شکریہ عمران خان شکریہ

محمد مشتاق ایم اے  پير 8 نومبر 2021
عمران خان نے عوام کی تمام خوش فہمیوں اور غلط فہمیوں کا خاتمہ کردیا ہے۔ (فوٹو: فائل)

عمران خان نے عوام کی تمام خوش فہمیوں اور غلط فہمیوں کا خاتمہ کردیا ہے۔ (فوٹو: فائل)

آج کل ملک میں مہنگائی، چور بازاری، ذخیرہ اندوزی، جھوٹ، بہتان اور بیڈ گورننس کی جس ناگفتہ بہ صورت سے عام آدمی کا پالا پڑا ہوا ہے اس کو دیکھا جائے تو تحریر کا یہ عنوان کچھ جچتا نہیں۔ لیکن ضروری تو نہیں کہ جس زاویے سے ایک آدمی سوچے دوسرا آدمی بھی اسی زاویے کی سوچ رکھتا ہو۔ اس کی سادہ سی مثال میری یہ تحریر ہے جس میں اس صورت حال کے باوجود میں نے ملک کے وزیراعظم عمران خان کا شکریہ ادا کرنے کا سلیقہ تراشا ہے۔

جی ہاں شکریہ بنتا ہے اس بات پر کہ جناب نے مجھ سمیت ملک کی ایک بہت بڑی اکثریت کی آنکھیں کھول کر رکھ دی ہیں اور جو خواب ہم ان کے حکومت میں آنے سے پہلے ان کے حوالے سے اپنی آنکھوں میں سجائے بیٹھے تھے کہ جناب تو دودھ میں دھلے ہیں، 22 سال کی جدوجہد ہے اور پھر ان کے سینے میں دل نہیں غریبوں کا دکھ اور درد دھڑکتا ہے۔ محض ساڑھے تین سال میں وہ خواب ایسے رفو چکر ہوئے کہ اب نہ وہ دل رہا اور نہ دھڑکن، کیوں کہ عوام کی خواہشات اور امیدوں کا جناب نے ایسا دھڑن تختہ کیا ہے کہ ان کو سمجھ میں نہیں آرہی کہ باقی رہ جانے والا ڈیڑھ سال کیسے گزرے گا؟ جناب کی حکومت نے عام اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافے کا جو پہیہ چلایا ہے وہ محمود و ایاز سب کو ایک ہی صف میں کھڑا کرتا جا رہا ہے۔

جی شکریہ تو بنتا ہے اس بات پر کہ اس وقت عام آدمی یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ اس ملک میں حکومت نام کی کوئی چیز ہے بھی یا نہیں؟ کیوں کہ یہاں پر جس کا جو دل کررہا ہے اسے کوئی روکنے والا نہیں۔ گلہ کریں تو کس سے اور گریبان پکڑیں تو کس سے۔ صبح و شام چیزوں کے ریٹس مختلف ہیں اور وہ کس ریشو سے بڑھ رہے ہیں اور کیوں بڑھ رہے ہیں، کچھ پتہ نہیں۔ پرائس کنٹرول کمیٹیاں کدھر ہیں؟ کیا کر رہی ہیں؟ کچھ پتہ نہیں۔ جس سے بات کرو وہ عمران حکومت کے ذمے ڈال کر اپنی من مانی کر لیتا ہے اور عوام ان کے ہاتھوں لٹنے پر مجبور ہیں۔ مہنگائی ہر حکومت میں ہوتی ہے اور حکومت چیزوں کے ریٹس مقرر کرتی ہے مگر یہاں المیہ یہ ہے کہ حکومت چینی کے ریٹس 90 روپے کلو مقرر کرتی ہے اور بازار میں 140 سے 160 روپے فی کلو پر دستیاب ہے۔ پٹرول کے ریٹس ویسے ہی ایک ماہ میں دو بار تبدیل ہوتے ہیں۔ اب حکومت نے عوام کی مزید سہوت کےلیے دو بار کے علاوہ کسی بھی وقت بڑھانے کی عادت اپنا لی ہے۔

شکریہ تو اس لیے بھی بنتا ہے کہ جناب کی حکومت میں جو رتن شامل ہیں ان کو سمجھ ہی نہیں آتی کہ کون کس کا ترجمان ہے۔ کیوں کہ ان کے اپنے وزیر اور مشیر اپنی حکومتی پالیسی سے نابلد نظر آتے ہیں اور ہر ایک کے بیانات ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ وزیراعظم کئی بار کوشش کرچکے ہیں کہ ان کو ایک پیچ پر لایا جائے لیکن ’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘ کے مصداق یہ معاملہ ابھی تک حل ہوتا نظر نہیں آیا۔ ملک کی داخلی صورت حال پر حکومت کی لمحہ بہ لمحہ بدلتی پالیسی پر صدقے واری جانے کو دل کرتا ہے۔

ملک کے پبلک سیکٹر میں کام کرنے والے اداروں کی کیا صورتحال ہے، اس طرف تو نہ پہلی حکومتوں نے کوئی توجہ دی اور نہ ہی موجودہ حکومت کو اس کی توفیق ہوئی کہ جن اداروں نے ملک چلانا ہے ان میں بہتری کی کوئی تدبیر کی جائے۔ اب جو کام اداروں نے کرنے ہیں ان کاموں کےلیے عوام اپنے علاقے کے وزیروں، مشیروں اور کھڑپنچوں کے در پر اپنی عرضیاں پیش کرنے پر مجبور ہیں۔ اگر ملکی اداروں کو ٹھیک کرلینے کی زحمت کرلی جاتی تو عوام کے کام خودبخود ایک نظام کے تحت ہوتے رہتے۔ یہ سب سے زیادہ ضروری کام ہے لیکن اسے سرانجام دینے کو کوئی تیار نہیں۔

شکریہ تو بنتا ہے کہ ہمارے وزیراعظم عمران خان مدد لینے دوست ممالک اور قرض کےلیے آئی ایم ایف کے پاس جانے کے جتنے خلاف تھے وہ اتنے ہی دھڑلے اور دیدہ دلیری سے ان کے پاس گئے اور ایسا کرنے پر ایسی ایسی توجہات پیش کیں جس پر ان کا شکریہ بنتا ہے۔ اب ساڑھے تین سال گزرنے کے باوجود ان کی باتوں اور بیانات سے ایسا لگتا ہے کہ ملک وہ نہیں بلکہ گزشتہ حکومتیں چلا رہی ہیں اور وہ صرف ان پر بیانات دینے کا فریضہ سر انجام دینے پر مامور ہیں۔

شکریہ بنتا ہے کہ قانون سازی اور آرڈیننس سازی میں جو کمالات جناب کی حکومت دکھا رہی ہے وہ بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا معاملہ ہو یا نیب چیئرمین کی مدت میں توسیع کا، بلدیاتی الیکشن کا معاملہ ہو، اپوزیشن کے خلاف کارروائیوں کا معاملہ ہو یا نواز شریف کو ملک سے باہر بھیجنے کا۔ 2018 کے الیکشن سے پہلے اور بعد میں بے شمار سیاسی لوگوں پر مقدمات اور ان پر جھوٹے بہتان جن کو بعد میں خود ہی سیاسی بات کہہ کر ہوا میں اڑا دیا گیا، الغرض ہر ہر معاملے میں ایسی ایسی باتیں کی گئیں اور ایسے رویے اپنائے گئے کہ ان کو سیاسی طور پر بہت نقصان پہنچا لیکن کھودا پہاڑ اور نکلا چوہا کے مصداق عوام کے ہاتھ کچھ نہیں آیا کیوں کہ آج ان کی حالت گزشتہ حکومتوں میں حالت سے بدتر ہے۔

شکریہ تو بنتا ہے کہ ہم سب یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ عمران خان نے 22 سالہ جدوجہد میں سب سمجھ لیا ہے کہ مسائل کیا ہیں اور ان کو حل کیسے کرنا ہے۔ اور یہ سب ہم نے بلاوجہ نہیں سمجھا بلکہ ہمیں بار بار یہ باور کرایا گیا کہ روزانہ ملک میں اتنے ارب کی کرپشن ہوتی ہے جو ان کے آنے سے رک جائے گی۔ یہ بتایا گیا کہ ان کے پاس کام کرنے والی ٹیم بالکل تیار ہے جس میں اسد عمر جیسے قابل لوگ ہیں۔ ہمیں بتایا گیا کہ 90 دنوں میں یہ ہوجائے گا، 2 سال میں یہ ہوجائے گا اور 5 سال بعد نہ جانے ہمارا ملک ترقی کی کون سے زینے پر قدم رکھ چکا ہوگا۔

آج معیشت کو دیکھ لیجئے، مہنگائی کا انڈیکس دیکھ لیجئے، کرپشن کے حوالے سے ملک کی رینکنگ دیکھ لیجئے، ایمانداری کے حوالے سے رپورٹیں پڑھ لیجئے، صحت کے حوالے سے دیکھ لیجئے۔ ہم نے سمجھا تھا کہ دوسری حکومتوں اور لوگوں کو تو ہم نے دیکھ لیا ہے اب عمران خان کو آزمانے میں کیا حرج ہے اور ہم یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ ’’تم ہی دنیا ہو‘‘ لیکن آج سب کی آنکھیں کھل چکی ہیں کہ ’’تم بھی دنیا ہو‘‘۔

ہم نے یہاں کسی کی نیت پر تبصرہ نہیں کیا کیوں کہ وہ صرف اللہ کی ذات جانتی ہے۔ ہم تو اس پر بات کر سکتے ہیں جو سامنے نظر آتا ہے اور آج جو نظر آرہا ہے اس پر عوام کی رائے کو نقارہ خدا سمجھا جائے۔ ہم تو بس عمران خان کا شکریہ ہی ادا کر سکتے ہیں کہ ان کے آنے سے گلشن میں بہار آئی ورنہ اگر ان کو حکومت میں آنے کا موقع نہ ملتا تو ہم یہ حسرت دل میں لیے یہاں سے کوچ کرجاتے کہ بس اس کو کسی نے آنے جو نہیں دیا، ورنہ ہمارے سارے دکھ درد دور کردیتا۔ آئی ایم ایف کے پاس جانے سے پہلے خودکشی کرلیتا، پٹرول 40 روپے پر لے آتا، بجلی اور گیس کے بل بہت کم کردیتا اور ہمیں بل پھاڑنے اور جلانے کی ضرورت نہ پڑتی۔ صحت کے حوالے سے جو سہولتیں عوام کو پہلے حاصل تھیں ان میں اضافہ کرتا، آٹا، دال چینی، آئل، اور دیگر ضروری اشیا سستی کرتا، لوگ باہر سے واپس اپنے ملک نوکری کےلیے آتے، دوسرے ممالک حسرت بھری نگاہوں سے ہماری طرف دیکھتے کہ کہاں سے کہاں پہنچ گئے ہیں اور امداد کےلیے ہاتھ پھیلاتے۔ اس کے آنے سے ہم سب بھائی بھائی بن جاتے، گالم گلوچ، بہتان تراشی ماضی کا قصہ بن جاتے۔ پچاس لاکھ گھر، کروڑ نوکریاں، گھر کی دہلیز پر انصاف ملتا، شیر اور بکری ایک گھاٹ سے پانی پیتے اور سارے اللہ کا شکر ادا کرتے۔

ان سب باتوں کو، ان سب خوابوں کو اور ان سب خوش فہمیوں اور غلط فہمیوں کو ہمارے جیتے جی ختم کرنے پر ہم وزیراعظم عمران خان کے تہہ دل سے مشکور و ممنون ہیں۔ اب بھولے عوام ایک بار پھر اسی دوراہے پر کھڑے ہیں کہ اگلے الیکشن میں ووٹ کس کو دیں گے اور کسے رہنما کریں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

محمد مشتاق ایم اے

محمد مشتاق ایم اے

بلاگر ایک کالم نگار، سیاسی، سماجی اور کاروباری تجزیہ کار ہیں۔ سیاست، مذہب، تعلیم اور دوسرے سماجی موضوعات میں دلچسپی رکھتے ہیں اور ان ہی پر زیادہ لکھتے ہیں۔ انہیں ٹوئٹر آئی ڈی @MMushtaq28 پر فالو کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔