کوچۂ سخن

عارف عزیز  اتوار 14 نومبر 2021

 فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

غزل
غدار تھا مہکتے چمن سے نکل گیا
اچھا ہوا وہ میرے وطن سے نکل گیا
بے تاب ہو رہا تھا بدن میں ترا خیال
میں روکتا رہا وہ بدن سے نکل گیا
اتنا وہ سج رہا تھا لباسِ سفید میں
اس کا تو نام اس کے کفن سے نکل گیا
قیدی سمجھ رہا تھا زمانہ جسے ہنوز
چھپ کروہ اشک پنجرۂ من سے نکل گیا
حالانکہ اُس کو پہلے بتائی گئی تھی حد
پھر بھی وہ آگے کتنا گگن سے نکل گیا
آپس میں کررہے تھے یہ باتیں مکینِ خلد
وہ کون تھا جو باغِ عدن سے نکل گیا
(اسد رضا سحر۔ احمد پور سیال)

۔۔۔
غزل
سبھی عطاؤں کا محور سنائی دیتا ہے
دکھائی دیتا نہیں گھر،سنائی دیتا ہے
کبھی کبھی وہ بلاتا ہے نام لے کے مجھے
کبھی کبھی مجھے بہتر سنائی دیتا ہے
سہانا خواب رہی ہے تمھاری خاموشی
وگرنہ شور تو اکثر سنائی دیتا ہے
یہ معجزہ ہی تو ہے،تم سے گفتگو کے سمے
ہماری آنکھ کو منظر سنائی دیتا ہے
بڑے وثوق سے کہتا ہے ساتھ جینے کا
پر اس کے لہجے سے اک ڈر سنائی دیتا ہے
وہ اور ہوں گے جنہیں ہجر وجہِ گریہ ہے
میں وہ نہیں جو بکھر کر سنائی دیتا ہے
کوئی بھی بات کرو پر نقاب اٹھا کے کرو
مجھے خمار میں جا کر سنائی دیتا ہے
مرے علاوہ ترے زخم کو بھرے گا کون؟
مجھے پرانا رفو گر سنائی دیتا ہے
(احسن ابراہیم۔ٹوبہ ٹیک سنگھ)

۔۔۔
غزل
سمندروں کو اگر ڈوبنے سے دیکھوں گا
ندی کو کیسے کسی آسرے سے دیکھوں گا
ترے قریب بدن کانپتا رہا ہے مرا
میں اب کی بار ذرا فاصلے سے دیکھوں گا
تمہارا مسئلہ کیا ہے سمجھ گیا ہوں مگر
تمہارا حل کوئی دم پھونکنے سے دیکھوں گا
کل اس نے پوچھا مجھے وصل کا تو میں نے کہا
کمر سے پکڑوں گا اور آئنے سے دیکھوں گا
کبھی نہ ماروں گا میں سنگ سنگ کے بدلے
میں اس کا ظرف اسے بخشنے سے دیکھوں گا
میں جس سے دیکھی نہیں جاتی زندگی شاہدؔ
میں اپنی موت کو کس حوصلے سے دیکھوں گا
(فراز شاہد۔ کراچی)

۔۔۔
غزل
تیری یادوں کا مجھ پہ سایا ہے
یہ مجھے چاند نے بتایا ہے
کاٹ کر پیڑ اس کی یادوں کا
میرے دل نے سکون پایا ہے
تیرے ہونٹوں کے لمس سے میں نے
چاند کو آئنہ دکھایا ہے
زندگی کے نصاب میں تنہا
ہم نے ہر بار خود کو پایا ہے
چلتے پانی کو روک کر میں نے
اک نیا حشر سا اٹھایا ہے
کون ہے جس نے یاد میں تیری
میرے جیسا سکون پایا ہے
آج وحشت کو بانٹنے کے لیے
دل نے تلوار کو اٹھایا ہے
مرتضٰیؔ تیری یاد میں اس نے
کتنے صدموں سے جی لگایا ہے
(مرتضٰی شاہین۔ بدین)

۔۔۔
غزل
چاہے مرے نصیب میں رنج و محن پڑے
تجھ سے بنا کے رکھوں گا جیسے بھی بن پڑے
میں چاہتا ہوں مجھ سے مخاطب رہے وہ شخص
میں چاہتا ہوں غیر کے ماتھے شکن پڑے
تجھ سے ہی میں نے روح کا ناتا بنا لیا
یوں تو ہر ایک راہ میں کتنے بدن پڑے
مجھ کو سیاہ رات کا سونپا ہے تو نے غم
تجھ پر ہمیشہ شمس کی پہلی کرن پڑے
واعظ تُو مے کشی کا مخالف ہے رب کرے
تجھ پر نہ ظلِ گیسوئے حورِ عدن پڑے
جھیلا ہے میں نے ہجر سو اعجاز مجھ سے پوچھ
ہر ساعتِ جنون میں کتنے قرن پڑے
(احسن اعجاز۔ میاں چنوں)

۔۔۔
غزل
تمہارے ہجر کے رونے سے ہٹ کے روئیں گے
ہم اپنے ذاتی دکھوں سے نمٹ کے روئیں گے
جہاں میں کوئی بھی کاندھا نہیں ملا، سو ہم
بروزِ حشر خدا سے لپٹ کے روئیں گے
سبھی کو گریۂ یعقوب یاد آ ئے گا
تمہاری یاد میں ہم ایسے ڈٹ کے روئیں گے
ہمیں خدا کی توجہ اشد ضروری ہے
کسی فقیر کا کاسہ الٹ کے روئیں گے
رہے گا باپ کہیں اور ماں رہے گی کہیں
بزرگ اپنے ہی بچوں میں بٹ کے روئیں گے
وہ اب کی بار مجھے منتظر نہ پائیں گے
گئے جو چھوڑ کے مجھ کو، پلٹ کے روئیں گے
( لاریب کاظمی ۔ مانسہرہ)

۔۔۔
غزل
تیری آنکھوں میں ڈال کر آنکھیں
چل رہا ہوں سنبھال کر آنکھیں
پھر نہ مجھ کو کبھی نظر آئیں
ایک عادت میں ڈال کر آنکھیں
مجھ پہ پھر بھی اثر نہیں ہونا
کیا کرو گے نکال کر آنکھیں
ابھی بچے بھی نہ ڈریں شاید
اور تھوڑی سی لال کر آنکھیں
آج تک میں اداس بیٹھا ہوں
تیری راہوں پہ ڈال کر آنکھیں
(قائم بھٹی ۔ احمد پور سیال)

۔۔۔
غزل
ضروری کام تھا،کرنا بہت ضروری تھا
کسی کے دل میں اترنا بہت ضروری تھا
لُبِ لُباب کہانی کا تھا مرا کردار
پر اُس کہانی میں مرنا بہت ضروری تھا
وگرنہ سیلِ رواں کاٹ کھاتا اندر سے
بدن میں آنکھ کا جھرنا بہت ضروری تھا
جمود ہوتامقدروگررنہ پانی کا
ترا ندی سے گزرنا بہت ضروری تھا
بچھڑ کے میں نے بہت دیر بعد سوچا تو
مجھے لگا کہ بچھڑنا بہت ضروری تھا
حصارِ ذات سے باہر ِنکلنے والے کا
حصارِ ذات میں مَرنا بہت ضروری تھا
منافقت کا یہ چہرہ نظر نہ آتا سو
کسی کا حق سے مکرنا بہت ضروری تھا
(سفیر نوتکی ۔ بھکر)

۔۔۔
غزل
بے مہر مقدر کا ستارہ نہیں ہوتا
ہر بار محبت میں خسارہ نہیں ہوتا
پیارا تو ہمیں ہوتا ہے ہر دوست ہمارا
ہر دوست مگرجان سے پیارا نہیں ہوتا
کھو جاتے ہیں اشکوں کی روانی میں یوں منظر
دیدوں سے پلک تک بھی نظارہ نہیں ہوتا
پلکوں پہ سجا رکھنا غمِ یار کے موتی
ویران سمندر کا کنارہ نہیں ہوتا
اے حسن! تغافل سے بھی کچھ کام لیا کر
اب مہرومروّت سے گزارہ نہیں ہوتا
لگ جاتی نظر تجھ کو زمانے کی اے سدرہؔ
صدقہ تیر ی ماں نے جو اتارا نہیں ہوتا
(سدرہ ایاز۔ کراچی)

۔۔۔
غزل
ہے ظلم سے برسر پیکار مسلسل
یعنی کہ میری ذات سزاوار مسلسل
سرتا ل کسی اور کے حصے میں رہی ہے
مجھ سے تو ہے جاری تیری تکرار مسلسل
مصروف رہی آنکھ میری اشک رواں میں
کرتی رہی دنیا تیرا دیدار مسلسل
یہ تیراتخیل ہے یا دریا کا ہے پانی
بہتے ہی چلے جاتے ہیں اشعار مسلسل
اک میرے ہیں لب جو تیرے قدموں میں پڑے ہیں
اک تیرے ہیں لب جن پہ ہے انکار مسلسل
چاہت میں بھی کب دامن توحید ہے چھوڑا
ناظم ہے رہا تیرا پرستار مسلسل
(ناظم شاہ ۔ قصبہ گجرات)

۔۔۔
غزل
پہلے جانے پہ یہ کہتے تھے کہاں جاتا ہے؟
اب یہ کہتے ہیں کہ جانے دو جہاں جاتا ہے
واپسی عشق سے ہوتی ہے بڑھاپا لے کر
پہلے پہلے کوئی کڑیل سا جواں جاتا ہے
میں تری سمت یوں آتا ہوں نمازی جیسے
کسی مسجد کی طرف بعدِ اذاں جاتا ہے
پچھلے جنموں میں کسی دشت کی ناگن ہوگی
اس محبت کا تو صحرا کو نشاں جاتا ہے
آگہی ریل کی پٹری ہے یہاں پر ثاقبؔ
مرنے کو صاحبِِ تعلیم جہاں جاتا ہے
(عبید ثاقب۔اسکردو)

کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم ، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں، معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے ایکسپریس) ، 5 ایکسپریس وے ، کورنگی روڈ ، کراچی

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔