گنے کی امدادی قیمت اور چینی کی قیمت

محمد ابراہیم خلیل  ہفتہ 13 نومبر 2021

دنیا کے دو عالمی شہرت یافتہ ماہرین زراعت نے 1978 میں پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ اس دوران وہ مختلف زرعی میدانوں، کھیتوں، کھلیانوں، نہری زمینوں، بارانی علاقوں میں بھی گئے اور اپنے دور ے کے اختتام پر پاکستان سمیت دنیا کو اس بات سے آگاہ کرگئے کہ پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے زبردست جغرافیائی نعمتوں سے مالا مال کر رکھا ہے۔ جس کی بدولت یہ ملک ہر ضروریات کو بخوبی پوری کرسکتا ہے، بلکہ اجناس کی برآمد کا ایک بہت بڑا برآمدی ملک بن سکتا ہے۔

بشرطیکہ قدرت نے اسے جن نعمتوں سے نوازا ہے اس سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے اسے حقیقت کا رنگ دیا جائے،مگر ہم اسے حقیقت کا رنگ دے دیتے تو اہم ترین برآمدی ملک بن کر ابھرتے نہ ڈالرکی قدر بڑھتی، نہ ہی روپے کی کمزوری بڑھتی، نہ ہی آئی ایم ایف کے ستم بڑھتے، نہ ہم اپنے اثاثے گروی رکھتے ، نہ اپنی ملیں بیچتے۔ مختلف اوقات و لمحات ایسے آئے کہ زرعی پیداوار میں کمی آئی ، فی ایکڑ پیداوار دنیا کی بڑھتی رہی ہماری گھٹتی رہی۔ نہ ارباب اختیار نے سوچا نہ متعلقہ اداروں کے کان پہ جوں رینگی۔

کہیں فصلوں کے زیر کاشت رقبوں میں کمی ہوئی ، کہیں کسی فصل کی فی ایکڑ پیداوار گھٹ کر رہ گئی۔ کہیں کسانوں نے احتجاج بھی کیا کہ حکومت وقت آگے بڑھے ہماری مدد کرے تاکہ پیداوار بڑھے اور برآمد بڑھائیں درآمد کم کریں۔ لیکن ہر غذائی پیداوار کی قلت کے ایک ہی عارضی حل کو مستقل جان کر لاگوکردیا جاتا کہ اتنے لاکھ ٹن گندم درآمد کرلی جائے۔ اتنے لاکھ ٹن چینی درآمد کی اجازت دی جاتی ہے۔

اتنے لاکھ کپاس کی گانٹھوں کی درآمد کی ضرورت ہے۔ بس ان عارضی فیصلوں سے کام چلایا جاتا رہا۔ یہی وجہ ہے کہ اب ہم مستقل طور پر گندم ، کپاس ، چینی کی درآمد میں مسلسل اضافہ کرتے چلے جا رہے ہیں۔ پھر تو یہی ہونا تھا کہ آٹا 80 روپے فی کلو، چینی ڈیڑھ سو روپے فی کلو مل رہی ہے۔ اب اس کی قیمت میں کمی کا امکان ہے۔ گنے کے کاشتکاروں کو کتنے ہی مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے کسی حکومت نے اس کا شافی حل نہیں نکالا۔

پاکستان میں گنے کے کاشتکاروں اور آبادکار تنظیموں کے نمایندوں کا کہنا ہے کہ گنے کی خریداری اور گنے کے کاشتکاروں کے مسائل کے سلسلے میں حکومت کی ناقص پالیسیاں گنے کے کاشتکاروں کے لیے ہر دور میں غیر تسلی بخش رہی ہیں ، کیونکہ کاشت پر آنے والے بھاری اخراجات بھی ہیں۔

مختلف حکومتیں انتہائی کم قیمت خرید مقرر کرتی رہی ہیں۔ جس کی وجہ سے پیداوار اور پیداواری رقبے کے علاوہ کاشتکاروں کو کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ گنے کی فی ٹن کم قیمت مقرر کرنے کے علاوہ گنے کے کرشنگ سیزن کے آغاز سے کاشتکاروں کو واجبات کی عدم ادائیگی یا تاخیر سے ادائیگی اور قسطوں میں ادائیگی پھر اس میں مختلف بہانوں سے نئے نئے اقسام کی کٹوتیاں شامل کرنے کے بعد جب کاشتکار کے ہاتھ رقم آتی ہے تو وہ ہکا بکا ہی رہ جاتا ہے، لہٰذا شوگر ملز مالکان اور کاشتکاروں کے درمیان پائے جانے والے اختلافات و تنازعات کسی طور پر حل ہونے میں نہیں آتے۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گنے کی قیمت خرید اور کرشنگ سیزن کے آغاز یعنی جس کا آغاز ہر سال 15 نومبر سے ہو جاتا ہے جس کے باعث بہت سی ملوں نے بوائلر اسٹارٹ کردیے ہیں۔ ان تمام اختلافات و تنازعات کا اصل شکار عوام بن کر رہ جاتے ہیں۔

جب شوگر مل مالکان کے متفقہ فیصلوں کے مطابق چینی کی قیمت میں ایسا اضافہ دیکھنے میں آتا ہے کہ شاید دنیا میں کہیں ایسا منظر نہ دیکھا جاتا ہو کہ صبح چینی فی بوری کے جو ہول سیل دام تھے دوپہر بڑھ کر رہ گئے اور شام جس کے بارے میں عموماً بازاروں میں یہ آواز سنی ہوگی کہ ’’ ہوگئی شام ، گر گئے دام ‘‘ یعنی پھل وغیرہ کے دام کم ہو جاتے ہیں لیکن چینی کے معاملے میں ایسا نہیں ہے۔ یہاں تو ہو گئی شام ، چینی کے بڑھ گئے دام۔ آپ نے بھی ملاحظہ کیا ہوگا کہ صبح 140 روپے فی کلو شام 160 روپے فی کلو چینی مل رہی ہے۔

اب حکومت کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ 15 نومبر سے کرشنگ سیزن کے آغاز ہوتے ہی چینی کی قیمت کم ہو جائے گی ، اگر قیمت میں کمی کا تعلق 15 نومبر سے تھا تو کئی طریقوں سے جلد بازی سے کام لیا جاسکتا تھا۔ مثلاً کھیتوں سے جلد از جلد کارخانے کے گیٹ تک گنے پہنچانے کا کام اور پھر پہلے والے سسٹم کو پیچھے کرکے فوری وزن کرانے اور مل کے اندر لے جانے کا کام مکمل ہونے کے ساتھ چینی کی تیاری شروع کرتے ہی اسے بوریوں میں بھر کر ہول سیل مارکیٹ تک جلد ازجلد پہنچانے کا کام انتہائی سرعت اور تیزی سے کرنا چاہیے تھا۔ اب تو اربوں روپے ان ذخیرہ اندوزوں کی جیب میں جا رہا ہے اور جاچکا ہے جو مصنوعی قلت کا بحران پیدا کرکے پوری قوم کو ہیجانی کیفیت میں مبتلا کرچکے ہیں۔

موجودہ حکومت کو اس وقت سے ہی فوری نوٹس لیتے ہوئے سخت ترین اقدامات اٹھانے چاہیے تھے جیسے ہی چینی کی قیمت 90روپے فی کلو تک جا پہنچی تھی۔ حکومت سندھ نے اس سلسلے میں قابل ستائش اقدام اٹھایا ہے کہ گنے کی فی من امدادی قیمت 250 روپے مقرر کردی ہے جس کا بدھ کو نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا گیا ہے۔ محکمہ زراعت کی جانب سے جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق 4 نومبر سے پہلے 16 شوگر ملوں نے بوائلر اسٹارٹ کر دیے ہیں اور 4 شوگر ملیں چلنا شروع ہوگئی ہیں۔ باقی شوگر ملیں کچھ دنوں میں چلنا شروع ہو جائیں گی۔

پاکستان گنے کی پیداوار کا ایک اہم ترین ملک ہے،کسی دور میں اتنی زیادہ چینی پیدا کی جاتی تھی کہ پاکستان چینی ایکسپورٹ کیا کرتا تھا جس سے اربوں روپے کا زرمبادلہ کماتا تھا لیکن اب اربوں روپے خرچ کرکے چینی درآمد کی جاتی ہے۔ پاکستان میں چینی کے پیداواری رقبے سے متعلق چند سالوں کا جائزہ لیں تو 2010 میں 10 لاکھ ہیکٹر ایریا سے کم رقبے سے 5کروڑ53 لاکھ ٹن گنا حاصل کیا گیا تھا اس بارے میں بتایا جاتا ہے کہ 56 ہزار کلو گرام فی ہیکٹر پیداوار حاصل ہوئی تھی۔

2013 میں فی ہیکٹر پیداوار میں اضافہ ہو کر 56 ہزار 5 سو کلو گرام ہوئی اور ساتھ ہی پیداواری رقبہ بھی بڑھ کر 11 لاکھ 30 ہزار ہیکٹر ہو چکا تھا اور کل پیداوار بھی پہلی مرتبہ 6 کروڑ37 لاکھ 50 ہزار ٹن ہوچکی تھی۔

گنے کی پیداوار اور فی ہیکٹر پیداوار اور پیداواری رقبے کے لحاظ سے2013-14 بہترین سال رہا جب پیداواری رقبہ بڑھ کر پونے بارہ لاکھ ہیکٹر تک جا پہنچا اور گنے کی پیداوار بھی پہلی مرتبہ پونے سات کروڑ ٹن تک جا پہنچی اور فی ہیکٹر پیداوار کا حصول 57 ہزار 5 سو کلو گرام تک جا پہنچا تھا جو کہ دنیا کے مختلف ترقی یافتہ ملکوں سے بہت کم ہے جسے بڑھانے کے لیے کسی قسم کی باقاعدہ پانچ سالہ یا 10 سالہ زرعی منصوبہ بندی نہیں کی گئی کیونکہ اس قسم کے منصوبے ایک یا دو سال کے لیے نہیں بنائے جاتے بلکہ ہر بات کو مدنظر رکھتے ہوئے یعنی پانی کی دستیابی اور کیڑے مار ادویات اور گنے کی بیماریوں کی روک تھام اور کھیت سے شوگر مل کے گیٹ تک پہنچانا، پھر وزن کرانے کے لیے کئی دنوں کے طویل انتظار کو کس طرح کم سے کم کیا جاتا، اور مختلف اقسام کی کٹوتیاں جوکہ گنے کے کاشتکار کو انتہائی ناگوار گزرتا ہے اس میں کمی لے کر آنا سب سے اہم یہ کہ کس طرح فی ہیکٹر پیداوار کو زیادہ سے زیادہ بڑھانا اور پھر کاشتکاروں کو کس طرح پریشان کرکے ادائیگی کی جاتی ہے۔

ان تمام مسائل کے حل کے ساتھ چینی کی فی کلو گرام فیکٹری میں کیا لاگت آرہی ہے۔ پھر اسے ہول سیلر تک لے جانے میں کیا لاگت آ رہی ہے ۔ ان تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے متعلقہ ادارے حکومت کی زیرنگرانی ان امور کو طے کریں اور اس سلسلے میں حکومت کو سخت اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے کہ چینی کم سے کم قیمت پر عوام کو دستیاب ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔