افغانستان کے مسائل اور پاکستانی معیشت

ایڈیٹوریل  جمعرات 11 نومبر 2021
چین یہ سمجھتاہے کہ اگرافغانستان میں عدم استحکام ہوتا ہے تو اس کا اثرپاکستان میں موجود چین کی سرمایہ کاری پر پڑسکتا ہے۔ فوٹو: فائل

چین یہ سمجھتاہے کہ اگرافغانستان میں عدم استحکام ہوتا ہے تو اس کا اثرپاکستان میں موجود چین کی سرمایہ کاری پر پڑسکتا ہے۔ فوٹو: فائل

وفاقی کابینہ نے وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت منعقدہ اجلاس میں افغانستان سے سیب کے سوا تمام درآمدات پر ٹیکس ختم کرتے ہوئے وہاں خوراک کے بحران کے پیش نظرچاول اور گندم کی امداد بھیجنے کی منظوری دی ہے۔

کابینہ نے عالمی برادری سے بھی افغانستان کی مدد کی اپیل کی ہے،جب کہ دوسری جانب عالمی بینک نے افغانستان کی امداد کی بحالی کے امکان کو رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ تباہ حال معیشت میں کام کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔

اجلاس کے بعد میڈیا بریفنگ کے دوران وفاقی وزیراطلاعات نے کہا ہے کہ افغانستان میں 23 ملین افراد خوراک کی کمی کا شکار ہیں۔انٹرنیشنل جریدے دی اکانومسٹ کی رپورٹ کے مطابق حال ہی میں افغانستان کے اندر 8 بچے بھوک سے جاں بحق ہوئے۔

ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ افغانستان کی بقا کا دارومدار بدستور غیر ملکی امداد پر ہے،اگر دنیا نے افغانستان کی حکومت کو جلد تسلیم نہ کیا اور اس پر پابندیاں برقرار رکھنے کا سلسلہ برقرار رکھا تو وہاں بڑا انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے ،فرض کیجیے، دنیا اس بگڑتی ہوئی صورت حال کو سمجھنے میں ناکام ہو جاتی ہے تو افغانستان مزید مشکلات کا شکار ہوسکتا ہے۔

تاحال افغانستان میں طالبان حکومت کو کسی نے بھی قبول نہیں کیا ہے، تاہم طالبان حکومت متعدد بار افغانستان کے غیر ملکی بینکوں میں منجمد اثاثوں کی بحالی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہہ چکی ہے کہ اگر اسے اس کی رقوم مل جائیں تو کسی اور امداد کی ضرورت نہیں رہے گی۔افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت کے قیام اور امریکا کے انخلا کے بعد خطے میں پیدا ہونے والی سیاسی تبدیلیوں کے اثرات ہر شعبے بالخصوص معیشت پر مرتب ہو رہے ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنی تقریر میں افغانستان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کو اجاگر کیا تھا، انھوں نے طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے اور پابندیاں اٹھانے پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ ہمیں لازمی طور پر افغانستان کے عوام کی خاطر موجودہ حکومت کو مضبوط اور مستحکم کرنا ہوگا۔ پاکستانی روپے کی قدر میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں تاریخی کمی ان اثرات کی ایک مثال ہے۔

افغانستان پر طالبان کی حکومت سے قبل وہاں کی جانے والی بیرونی سرمایہ کاری کے مثبت اثرات پاکستان کی معیشت پر بھی نظر آئے تھے، البتہ اب یہ سلسلہ بند ہونے کے بعد پاکستان سے امریکی ڈالرز افغانستان منتقل ہو رہے ہیں۔

مشیر خزانہ شوکت ترین کا کہنا ہے کہ ہماری معیشت ترقی کر رہی ہے، گروتھ بڑھے گی، افغانستان کے ساتھ تجارت پاکستانی روپے میں ہوگی تاہم چند ہفتوں بعد معلوم ہوگا افغانستان کے ساتھ تجارت پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ افغانستان کی موجودہ صورتِ حال میں چین بھی خوف زدہ ہے کیوں کہ چین یہ سمجھتا ہے کہ اگر افغانستان میں عدم استحکام ہوتا ہے تو اس کا اثر پاکستان میں موجود چین کی سرمایہ کاری پر پڑ سکتا ہے اور اسی وجہ سے وہ انسانی بنیادوں پر افغانستان کو امداد فراہم کررہا ہے۔

افغان حکومت کے بیشتر شعبے مالی امداد کے غیریقینی حالات کی وجہ سے غیرفعال ہیں جب کہ اقوامِ متحدہ کی ایجنسیوں اور غیرسرکاری تنظیموں کی طرف سے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ملنے والی امداد سلامتی سے متعلق مسائل، عملے کے انخلاء، بندشوں اور قانونی اعتبار سے غیریقینی صورتحال کے باعث بہت زیادہ محدود ہو گئی ہے۔

ہیومن رائٹس واچ کی ایسوسی ایٹ ایشیا کی ڈائریکٹر کے بقول ’’پہلے سے بگڑی صورتحال کو مزید گھمبیر ہونے سے بچانے کے لیے، ڈونرز فوری طور پر ایسی عالمی ایجنسیوں اور غیرسرکاری تنظیموں کی مدد پر متفق ہوں جو خوراک، صحت، اور تعلیم کے شعبوں میں ہنگامی مدد دے سکتی ہیں اور طالبان کی شمولیت سے براہ راست امداد کا منصوبہ بھی بنائیں۔‘‘

افغانستان کا شمار اب دنیا کے غریب ترین ملکوں میں ہوتا ہے، تاہم افغانستان میں جنگ کے اس کے قریب ترین ہمسائے پاکستان پر بھی انتہائی سنگین اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ افغان تنازعے سے بنیادی طور پر پاکستان میں سیکیورٹی خدشات میں اضافہ ہوا اور ملک میں دہشت گردی کے حملوں میں اچانک تیزی آئی۔

پاکستانی روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت میں گذشتہ کئی مہینوں سے مسلسل اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے جس کی وجہ سے درآمدات جن میں پٹرولیم مصنوعات اور کھانے پینے کی چیزیں مہنگے داموں پاکستان میں آ رہی ہیں۔ دوسری جانب ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں مسلسل کمی دیکھنے میں آئی ہے۔

کابل پر طالبان کے فتح سے پاکستانی معیشت کے ایک اہم اعشاریے اسٹاک مارکیٹ نے منفی ردِعمل کا مظاہرہ کیا اور اسٹاک مارکیٹ میں سیکڑوں پوائنٹس کی کمی دیکھنے میں آئی۔اسٹاک مارکیٹ کا سرمایہ کار افغانستان کی صورت حال پر کافی پریشان تھا۔

دوسری جانب بین الاقوامی مارکیٹ میں افغانستان کی صورت حال کی وجہ سے پاکستانی بانڈز کی دھڑا دھڑ فروخت شروع ہو گئی جس کی وجہ سے ان کی پانچ‘ دس اور تیس سالہ بانڈز کی قیمتوں میں کمی دیکھنے میں آئی۔ پاکستان کی جانب سے بین الاقوامی مارکیٹ میں سرمائے کے حصول کے لیے جاری کیے گئے ان بانڈز کی سیکنڈری مارکیٹ میں خرید و فروخت ہوتی ہے۔

تاہم کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد بین الاقوامی سرمایہ کاروں نے ان بانڈز میں عدم دلچسپی دکھائی جس کی وجہ سے ان کی فروخت میں بہت زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا۔ جیسے جیسے افغانستان میں حالات بدل رہے ہیں اور اگر وہاں پر امن طریقے سے اقتدار کی منتقلی کے معاملات طے ہو جاتے ہیں تو ان بانڈز کی دوبارہ خریداری شروع ہو سکتی ہے۔ بانڈزکی قیمتیں گرنے کی وجہ مارکیٹ کا مجموعی ردِعمل تھا کہ سرمایہ کار کس طرح سوچ رہا ہے۔

پاکستان کے بینچ مارک KSE-100 انڈیکس میں گزشتہ سال کے دوران مسلسل اضافے کے بعد پچھلے تقریباً 6 ہفتے میں 2 ہزار 296 پوائنٹس کی کمی آچکی ہے، طالبان کی کامیابی سے پہلے 13 اگست کو مارکیٹ 47 ہزار 169پر بند ہوئی تھی جو یکم اکتوبر تک 44 ہزار873 پوائنٹ تک گر گئی، جب کہ کیپٹل مارکیٹ کو چند بروکیج کمپنیوں نے یرغمال بنا کر رکھا ہے اور یہ بروکیج کمپنیاں اب بڑے کاروباری اداروں میں منتقل ہوچکی ہیں۔

ہماری حکومت کو افغانستان کا مسئلہ خود پر سوار کرنے کی بجائے اور خدائی خدمتگار بننے کے بجائے اقوام متحدہ میں ناکام افغانستان کے پاکستان پر خطرناک اثرات کو نمایاں کرنا چاہیے تھا، اقتصادی سفارت کاری کو سیاست پر ترجیح دی جانی چاہیے، انھیں بتانا چاہیے تھا کہ افغانستان میں خلا کو جلدی پر نہیں کیا گیا تو پاکستان میں ممکنہ طور پر مہاجرین کی بڑے پیمانے پر آمد، دہشت گردی میں اضافے کے خطرات اور پاکستان سے ڈالر اور اشیا کی منتقلی ہوگی۔

افغانستان میں 20 سال تک جاری رہنے والی جنگ امریکی خارجہ پالیسی کی ایک بڑی اور تسلیم شدہ ناکامی ہے۔ اس جنگ کے نتیجے میں تقریباً 2 لاکھ 41 ہزار افراد لقمہ اجل بنے جب کہ کوئی سیاسی یا سیکیورٹی اہداف بھی حاصل نہ کیے جا سکے۔ اس جنگ پر آنے والے اخراجات بھی بہت زیادہ ہیں،صرف امریکا نے اس پر دو اعشاریہ تین کھرب خرچ کیے ہیں۔

پاکستان فنانشنل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ میں تاحال شامل ہے ، جس سے نکلنے کے لیے پاکستان بھرپور کوششیں کررہا ہے ، اور اس حربے کے ذریعے پاکستان کو دبانے کی کوشش کی جارہی ہے، اگر پاکستان کے تعلقات امریکا سے ٹھیک نہیں ہوتے تو بین الاقوامی معاشی اداروں سے خیر کی توقع نہیں رکھی جاسکتی، وہاں پاکستان کو عدم تعاون کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے، لہذا ہمیں بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے، افغانستان کے مسائل پر جذباتی ہونے کی بجائے حقائق کی روشنی میں فیصلے کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ۔

سچ کہیے افغانستان کی معیشت اس وقت وینٹی لیٹر پر ہے ، پاکستان کے اپنے خارجی اور داخلی مسائل بہت زیادہ ہیں ، حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسا میکنزم بنائے کہ ہم اس مشکل صورتحال سے بتدریج نکل آئیں۔

حقائق کے تناظر میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ درآمدات پر انحصار بڑھنے اور افغان تجارت کے حوالے سے غلط پالیسی اپنانے کے باعث ڈالر کی قیمت میں مسلسل اضافہ ہوا ہے ، حکومت سے مودبانہ گزارش ہے کہ وہ غلطیاں دہرانے کی بجائے ان سے سبق سیکھے تاکہ مہنگائی کے بوجھ تلے دبے عوام کی مشکلات کم ہوسکیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔