مہنگائی و بے روزگاری کا عدم احساس

شبیر احمد ارمان  جمعـء 12 نومبر 2021
shabbirarman@yahoo.com

[email protected]

ملکی خزانہ ڈالروں سے بھرنے کے ثمرات یہ ہیں کہ مہنگائی و بے روزگاری اپنی انتہا پر ہیں مل و کارخانے بند ہورہے ہیں ، سرکاری و نجی سطح پر لوگوں کوملازمت و نوکریوں سے برخاست کیا جارہا ہے ڈاؤن اور رائٹ سائزنگ کرکے غربت مٹاؤ مہم چلائی جارہی ہے ۔مفلس بدحال غریب انسان ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہوکر اپنا اور اپنے اہل خانہ کی دل سوز زندگیاں ختم کرکے معاشی صورت حال میں معاونت کررہے ہیں ۔ سماج دشمن عناصر استحصالی معاشی نظام سے تنگ آئے لوگوں کومخفی سرگرمیوں کی دلدل میں جھونک رہے ہیں ۔یہ صورت حال موجودہ حکمرانوں تک محدود نہیں ہے ۔

تاریخ کا مطالعہ ،مشاہدہ اور تجربات کی روشنی میں ہر غیر سیاسی ، غریب مسکین ،لاچار لوگ اس حقیقت سے واقف ہیں کہ ہر ادوار میں غریبوں کی غربت دور کرنے کے لیے حکومتیں گرائی اور بنائی جاتی رہی ہیں ،کانوں میں رس گھولنے والے دلکش نعرے سیاسی جلسے جلوسوں میں بلند کیے جاتے رہے ہیں ۔

غریبوں کی حالت بدلنے کے لیے سب سے پہلے انھیں سرکس کے میدان میں جمع کیا جاتا رہا ہے ۔ اچھا یا برا تماشا دکھانے پر ان سے تالیاں بجوائی جاتی رہی ہے ۔ پھر موقع ملتے ہی پہلے ٹوپی ، پگڑی مہنگائی اور بے روزگاری کی معرفت سروں سے اتروائی گئیں ۔

جانے والوں نے الزامات لگائے آنے والوں نے دعوے کیے ۔اس کھیل میں ایک ایک کرکے غریبوں کے تن سے تمام تمام چھوٹے بڑے کپڑے مہنگائی اور بے روزگاری کے ذریعے اتروادیے گئے ۔اس پر بس نہ ہوا ،غریبوں کا خون نچوڑنا شروع کردیا گیا ۔ اپنے پیشروں کی طرح یہ بھی یہی وہی گیت گا رہے ہیں کہ لوگوں کا معیار زندگی بہتر بنانے پر توجہ مرکوز ہے ۔ معیار تو غیر معیاری کی بہتری کے لیے بنایا جاتا ہے یہاں تو زندگی کا تصور ہی محال ہوتا جارہا ہے ۔

جب ہمارے موجودہ حکمران حکومت میں نہیں تھے، یعنی حکومت میں آنے کی جد و جہد میں مصروف تھے تو ان کے دل میں غریبوں کا بڑا احساس تھا اسی احساس کی بنیاد پر ان کی سیاسی پارٹی پی ٹی آئی نے ملک میں تبدیلی لانے کا نعرہ بلند کیا اور عوام کے دل و دماغ میں تبدیلی کا یہ نعرہ پیوست ہوگیا،عوام نے دل کی گہرائیوں سے عمران خان کو اپنا مسیحا جان کران کی پارٹی کو ووٹ دیکر مسند اقتدار تک پہنچا دیا لیکن پے در پے حکومتی یوٹرن نے عوام میں مایوسی پھیلانا شروع کردی ۔

عوام کی یہ مایوسی اس وقت انتہا کو پہنچی جب حکومتی حلقوں کی جانب سے مہنگائی و بے روزگاری کے باوجود یہ کہہ کر غریبوں کے زخم پر نمک پاشی کی گئی کہ پاکستان میں مہنگائی نہیں ہے یا کہ کم ہے اس طرح وزیر اعظم بننے سے پہلے غریبوں کے لیے جو احساس ہمدردی تھا وہ ہوا میں تحلیل ہوگیا اور اب یہ احساس صرف احساس کارڈ کے شش ماہی 1200ہزار روپے تک محدود ہوکر رہ گیا ہے ۔

شاندار تبدیلی پالیسیوں کی بدولت غریب ذلت کی زندگیوں سے چھٹکارہ پانے کے لیے حرام موت کو گلے لگا رہے ہیں ۔ کیا یہی ہے ریاست مدینہ کی ابتدا ؟ کوئی ایک واقعہ ہوتو اسے نشاندہی کے لیے مثال بنایا جائے یہاں تو آئے روز غربت کے ہاتھوں تنگ آئے لوگ خود کشی کررہے ہیں ۔ خبر چھپتی ہے ، مرنے والوں کی تصویریں شایع ہوتی ہیں ،جس پر تبصرے ہوتے ہیں ۔

جس طرح ہم کررہے ہیں تبصرہ ۔ ہمارے یہاں حقیقی معاشی صورت حال جو کہ بدحالی اور ابتری کی انتہا پر ہے معاشی ماہرین کے تجزیاتی اعداد و شمار کے کھاتے میں نہیں لائی جاسکتی ہے کیونکہ حکمرانوں کو ایسی رپورٹیں ناپسند ہوتی ہیں جن میں ان کی ناقص کار گزاری کا ذرہ برابر بھی شائبہ ہو ۔ یہاں بھی معاشی مفاد وابستہ ہوتا ہے اگر دل پسند رپورٹیں مرتب نہ کی جائیں تو بے روزگاری استقبال کرسکتی ہے ۔یعنی چند مفاد پرست غریبوں کی اصل ابتر حالت کو چھپا رہے ہوتے ہیں ۔حکمرانوں کو تو ڈالرز کی گنتی میں فرصت نہیں وہ کیسے مہنگائی اور بیروزگاری کے ہاتھوں قتل کی گئی لاشوں کو گن کر اپنے لیے ایشو کھڑا کرسکتے ہیں، جو لیڈر آج مہنگائی اور بے روزگاری کو ایشو بناکر مسند اقتدار کے خواب دیکھ رہے ہیں غریب عوام انھیں بھی تین تین چار چار بار آزما چکے ہیں ۔

نفسا نفسی کا عالم ہے ۔ہر انسان صرف اپنے لیے جی رہا ہے جو بے روزگار ظلم کا تذکرہ کررہا ہوتا ہے اور پھر اس ظلم سے بچنے کے لیے خود کشی کرکے اپنی بیوی بچوں کا قتل کرکے خود بھی ظالموں میں شمار ہوجاتا ہے ۔ مانا کہ خود کشی آخری قدم ہوتا ہے لیکن جس تواتر کے ساتھ غربت سے گھبرائے ہوئے لوگ خود کو چھوڑ کر اپنی بیوی اور معصوم بچوں کو قتل کررہے ہیں ۔ماہرین نفسیات کے نزدیک یہ ایک ذہنی دباؤ ہے لیکن میرے خیال سے یہ خود غرضی کی انتہا ہے ۔ہمارا معاشرہ بے حس ہوچکا ہے ہم صرف نام کے مسلمان ہوکر رہ گئے ہیں ہونا یہ چاہیے کہ ہمارا جو مسلمان بھائی تنگ دست ہے اس کی مدد کرنی چاہیے نہ کہ اسے مشکل حال میں تنہا چھوڑنا چاہیے ۔

مالی لحاظ سے مستحکم قریبی اور دور کے رشتے داروں کو چاہیے کہ وہ اپنے غریب رشتے داروں کی مالی معاونت کریں ان کے بچوں کی کفالت کریں ۔ہمارے یہاں گنتی کے چند سماجی ادارے ہیں جو غریبوں کی ہر طرح سے مدد کررہے ہیںان سے رابطہ کیا جاسکتا ہے حکمرانوں اور غریبوں کے نام نہاد لیڈروں سے رابطہ کرنے کا مشورہ نہیں دے سکتا کیوں کہ وہ غریبوں کے امتحان میں فیل ہوچکے ہیں ۔

بلاشبہ اصل حقیقی ریاست مدینہ کے قواعد کے مطابق روزگار کی فراہمی ریاست کے حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے وہ بھی میری طرح اور مشورہ دے رہے ہیں وہ تو ایک روٹی کم کھانے کا مشورہ دیتے ہیں،لیکن تمام مشوروں سے افضل مشورہ یہ ہے کہ اس ذات سے رابطہ کیجیے جہاں کوئی مایوس نہیں لوٹ سکتا ہے جو ساری دنیا کا شہنشاہ ہے ۔اللہ پاک سے مانگنا ہی افضل ترین ہے ۔ انشاء اللہ آسانیاں پیدا ہوگی ۔

اللہ ہی سے رجوع کرکے اپنے حصے کی برکتیں حاصل کی جاسکتی ہیں ۔جو ذمے داریاں اللہ پاک نے دنیا میں پھیلے ہوئے نائب حکمرانوں کو سونپ رکھی ہیں یہ کس طرح اپنا فرض نبھا رہے ہیں ۔اللہ پاک سب دیکھ رہا ہے اور وہ انصاف کرنے والی ذات ہے ۔آئیے ! دنیا کے غریب انسانوں دعا کرتے ہیں ۔ اللہ پاک ہمیں صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری حالت زار پر رحم فرمائے ۔آمین ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔