ای اوبی آئی کے سابق ڈی جی فنانس گرفتار

اسد کھرل  جمعرات 6 فروری 2014
ایف آئی اے کی کارروائی، 34 ارب روپے کی 18مشکوک جائیدادیں خریدیں۔ فوٹو: فائل

ایف آئی اے کی کارروائی، 34 ارب روپے کی 18مشکوک جائیدادیں خریدیں۔ فوٹو: فائل

لاہور: ایف آئی اے پنجاب نے ای او بی آئی کے سابق ڈائریکٹرجنرل فنانس کو گرفتار کر لیاہے۔

ان پر اربوں روپے کی جائیداد کے مشکوک معاہدے میںملوث ہونے اورپیپرا، ای اوبی آئی اور ایل ڈی اے کے قواعد کی خلاف ورزی کا الزام ہے۔ ایکسپریس ٹریبیون کے مطابق ای او بی آئی کے سابق چیئرمین ظفراقبال گوندل کے دور میں بعض اعلیٰ افسران نے 34 ارب روپے کی 18جائیدادیں مشکوک معاہدوں کے ذریعے خریدیں۔ ایف آئی اے نے ملزمان کے خلاف چارج شیٹس تیار کرلیں جس میں سے ایک کے مطابق سابق ڈائریکٹر جنرل نجم الثاقب نے پیپرارولز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاک عرب ہاؤسنگ اسکیم میں 654پلاٹس 1.15ارب روپے میں خریدے۔ مذکورہ ہاؤسنگ اسکیم کی یہ آفر 6جنوری 2012 کو منظورکی گئی جبکہ اشتہار میںدی گئی آخری تاریخ 16ستمبر 2011 تھی۔انھوں نے بورڈ آف ٹرسٹیز کی اجازت کے بغیر ہی 15جنوری 2013 کو مذکورہ رقم کا 10 فیصد پاک عرب ہاؤسنگ اسکیم کو اداکرنے کی منظوری بھی دے دی۔ ایف آئی اے لاہور کے اینٹی کرپشن سرکل میں ملزمان پر انسدادبد عنوانی ایکٹ کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی ہیں جبکہ کراچی سرکل اور راولپنڈی پولیس اسٹیشن میں بھی ایف آئی آر درج ہیں۔

 photo 4_zps4c74917d.jpg

ای او بی آئی کے بورڈ آف ٹرسٹیزنے متفقہ طورپر تمام 18جائیدادیں ان کے فروخت کنندگان کو واپس کرنے کی منظوری دے دی ہے کیونکہ ان کے لیے صرف ایک بولی ہی وصول ہوئی تھی جو مخصوص کردہ قیمت کے برابر بھی نہ تھی۔7جنوری 2014 کو ہونے والی نیلامی سے یہ بات سامنے آئی کہ یہ املاک صرف اپنی جیب بھرنے کے لیے خریدی گئی تھیں۔ اس میں عوامی ادارے کی بہبود کا عنصر شامل نہ تھا۔ ذرائع کے مطابق یہ حقیقت سامنے آنے کے بعد ای او بی آئی نے فروخت کنندگان سے 34ارب روپے مع سود وہرجانے کی وصولی ممکن بنانے کافیصلہ کیا۔ عام نیلامی نے یہ حقیقت عیاںکردی کہ یہ خریداری کس کی سرپرستی میں ہوئی تھی۔ ذرائع کے مطابق سابق چیئرمین ظفر اقبال گوندل جو اس وقت کے وفاقی وزیر اور پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما نذر محمود گوندل کے چھوٹے بھائی ہیں، اس عہدے پر سیاسی بنیاد پر لگائے گئے تھے۔ گوندل اور ثاقب کے علاوہ 9دیگر ملزمان اس فہرست میں شامل ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔