احتجاج اور دھرنے

ڈاکٹر توصیف احمد خان  ہفتہ 13 نومبر 2021
tauceeph@gmail.com

[email protected]

معاملہ ختم ہوا۔ تحریکِ لبیک کو قانونی طور پر کام کرنے کا نوٹیفکیشن عطا ہوگیا۔ اس میں عوام کا کتنا نقصان ہوا ، پولیس اور رینجرز کے اہلکاروں کے ساتھ کیا بیتی ، تحریک لبیک کے دھرنا میں شرکت کرنے والے اور ان کے خاندان والے کس کس اذیت سے گزرے ، ملک کی معیشت پر کیا اثرات ہوئے۔

اب کئی کالعدم تنظیمیں بھی اپنی قانونی حیثیت بحال کرانے کے لیے اس فیصلہ سے کتنا فائدہ اٹھائیں گی اور ان دھرنوں کے بارے میں اسلام آباد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ نے جو فیصلے دیے ، ان کی قانونی حیثیت کیا ہوگی؟ ان سوالات کے جوابات وزیر اعظم عمران خان اور ان کے وزراء نہیں دینا چاہتے مگر تاریخ لکھنے والے مؤرخ پس پردہ حقائق کو ضرورآشکار کریں گے۔

بھارت میں ایک اہم دھرنا سوشل ریفارمر انا ہزارے نے دہلی میں دیا تھا۔ ان کا احتجاج بھارت میں بڑھتی ہوئی کرپشن کے خلاف تھا ، مگر یہ دھرنا پرامن تھا۔ اس سے روزمرہ کی زندگی متاثر نہیں ہوئی تھی۔ اس دھرنا کے منتظمین نے ایک میدان کا انتخاب کیا تھا، جس کا بلدیہ دہلی کو باقاعدہ کرایا ادا کیا گیا تھا۔ بھارت میں کسانوں نے کورونا کے پھیلاؤ سے پہلے دارالحکومت دہلی کے مختلف دروازوں پر دھرنے دیے۔ پاکستان میں ہڑتالوں کی روایت تو بہت قدیم ہے۔

سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے شہروں کو بند کرنے کی حکمت عملی اختیار کی۔ ملک کی تاریخ میں ہڑتالوں کا سب سے بڑا دور 1968میں آیا تھا۔ پہلے آمر جنرل ایوب خان کے خلاف یہ تحریک کراچی سے شروع ہوئی اور پورے ملک میں پھیل گئی ، تحریک میں حزب اختلاف کی تمام سیاسی جماعتیں شامل تھیں۔

مشرقی اور مغربی پاکستان کے تمام شہرکئی کئی دن تک بند رہتے تھے۔ طلبہ مزدوروں اور کسانوں کی تنظیموں نے اس تحریک میں اہم کردار ادا کیا تھا۔اس تحریک کے نتیجہ میں جنرل ایوب خان کو اقتدار چھوڑنا پڑا۔ 1977میں پاکستان قومی اتحاد PNA نے انتخابی دھاندلیوں کے خلاف تحریک چلائی، یوں جنرل ضیاء الحق نے 5جولائی 1977 کو اس تحریک کی آڑ میں پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت کو برطرف کیا اور وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹوکو متنازعہ عدالتی فیصلہ کے ذریعہ پھانسی دیدی گئی۔

ایم آر ڈی نے 1983 میں جنرل ضیاء الحق کے خلاف تحریک چلائی۔ 2007 میں وکلاء نے جنرل پرویز مشرف کے خلاف تحریک چلائی جو چیف جسٹس افتخار چوہدری کی معزولی کے خلاف شروع ہوئی۔ تاریخ کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ دھرنا کا آغاز مذہبی تنظیموں نے کیا۔ جنرل ضیاء الحق نے متنازعہ اسلامی قوانین نافذ کیے تو تحریک فقہ جعفریہ نے کراچی اور اسلام آباد میں دھرنے دیے۔ نائن الیون کی دہشت گردی کے بعد جب بھی امام بارگاہوں پر حملے ہوئے اور کوئٹہ میں ہزارہ برادری کے افراد کا قتل ہوا تو پورے ملک میں دھرنے دیے گئے۔

کوئٹہ میں تو آخری دھرنا بارہ دن تک جاری رہا۔ اسلام آباد کو دھرنا سے مفلوج کرنے کا سلسلہ 2013 میں مولانا طاہر القادری نے شروع کیا۔ مولانا طاہر القادری 2002 میں پہلی دفعہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے مگر پھر وہ سیاسی کلچر سے مایوس ہوئے اورکینیڈا منتقل ہوگئے اورکینیڈا کی شہریت بھی حاصل کرلی۔ 2012 میں وہ اچانک پاکستان آئے، اگلے سال انھوں نے موقف اختیار کیا کہ الیکشن کمیشن کے قانون کی بعض شقیںجمہوریت کے منافی ہیں ، اس بناء پر الیکشن کمیشن کا خاتمہ ضروری ہے۔

یوں دسمبر کی سردی میں وہ اپنے کئی ہزار حمایتیوں کے ساتھ لاہور سے نکلے اور اسلام آباد کے ریڈ زون میں قابض ہوئے مگر اس وقت تمام سیاسی جماعتیں متحد تھیں، یوں وہ ایک وعدہ کی بناء پر لاؤ لشکر کے ساتھ منتشر ہوئے۔ عمران خان کی قیادت میں انتخابی دھاندلیوں کے خلاف تحریک انصاف والوں نے اسلام آباد میں پارلیمنٹ کے سامنے دھرنا دیا۔

علامہ طاہر القادری بھی تحریک انصاف سے یکجہتی کے لیے اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ ایک دفعہ پھر اسلام آباد آئے مگر انھوں نے علیحدہ دھرنا دیا۔ طاہر القادری تو کچھ ماہ بعد واپس گھر چلے گئے مگر تحریک انصاف کا دھرنا چھ مہینوں تک جاری رہا۔پشاور میں آرمی پبلک اسکول کی دہشت گردی کے بعد یہ دھرنا ختم ہوا۔ عدالتی کمیشن نے عمران خان کے چار حلقوں میں دھاندلی کے الزامات کو غلط قرار دیا۔

اسی سال تحریک لبیک والوں نے مزید دو بار دھرنا دیا۔ پہلی دفعہ فرانس کے سفیر کو ملک سے نکالنے کے بارے میں معاہدہ ہوا۔ ایک رکن اسمبلی نے قومی اسمبلی میں اس بارے میں قرارداد پڑھی۔ وزیرداخلہ نے کہا کہ معاہدہ پر عملدرآمد ہوگیا۔ اس وقت بھی شہریوں کی زندگی معطل رہی اورکئی پولیس والے مارے گئے۔ حکومت نے تحریک لبیک کے قائد سعد رضوی کو نظربند رکھا اس دفعہ پھر لاہور سے دھرنا شروع ہوا۔ حکومت کی طرف سے لاہو ر سے وزیر آباد تک سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کی گئیں مگر دھرنا کے شرکاء کو کوئی نہ روک سکا۔

اس دھرنے کو روکنے کے لیے چھ کے قریب پولیس والے جان سے گئے۔ اب مرنے والے پولیس والوں کے لواحقین رو رہے ہیں کہ پولیس کے سپاہیوں سے اسلحہ واپس لینے کے احکامات کس مجاز اتھارٹی نے دیے تھے اورکیوں پولیس کے سپاہیوں کو صرف ڈنڈے دیے گئے۔

خیر مزید انسانی جانوں کا ضیاع نہیں ہوا مگر اب سوال یہ ہے کہ گزشتہ 20برسوں میں دہشت گردی میں ملوث ہونے کی بناء پر مختلف تنظیموں کوکالعدم قرار دیاگیا ہے۔ ان میں سے ایک تنظیم تحریک طالبان پاکستان بھی ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان کو بھی اپنے دفتر کھولنے کی اجازت نہیں ہے، ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی بھی یہی مطالبہ کررہے ہیں۔

ریاست کو تو تمام شہریوں کے ساتھ یکساں سلوک کرنا ہے۔ پورے ملک میں عام معافی کا اعلان کیوں نہ کیا جائے؟ دنیا کو یہ بتایا جائے کہ صرف ایک مخصوص تنظیم نہیں بلکہ تمام تنظیموں کو قومی دھارے میں شامل کیا جا رہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔