چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد

مزمل سہروردی  ہفتہ 13 نومبر 2021
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے ملتوی ہونے کے بعد اقتدار کے ایوانوں سے گھبراہٹ کی آوازیں آرہی ہیں۔ سونے پر سہاگا متحدہ اپوزیشن نے چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد لانے کا عندیہ دے دیا ہے۔ جس کی وجہ سے گزشتہ روز وزیر اعظم عمران خان نے حکومتی جماعت کے 34سینیٹرز سے ایک دن میں ملاقات کی۔ ان میں چیئرمین سینیٹ اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ بھی شامل تھے۔

ویسے تو وزیر اعظم نے اس کے ساتھ26اراکین قومی اسمبلی سے بھی ملاقات کی۔یہ وزیر اعظم عمران خان کا انداز نہیں ہے کہ وہ اس طرح اراکین قومی اسمبلی اور سینیٹرز سے ملاقات کریں۔ وہ اس کو وقت کا ضیاع سمجھتے رہے ہیں۔ اور اس کام کے لیے انھوں نے مختلف لوگوں کی ڈیوٹی لگائی ہوئی تھی جو ان کے لیے یہ کام کرتے تھے۔ لیکن شاید وہ لوگ اب ڈیوٹی پر نہیں رہے اور اب عمران خان کو یہ کام خود کرنا پڑ گیا ہے۔ میں پھر بھی کہوں گا یہ ان کا مزاج نہیں ہے۔ وہ صرف اپنی پسند کے لوگوں کو ملنا ہی پسند کرتے ہیں۔

بہر حال متحدہ اپوزیشن نے عمران خان کے مسند اقتدار میں خطرہ کی گھنٹیاں بجا دی ہیں۔ عمران خان کو بخوبی اندازہ ہے کہ اس بار اگر چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد آئی تو اس کو ناکام بنانا آسان نہیں ہوگا۔ پہلے جس طرح تحریک عدم اعتماد ناکام بنائی جاتی رہی ہیں۔ اس بار وہ سہولیات میسر نہیں ہونگی۔ ایک عمومی خیال یہی ہے کہ اب عمران خان کو اپنے سیاسی معاملات خود ہی ہینڈل کرنے ہیں۔ان کے لیے اب یہ کام کوئی اور کرنے کو تیار نہیں۔ اس لیے اب اراکین قومی اسمبلی کو منانے اور اراکین سینیٹ کو اکٹھا رکھنے کا کام بھی عمران خان نے خود ہی کرناہے۔

اتحادیوں کو بھی عمران خان نے خود ہی منانا ہے اور اپوزیشن کی منتیں بھی عمران خان نے خود ہی کرنی ہیں۔ یہ عمران خان کے لیے کوئی آسان صورتحال نہیں ہے۔ آپ سمجھیں یک دم ان پر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ گئے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ اس بحرانی کیفیت میں وہ کوئی ایسی غلطی کر دیں جو ان کے اقتدار کے لیے مزید مشکلات پیدا کر دے۔ کیونکہ عمران خان کو یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اب ان کے پاس ان کی غلطیوں کو ٹھیک کرنے والی سہولت بھی نظر نہیں آرہی ہے۔

ماضی میں جب سینیٹ میں صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد ناکام بنائی گئی تب اس میں عمران خان کا کوئی کمال نہیں رہا۔ لیکن اس بار اگر عدم اعتماد آئی تواس کا مقابلہ عمران خان نے خود کرنا ہے۔ ماضی میں ان کے لیے اقلیت کو اکثریت میں بدلنے کے کارنامے انجام دیے جاتے رہے ہیں۔

سیاست کے طلباء کو جب بھی یہ سمجھایا جائے گا کہ جمہوریت اور سیاست میں جب ایمپائر جانبدار ہو جائے تو اس میں اقلیت کو اکثریت میں بدلنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ وہ آؤٹ کو ناٹ آؤٹ اور ناٹ آؤٹ کو آؤٹ کر دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ صادق سنجرانی دو دفعہ کلین آؤٹ تھے۔ لیکن آؤٹ ہوتے ہوئے انھیں ناٹ آؤٹ دیا گیا اور انھوں نے جم کر باری لی۔ یہ جمہوریت کا کوئی مثبت چہرہ نہیں ہے ۔

پہلی دفعہ جب متحدہ اپوزیشن عدم اعتماد سامنے لائی تھی تب بھی جس طرح لوگ اٹھے پورے تھے، لیکن ڈبہ میں کم نکلے وہ کوئی اچھی جمہوری روایت نہیں تھی۔ پھر اب جب صادق سنجرانی کا دوبارہ انتخاب ہوا تو جس طرح ووٹوں کو مسترد کیا گیا۔ وہ بھی کچھ ٹھیک نہیں تھا۔ اس لیے وہ ہر بار ایک جادوئی طاقت کی مدد سے بچ جاتے رہے ہیں۔ لیکن عمومی خیال یہی ہے کہ حکومت کی جادوئی طاقت ختم ہو گئی ہے۔ اس لیے اگر اب عدم اعتماد آئی تو اس کے کامیاب ہونے کے امکانات ہیں۔ ویسے بھی اب مدد حاصل نہیں ہوگی۔

پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بھی اسی لیے ملتوی کرنا پڑا ہے کہ لوگ پورے نہیں تھے۔ مشترکہ اجلاس میں ویسے تو حکومت کی اکثریت ہے لیکن لوگ آنے کے لیے تیار نہیں۔ ویسے بھی سیاسی کھیل میں جب ارکان کو پتہ چل جائے کہ حکمران کے اندر سے طاقت گم ہو گئی ہے تو وہ آنکھیں نکالنا شروع کر دیتے ہیں۔

اس لیے حکومت کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اپنی اکثریت اقلیت میں بدلتی نظر آئی لہٰذااجلاس ملتوی کرنے کے علاوہ کوئی آپشن ہی نہیں تھا۔ اس سے پہلے قومی اسمبلی میں جہاں حکومت کی بلا شرکت غیرے اکثریت ہے وہاں بھی اپوزیشن کو جیت مل گئی۔ حکومت دو بلوں میں اپنی اکثریت ثابت نہیں کر سکی۔ اس لیے جہاں ایک طرف تین سال حکومت اپنی اقلیت کو اکثریت میں بدلنے کاکرشمہ کرتی رہی ہے۔ اسی حکومت کو اب اپنے ووٹ پورے کرنے مشکل ہو رہے ہیں۔

آپ کہیں گے کہ ایک طرف تو میں اقلیت  کو اکثریت میں بدلنے کو جمہوریت کا مسخ چہرہ کہہ رہا ہوں۔ دوسری طرف حکومت کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی مذمت نہیں کر رہا۔ اگر وہ غلط ہے تو یہ بھی غلط ہے  لیکن ایسا نہیں ہے۔ حکومتی ارکان ابھی اپوزیشن کو ووٹ نہیں ڈال رہے۔ کوئی جادوئی طاقت حکومت کے ووٹ چوری کر کے اپوزیشن کو پلیٹ میں رکھ کر نہیں دے رہی ہے۔

حکومتی ارکان کسی کے کہنے یا دباؤ میں ایسا نہیں کر رہے۔ ایسا نہیں وہ بظاہر حکومت کے ساتھ ہیں اور اندر سے اپوزیشن کو ووٹ ڈال رہے ہیں۔ وہ ووٹ ڈالنے آہی نہیں رہے ہیں۔ اور ایسے بھی کوئی ثبوت نہیں ہے کہ ان کو آنے سے کوئی روک رہا ہے۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ ہم اپنی سیاسی وجوہات کی وجہ سے نہیں آرہے۔ اس لیے دونوں صورتوں میں مماثلت نہیں ہے۔

حکومتی اتحادی اگر عمران خان سے ناراض ہیں تو یہ کوئی جمہوریت کا بدنما چہرہ نہیں ہے۔ حکومتی ارکان اگر ناراض ہیں تو یہ کوئی بد نما چہرہ نہیں ہے۔ اپوزیشن کے ارکان کو حکومتی مراعات سے توڑنا بد نما چہرہ قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن اپوزیشن کے پاس تو دینے کے لیے کچھ نہیں ہوتا ان کی حمایت کو اس طرح نہیں دیکھا جاتا۔ ویسے بھی سب جانتے ہیں کہ تحریک انصاف کی قیادت نے کبھی اپنے اتحادیوں کو لفٹ نہیں کروائی تھی۔ اور اب انھیں ان کی منتیں کرنی پڑیں گی۔ پاکستان مسلم لیگ ق نے تو کھلم کھلا اپوزیشن کے ساتھ بات چیت شروع کر دی ہے۔ ایم کیو ایم کے انداز بھی بدلے نظر آرہے ہیں۔

ویسے تو پہلے مرحلہ میں چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کے لیے اپوزیشن کسی حکومتی اتحادی کی کوئی ضرورت نہیں۔ اگر اکثریت کو اکثریت ہی رہنے دیا جائے تو صادق سنجرانی کا ایک دن رہنا بھی مشکل ہے۔ ویسے تو بلوچستان سے تبدیلی کی جو ہوائیں چلی ہیں ان کی گرمی اسلام آباد میں محسوس کی جا رہی ہے۔

اگر اپوزیشن اپنی مرضی کا چیئرمین سینیٹ لانے میں کامیاب ہو گئی تو عمران خان کے لیے اقتدار کی بساط کو کنٹرول میں رکھنا مشکل ہو جائے گا۔ صادق سنجرانی کا جانا ان کے لیے خطرہ کی گھنٹیوں کو مزید خطرناک کر دے گا۔ سینیٹ سے اپوزیشن حکومت پر حملہ کرے گی۔ حکومت نے پارلیمنٹ کی جو تالہ بندی کی ہوئی ہے وہ بھی ختم ہو جائے گی۔ سینیٹ کام کرے گی تو مجبوری میں قومی اسمبلی بھی چلانا پڑے گی۔ اور وہاں رو ز کورم بھی پوراکرنا پڑے گا۔ اس لیے صادق سنجرانی عمران خان کی لائف لائن ہیں اور یہ سب کو پتہ ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔