسٹارٹریک‘‘ نے 150 ملین ڈالر، 2013 ء کی ’’اسٹارٹریک: ان ٹودی ڈارکنسٹ‘‘ نے 190 ملین ڈالر جب کہ 2016 ء کی تیسری مووی ’’اسٹارٹریک: بیانڈ‘‘ نے 185 ملین ڈالر کا بزنس کرچکی ہے۔ تمام اسٹارٹریک مووی کی مجموعی آمدنی 893 ملین ڈالر بنتی ہے۔ روڈن بیری نے اسٹارٹریک اوریجنل سیریز کے بعد کارٹون کی شکل میں فلم اسٹارٹریک، اینیمیٹڈ سیریز اور اسٹارٹریک ’’دی نیکسٹ جنریشن‘‘ پروڈیوس کی تھیں جب کہ ان کے بعد ان کے کریڈٹ کی بنیاد پر ٹی وی پر ان ٹریک فلموں کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔