سارے رنگ

رضوان طاہر مبین  اتوار 14 نومبر 2021
اگر ان لفظوں میں کوئی طریقہ اور سلیقہ بھی اتر آئے، تو پھر یہ بات اس سے بھی کہیں بڑھ کر ہوتی ہے۔

اگر ان لفظوں میں کوئی طریقہ اور سلیقہ بھی اتر آئے، تو پھر یہ بات اس سے بھی کہیں بڑھ کر ہوتی ہے۔

اشعار ہی تو ’زندگی‘
ہیں جناب۔۔۔!

ر۔ ط۔م
خانہ پُری

انسان کو حیوان ناطق کہا جاتا ہے، یعنی وہ حیوان جو باقاعدہ قوت گویائی کی نعمت سے بہرہ ور ہے، ورنہ اپنے اپنے طور پر اِبلاغ تو شاید بہت سے دیگر ’جان دار‘ بھی کر ہی لیتے ہیں۔ سب سے بڑی مثال کوئوں کی ہے، جو ایک آواز لگاتے ہیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے سارے کوئوں کا ایک جمگھٹا لگ جاتا ہے، لیکن باقاعدہ لفظوں کے ذریعے جذبات کا اظہار قدرت کا عطا کردہ کچھ منفرد ہی ڈھنگ ہے۔

اگر ان لفظوں میں کوئی طریقہ اور سلیقہ بھی اتر آئے، تو پھر یہ بات اس سے بھی کہیں بڑھ کر ہوتی ہے، حضرت انسان بھی انھی لفظوں سے اپنی ساری کہانی سناتا ہے، کبھی کسی سے گفتگو کرتا ہے اور کوئی جو اس گفتار میں ایک کمال حاصل کرتا ہے، تو پھر وہ ’سخن وَر‘ کے درجے پر فائز ہو جاتا ہے۔۔۔ پھر سخن آرائی سے تحریروں اور محفلوں کو سجانے والے اب بھلا کسے پسند نہیں آتے۔۔۔ بقول غالبؔ

وہ کہیں، اور سنا کرے کوئی
یوں تو بات ہم سبھی کرتے ہیں، لیکن کچھ لوگوں کے لفظ ایسے رواں اور جملے ایسے برمحل، شستہ اور جامع ہوتے ہیں کہ بے ساختہ داد دینے کو جی چاہتا ہے، اور اگر لفظون کا یہ نپا تلا انداز شاعرانہ عُروض کا پابند ہو جائے، تو بس پھر کیا ہی کہنے صاحب۔۔۔! تلفظ اور وزن کے حساب سے ٹانکے جانے والے لفظوں کے یہ موتی قافیوں پر سوار ہوکر اِبلاغ کی شاہ راہ پر کئی گنا تیز ہوئے جاتے ہیں۔۔۔ اسی پر بس نہیں، ان جچے تلے قافیوں پر ردیف کی سج دھج سونے پہ سہاگے کا سا کام کرتی ہے۔۔۔ ابھی ان میں بیان کیے گئے ’مضامین‘ کا کوئی ذکر نہیں، جس میں مختصر سے الفاظ میں اس سلیقے سے بات پوری کر دی جاتی ہے کہ سامعین وقارئین اَش اَش کر اٹھتے ہیں۔۔۔ ان میں تشبیہہ اور تلمیح کے سنگھار کے ساتھ ’استعاروں‘ کی بہار ’اِبلاغ‘ کی وہ ساری کسر پوری کر دیتی ہے، جو بعضے نثر میں بہت ڈھیر سارے الفاظ کی محتاج رہتی ہے اور اس کے بعد بھی لگتا ہے کہ کچھ تشنگی رہ گئی۔۔۔ شاعری میں فقط دو مصرع ہمارے دل کا سارا حال اور مافی الضمیر کہہ جاتے ہیں۔۔۔

باقاعدہ شاعری کرنا اور اس کے مروجہ عروض اور اوزان کی پاس داری کرنا صرف شعرا حضرات ہی کو زیادہ اچھے طریقے سے آتا ہے، تاہم عام قارئین یا نثر نگار اپنے اپنے طور پر کسی نہ کسی حد تک قافیہ پیمائی ضرور کر رہے ہوتے ہیں، جو اس امر کا اظہار ہوتا ہے کہ شاعرانہ روانی اور نغمگی کے ساتھ اپنی بات کہنا بہت بھلا معلوم ہوتا ہے۔ اس سے صرف سننے اور پڑھنے والا ہی نہیں لکھنے اور بولنے والا بھی بہت لطف اٹھاتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ نثر لکھنے والے بھی گاہے گاہے اپنی تحریر میں موقع محل کے لحاظ سے مختلف اشعار کا سہارا لیتے ہیں۔ گفتگو یا اظہار خیال کے درمیان کسی مصرع اور شعر کے آنے سے اِبلاغ کی وسعت کافی بڑھ جاتی ہے اور ہم اپنے مخاطب کو بات زیادہ اچھی طرح سمجھا لیتے ہیں۔ کبھی تو مشہور زمانہ اشعار اور زبانِ زدِ عام ہو جانے والے مصرع بھی ہماری روز مرہ کی گفتگو میں جاری وساری ہوتے ہیں۔۔۔ یہ اس امر پر دلالت ہے کہ شعروں اور رواں اسلوب میں کہی گئی باتیں زیادہ موثر اور جامع اِبلاغ کی صلاحیت رکھتی ہیں۔

شعر کے اسی کردار کو دیکھتے ہوئے ہی کسی لکھنے والے نے اسے شعر کے بہ جائے ’سِحر‘ یعنی جادو قرار دیا تھا، اور واقعی کبھی تو چند لفظوں میں اتنے گہرے مضامین سمائے ہوتے ہیں کہ نثر میں اس کے اظہار کے لیے طویل تمہید باندھنی پڑ جاتی ہے۔۔۔

پھر ان اشعار کو جتنی بار پڑھیے، ہر بار ہی نئے معانی، اور نئے استدلال واضح ہوتے ہیں، جو یک سر ایک الگ تجربہ ہے، کہنے والے کہتے ہیں کہ وہ ’دیوان غالب‘ جب بھی کھول کر بیٹھتے ہیں، ہمیشہ اس کے نت نئی تفہیم اور اسرار ان پر آشکار ہوتے چلے جاتے ہیں، یوں معلوم ہوتا ہے کہ کیسے خوب صورتی سے آج ہی کے حال احوال چند لفظوں میں روانی کے ساتھ بتا دیے گئے ہیں۔ اکثر یہ خاصہ اشعار ہی میں پایا جاتا ہے۔

شعری اسلوب میں کوئی بھی بات ہماری یادداشت میں زیادہ آسانی سے محفوظ ہوتی ہے، تبھی بہت سے مصرعوں کی تکرار ہوتی رہتی ہے اور وہ سینہ بہ سینہ آگے سے آگے سفر کرتے چلے جاتے ہیں۔ کبھی تو عام بول چال میں کوئی ردیف آکر ٹھیر جاتی ہے اور مختلف مواقع پر استعمال ہو کر پروان چڑھتی رہتی ہے۔

ہمیں یہ سب باتیں آج یوں کرنا پڑ رہی ہیں کہ کہیں سے ہمارے کان میں یہ بات پڑی ہے کہ ’’اَماں، یہ شاعری واعری تو سب پرانی باتیں ہوگئیں، آئندہ کچھ برسوں میں لوگ یہ سب بھول بھال جائیں گے۔۔۔!‘‘ یہ سن کر ہم جیسے ’بے ادب‘ سے نثر نگار کو بھی بے حد عجیب لگا۔۔۔ کیوں کہ ہمارے خیال میں ’اشعار ہی تو زندگی ہیں۔۔۔!‘ ہماری بھی یہ حسرت رہی ہے کہ کبھی کوئی شعر ہم سے بھی سرزد ہو، ہم بھی غزل یا نظم کے کوئی رموز سیکھ سکیں، اس سلیقے سے اپنے دل کی کوئی بات کہہ سکیں کہ جیسے ہمارے معزز شعرا کہہ دیا کرتے ہیں۔ بہرحال خاطر جمع رکھیے، یہ نغمگی اور لفظوں کی موسیقیت دنیا سے کہیں نہیں جائے گی، یہاں جب تک حضرت انسان کا دَم خَم سلامت ہے، شاعری بھی ہوتی رہے گی اور یہ اظہار رائے کے باب میں اپنا منفرد مقام اور مرتبہ بھی برقرار رکھے گی۔

مزاح اور مذاق
محمد شکیل
ایسی تحریر کہ جس کو پڑھ کر لوگ ہنسیں ، مزاحیہ تحریر کہلاتی ہے۔ اور اس تحریر کے اندر مزاح پایا جاتا ہے۔ ایسی شے جس کے کرنے یا ہونے پر لوگ ہنسیں مذاق کہلاتی ہے۔ مزاح لکھنے والا ادیب اور مذاق کرنے والا مسخرہ کہلاتا ہے۔ بعض ادیبوں کی مزاحیہ تحریر وں میں بھی کافی مذاق پایا جاتا ہے۔

ایسے ادیبوں کو ’مذاقیہ ادیب‘ کہتے ہیں اور مزاح کی یہ صنف مذاقیہ مزاح کہلاتی ہے، جسے نہ پڑھنا ہی بہتر ہوتا ہے۔ بعض مزاح نگار کچھ اس طرح کا مزاح لکھتے ہیں کہ ہنسی آجاتی ہے اور بعض کا مزاح پڑھنے پر شرم۔ یعنی کچھ آتا جاتا ہی نہیں۔ بعضوں کے مزاح پر ہنسنا اپنے آپ پر ہنسنے کے مترادف ہوتا ہے۔ ہماری قوم مزاح اور مذاق دونوں کے ہاتھوں تنگ ہے۔ ہمارے سیاست داں حضرات بہت مذاق کرتے ہیں۔ مذاق ہی مذاق میں ووٹ مانگتے ہیں۔ اسمبلی اراکین بن جاتے ہیں اور اپنی مزاحیہ پالیسیوں اور بجٹوں کے ذریعے عوام کو مزاح مہیا کیا جاتا ہے۔

اسمبلی اراکین کا روزانہ الاؤنس بڑھانا اور اس الاؤنس کو پورا کرنے کے لیے تیل کی قیمتیں بڑھانا۔ کافی اچھا مذاق ہے۔ بعض حضرات کے لیے مزاح لکھنا بھی مشکل نہیں ہوتا، البتہ قارئین کا اس پر ہنسنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اسی طرح بعضوں کے لیے مزاح لکھنا نہایت مشکل ہوتا ہے اور قارئین کا اس پر ہنسنا اس سے بھی زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ مزاح ہنساتے بھی ہیں یہی کیفیت مذاق کے ساتھ ہے۔ مذاق ہنساتے بھی ہیں، برہم بھی کرتے ہیں اور رلاتے بھی ہیں۔ مثال کے طور پر آپ کسی شخص کو اس کی محبوبہ کے نام سے چھیڑیں تو وہ ہنستا ہے۔

اس کی محبوبہ کو چھیڑیں تو وہ برہم ہوتا ہے اور اگر اسے لے اڑیں (یعنی منگنی یا شادی کر لیں) تو وہ روتا ہے۔ امید ہے بات سمجھ میں آگئی ہو گی۔ ہمارے ایک دوست کا دعویٰ ہے کہ وہ مزاح نگار ہیں۔ ایک دن ہم ان کے دولت کدے میں براجمان تھے کہ ایک مقامی اخبار کے غیر مقامی ایڈیٹر کا خط موصول ہوا۔ موصوف پڑھتے گئے اور بڑبڑاتے گئے اور پھر بھنّا گئے۔ ہمیں تو صرف یہ سطر یاد ہے کہ ’’محترم! براہ مہربانی مزاحیہ مزاح لکھا کیجیے!‘‘

ہمارے ایک دوست کو بھی ان کی مزاحیہ تحریر کے بدلے اسی قسم کا جواب ملا، لکھا تھا، ’’موصوف! آپ کی تحریر مزاح کے زمرے میں تو نہیں، البتہ حدود کے زمرے میں ضرور آتی ہے!‘‘

مزاح اور مذاق دونوں کی درجہ بندی کچھ اس طرح ہے:۔

اول کلاس: اس درجے کا مزاح یا مذاق ہلکا پھلکا ، قابل برداشت اور قابل معافی ہوتا ہے۔ یہ اہل خانہ اور مہمانوں کی موجودگی میں بھی کیا جا سکتا ہے۔

دوم کلاس: یہ وہ مزاح ہے جو ہم حلقۂ احباب ہی میں کر سکتے ہیں۔ اس کی شدت کا تعین آپ کی دوستی کی بے تکلفی پر ہے۔

تھرڈ کلاس: یہ وہ مزاح یا مذاق ہے جو انتہائی بے تکلف دوستوں کے ساتھ ہی ہو سکے۔ اس کی پہچان یہ ہے کہ اس سے نہ صرف مذاق کروانے والا بلکہ، مذاق کرنے والا بھی شرمندہ ہوتا ہے۔

خوش قسمتی سے پاکستان تیسرے درجے کے مزاح اور مذاق دونوں میں خودکفیل ہے۔ ہمارے ہاں اتنا مزاح لکھا گیا، اتنا لکھا گیا کہ اس کا مذاق ہی بن گیا۔ مزاح نگار اپنے اپنے طریقوں سے مزاح لکھتے گئے اور پڑھنے والے اپنے اپنے طریقوں سے شرمندہ ہوتے چلے گئے۔

سات مدیروں کا ایک اخبار!
کمال الدین احمد
’’ملت‘‘ گجراتی کے مالک و مدیر (بعد میں ’حریت‘ کے مالک و مدیر) مرحوم فخر ماتری پہلی مرتبہ اس خیال سے کوئٹہ آئے کہ یہاں سے روزنامہ اخبار جاری کرنے کے امکانات معلوم کریں۔ کوئٹہ کے صحافیوں نے ان کے اعزاز میں بولان ہوٹل میں ایک استقبالیہ دیا۔ بڑی پرلطف باتیں ہوتی رہیں۔ آخر میں انھوں نے کہا کہ اتنے ہفت روزہ اخبار ہیں کہ اگر روزانہ ایک اخبار چھاپا جائے، تو لوگوں کو روزانہ ایک اخبار پڑھنے کے لیے مل جایا کرے۔ چناں چہ بعد میں جو ’ڈیلی گروپ‘ قائم ہوا اس کا تصور مرحوم فخر ماتری ہی نے پیش کیا تھا۔

اگرچہ ان کا مقصد یہ بھی تھا کہ سات ہفتہ وار اخباروں کے ایڈیٹر مل کر روزانہ پرچہ نکالیں مگر اس مقصد کو ڈیلی گروپ والوں نے نظرانداز کردیا اور سب اپنا اپنا اخبار شائع کرتے رہے اور یہی وجہ اس گروپ کی ناکامی کی تھی۔ اگر سات مدیر مل کر روزانہ اخبار نکالتے تو وہ ہر لحاظ سے ایک معیاری اخبار ہوتا۔

آاج کا ’’نیا قانون‘‘۔۔۔
صدف خالد، کراچی
وہ آج پھر بوجھل قدم لیے گھر میں داخل ہوا۔ والدہ نے پُرامید نظروں سے اس کی جانب دیکھا۔ اس نے دھیمی آواز میں سلام کیا۔ اس کے چہرے پر مایوسی اور ناامیدی کے آثار دکھائی دے رہے تھے۔ صبح وہ گھر سے نوکری کے لیے انٹرویو دینے نکلا تھا اور ایک بار پھر ناکام لوٹا تھا۔ والدہ کو بتانے کی ہمت ہی نہ ہوئی اور وہ بھی شاید اس کے چہرے کو دیکھ کر ہی سمجھ گئی تھیں۔ شاید اسی لیے انھوں نے اس سے کچھ پوچھنا ہی مناسب نہ سمجھا۔ وہ سوفے پر آنکھیں موندے لیٹ گیا۔ لیٹتے ہی اس کے ذہن میں خیالات کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا۔

کچھ دن پہلے وہ ایک افسانہ پڑھ رہا تھا، سعادت حسن منٹو کا ’’نیا قانون‘‘ تھا۔ افسانے کا مرکزی کردار منگو کہیں سے یہ خبر سن لیتا ہے کہ اس کے دیس میں ایک نیا قانون نافذ ہونے والا ہے، جس کے تحت ہندوستان کے حالات بدل جائیں گے۔ سو وہ اس قانون سے اپنے مستقبل کی امید وابستہ کرلیتا ہے، مگر اس کی امیدوں کا صلہ اسے مایوسی کی صورت میں ملتا ہے۔ اس کو بھی کچھ یاد آنے لگا کہ وہ بھی اپنے ملک کی نئی حکومت سے کچھ امیدیں وابستہ کیے بیٹھا تھا۔ اس حکومت کا نعرہ تھا ’نیا پاکستان بنائیں گے‘

وہ سوچنے لگا کہ آزادی سے پہلے ہندوستان کے وہ جوشیلے نوجوان جن کا نعرہ تھا کہ ’’سینے پہ گولی کھائیں گے۔۔۔ پاکستان بنائیں گے!‘‘

انھیں تو معلوم ہی نہ تھا کہ ان کے خونِ جگر سے سینچے ہوئے اس پاکستان میں ایک بار پھر لوگ ’نیا پاکستان‘ بنانے کے نعرے لگائیں گے۔ اسے کچھ دل فریب وعدے بھی یاد آنے لگے، جو وفا نہ ہو سکے تھے۔ وہ تو بس ایک سال سے نوکری کی تلاش میں دھکے کھا رہا تھا۔ مہنگائی نے اس کا جینا محال کر دیا تھا۔ وہ اپنے گھر کا واحد کفیل تھا۔ گھر والوں کو اس سے بہت سی امیدیں تھیں۔ لوگ کہتے کہ تعلیم یافتہ نوجوان ہے۔ اس کو تو اچھی نوکری مل جانی چاہیے، مگر وہ نوکری تلاش کر کر کے مایوس ہو چکا تھا۔

کہیں تجربہ چاہیے تھا، کہیں سفارش، تو کہیں رشوت۔ اگر کوئی معمولی نوکری مل بھی جاتی، تو دو تین ماہ میں ہی اسے کسی نہ کسی وجہ کو بنیاد بنا کر نکال دیا جاتا۔ اب وہ پھر سے بے روزگار ہوگیا تھا۔ نوکری نہ ملنے کی وجہ سے وہ ذہنی دباؤ اور مایوسی و ناامیدی کی کیفیت میں مبتلا ہوگیا تھا۔ دوست احباب تسلی دیتے کہ مایوس نہ ہو، صبر کرو۔ حالات بہتر ہو جائیں گے، مگر اس کی حالت ’عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب‘ جیسی ہوئی جاتی تھی۔

کہیں یہ ’نیا پاکستان‘ منٹو کا ’نیا قانون‘ تو نہیں۔۔۔؟ اس کے ذہن میں خیال آیا۔ ارے نہیں، ’نیا پاکستان‘ ایک حقیقت ہے اور ’نیا قانون‘ تو محض ایک افسانہ۔۔۔ اور۔۔۔حقیقت تو افسانے سے مختلف ہوتی ہے۔۔۔!

کہیں میں بھی ’’منگو‘‘ تو نہیں۔۔۔؟ اس کے ذہن میں ایک بار پھر خیال آیا۔ حالت تو میری بھی کچھ ’منگو‘ جیسی ہی ہے۔ اس نے ناامیدی سے سوچا۔ میں بھی ’منگو‘ کی طرح ’نیا قانون‘ مطلب کہ ’نیا پاکستان‘ بننے کی خوشیاں منا رہا تھا کہ وقت آنے پر معلوم ہوا کہ پاکستان تو وہی پرانا ہی ہے۔ کچھ بھی تو نہیں بدلا؟

نہیں۔۔۔ نہیں، میں ’منگو‘ نہیں ہوں۔ ’منگو‘ تو ایک افسانوی کردار ہے اور میں۔۔۔ میں تو ایک جیتا جاگتا انسان ہوں۔ ایک تعلیم یافتہ اور باہمت نوجوان ہوں۔ میں ’منگو‘ نہیں ہوں۔ میں منگو نہیں ہوں۔ وہ چیخنے لگا۔ اچانک اس کی آنکھ کھل گئی۔ اس نے گھبرا کر دیکھا۔ اس کے آس پاس اس کے گھر والے کھڑے تھے۔ سب یہی سمجھے کہ وہ شاید خواب میں ڈر گیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔