- وزیر اعلیٰ پنجاب کا مسیحی ملازمین کیلیے گڈ فرائیڈے اور ایسٹر بونس کا اعلان
- سونے کی عالمی ومقامی قیمتوں میں اضافہ
- بلوچستان : بی ایل اے کے دہشت گردوں کا غیر ملکی اسلحہ استعمال کرنے کا انکشاف
- سینئر وزیر سندھ شرجیل میمن کی زیرصدارت محکمہ ٹرانسپورٹ کا اعلیٰ سطح اجلاس
- قومی ٹیم کی کوچنگ؛ جیسن گلیسپی اہم فیصلہ کرلیا
- پشاور؛ صوبائی وزیر و دیگر کے نام ای سی ایل سے نکالنے کیلیے حکومت سے جواب طلب
- سوئی ناردرن کی گیس قیمتوں میں اضافے پر وضاحت
- کراچی؛ اورنج اور گرین لائن کو جوڑنے کے لئے شٹل سروس شروع کرنے کا فیصلہ
- قادیانی شہری ضمانت کیس؛ علماء سے 2 ہفتے میں تحریری رائے طلب
- سویلین ٹرائلز؛ سپریم کورٹ کی فوجی عدالتوں کو محفوظ شدہ فیصلے سنانے کی مشروط اجازت
- ایف بی آر سے کرپشن کے خاتمے کیلیے خفیہ ایجنسی کو ٹاسک دیدیا گیا
- کاکول ٹریننگ کیمپ؛ اعظم خان 2 کلومیٹر ریس میں مشکلات کا شکار
- اسٹاک ایکسچینج؛ 100 انڈیکس ملکی تاریخ کی نئی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا
- بجلی ایک ماہ کیلیے 5روپے فی یونٹ مہنگی کر دی گئی
- کھلاڑیوں کی ادائیگیوں کا معاملہ؛ بورڈ نے فیکا کے الزامات کو مسترد کردیا
- پی ٹی آئی (پی) کی مخصوص نشستوں کا معاملہ، الیکشن کمیشن حکام فوری ہائیکورٹ طلب
- حساس ادارے کے دفترکے گیٹ پرحملہ، پی ٹی آئی کارکنان دوبارہ زیرحراست
- اُم المومنین سیّدہ عائشہؓ کے فضائل و محاسن
- معرکۂ بدر میں نوجوانوں کا کردار
- غزوۂ بدر یوم ُالفرقان
ہار جیت کا کھیل اور عمومی رویے
’’پاکستان ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں ہار گیا‘‘۔ عوام کے لیے یہ صرف ایک خبر ہے جس پر محض افسوس کا اظہار کرکے بھلا دیا جائے گا لیکن کرکٹ شائقین اور خاص کر ’’جنونی شائقین‘‘ کےلیے یہ صرف خبر نہیں بلکہ حد درجہ سنگین معاملہ بھی بن سکتا ہے۔ ایک کھیل سے متعلق یہی عمومی رویے آج ہمارا موضوع ہیں۔
ہمارا تعلق اول الذکر لوگوں میں ہوتا ہے جن کے لیے کھیل محض تفریح طبع کا ذریعہ ہیں، دیکھا، انجوائے کیا اور پھر کسی اور مصروفیت میں لگ گئے۔ ٹیم نے اچھا کھیل پیش کیا تو ستائش کی، برا کھیلا تو منفی پہلوؤں پر مختصر بات کی، جیت پر خوشی منائی تو ہار کی صورت میں افسوس کرتے ہوئے زندگی میں آگے بڑھ گئے۔ عوام کی اکثریت ایسا ہی کرتی ہے لیکن جو لوگ جنون کی حد تک کھیل اور خاص طور پر کرکٹ سے لگاؤ رکھتے ہیں، ان کے لیے اپنی ٹیم کی ہار برداشت کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔
پاکستان ٹی ٹوئنٹی کرکٹ ورلڈ کپ سے آسٹریلیا سے سیمی فائنل ہارنے کے بعد باہر ہوچکا ہے لیکن اس ہار کے ’’آفٹر شاکس‘‘ دو دن بعد بھی آپ کو سوشل میڈیا پر تازہ دم ملیں گے۔ سوشل میڈیا پر ہمیشہ کی طرح دو طبقات موجود ہیں۔ ایک طبقہ اس ہار اور میچ میں کچھ غلطیاں کرنے پر کرکٹ ٹیم اور کھلاڑیوں کو برا بھلا کہہ رہا ہے اور دوسرا طبقہ ہار پر حوصلہ رکھنے اور ٹیم کے حق میں دلائل دینے میں مصروف ہے۔
اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ حالیہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں پاکستان نے ابتدا سے ہی عمدہ کھیل کا مظاہرہ کیا۔ مستقل فتوحات کے بعد محض سیمی فائنل میں آکر ہار جانا قسمت کا کھیل ہے۔ دو ٹیموں کے مقابلے میں جیت اور ہار میں سے ایک ہی آپ کا مقدر بن سکتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ آپ مستقل جیتتے ہی رہیں، بعض اوقات حالات و واقعات اور کچھ غلطیاں ہار کا باعث بھی بن جاتی ہیں۔ اور ایسا ہی کچھ پاکستانی ٹیم کے ساتھ بھی ہوا۔ اپنی تمام تر اچھی تیاری اور بہترین کھیل پیش کرنے کے باوجود پاکستان سیمی فائنل میں ہار گیا تو اس کے پیچھے مقابل ٹیم کی محنت بھی شامل تھی۔ اگر غلطیوں کا تذکرہ کیا جائے تو صرف ہارنے والی ٹیم نے ہی اس میچ میں غلطیاں نہیں کیں بلکہ جیتنے والی ٹیم بھی پہلی اننگز میں کئی غلطیاں کرکے پاکستانی ٹیم کو موقع دے چکی تھی۔ لیکن اگر سوشل میڈیا پر جاری بحث کو دیکھا جائے تو تنقید کرنے والے نہ صرف سارا نزلہ پاکستانی ٹیم کے کچھ مخصوص کھلاڑیوں پر گرا رہے ہیں بلکہ گزشتہ فتوحات اور اچھی کارکردگی کو نظر انداز کرکے اخلاق باختہ پوسٹیں کرنے میں بھی مصروف ہیں۔ یہ رویے ان چند افراد کے ذہنی دیوالیہ پن کی علامت ہیں لیکن ان پوسٹس سے عالمی طور پر پاکستانی عوام کا ایک غلط امیج دنیا کے سامنے جائے گا۔
یہ چند افراد پوری قوم کی نمائندگی نہیں کرتے لیکن انٹرنیٹ پر ’’وائرل‘‘ ہونے والی پوسٹس کا سب سے بڑا منفی پہلو یہی ہے کہ لوگ اس پر نہ صرف آنکھیں بند کرکے یقین کرلیتے ہیں بلکہ ’’آگے‘‘ بڑھانے میں بھی پیش پیش رہتے ہیں۔ ایسی ہی منفی پوسٹوں کا پڑوسی متعصب میڈیا بھی فائدہ اٹھا رہا ہے اور مرچ مسالہ لگا کر پیش کررہا ہے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ کرکٹ میں ایک میچ کی ہار کو ذہنی مفلوج عناصر تعصب اور فرقہ واریت کی نذر کررہے ہیں۔ ایک جانب دھانی کو نہ کھلانے پر یہ دہائی دی جارہی ہے کہ سندھ کے کھلاڑیوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے تو ان ہی سوشل میڈیا پوسٹس میں حسن علی کو رگیدنے پر بھارتی میڈیا یہ تاثر دے رہا ہے کہ حسن علی کو اس لیے ٹرولنگ کا نشانہ بنایا جارہا ہے کیونکہ وہ شیعہ فرقہ سے تعلق رکھتا ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے لیکن پھر بھی بھارتی میڈیا کو یہ ’’رائی‘‘ ان ہی پاکستانی شائقین کرکٹ نے فراہم کی ہے جو حسن علی پر جگتیں کسنے سے باز نہیں آرہے اور بھارتی میڈیا اس رائی کا پہاڑ بنا کر پیش کررہا ہے۔
یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ کوئی بھی کھلاڑی دانستہ خراب کھیل نہیں کھیلتا۔ وہ میدان میں جیت کا عزم لیے ہی داخل ہوتا ہے اور اپنی بساط بھر کوشش بھی کرتا ہے، لیکن حالات و واقعات اور مخالف ٹیم کی محنت بھی اس کی جیت کی راہ میں رکاوٹ ہوتی ہے۔ اگر پاکستانی ٹیم نے اس کھیل میں کچھ غلطیاں کیں تو مخالف ٹیم بھی ذہنی دباؤ کا شکار ہوکر ایسی ہی غلطیاں کررہی تھی۔ اگر پاکستان کے کسی بالر کی گیند پر زیادہ چھکے چوکے لگے تو آسٹریلیا کے بالرز بھی پاکستانی بلے باز کے ہاتھوں یہی ہزیمت اٹھا چکے تھے۔ لیکن بات وہی ہے کہ ہم صرف اچھا اچھا دیکھنا چاہتے ہیں، اپنی ٹیم کی ہار ہمیں برداشت نہیں۔ اور ایسے میں تنقید کرتے ہوئے باقی تمام اچھے پہلو نظر انداز کردیے جاتے ہیں۔
پاکستان کی حالیہ کرکٹ ٹیم اس وقت اپنی بہترین پوزیشن میں ہے۔ کپتان سے لے کر ہر کھلاڑی اپنی اپنی جگہ ایک نگینہ ہے۔ حالیہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں پاکستان کی اچھی کارکردگی اور خاص کر انڈیا سے جیت نے ان لوگوں کو بھی کرکٹ دیکھنے پر راغب کیا جو عموماً کرکٹ میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ اور یہی پاکستانی ٹیم کی جیت ہے۔ ہمیں بھی اپنے عمومی رویوں کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ اعتدال ضروری ہے۔ صرف ایک میچ کی ہار پر اپنی قومی ٹیم اور قومی کھلاڑیوں کی عزت سوشل میڈیا پر نیلام نہیں کیجیے۔ اپنے رویوں سے ظاہر کیجئے کہ آپ ایک باشعور اور عزت دار قوم کے نمائندہ ہیں۔ ہار کو قبول کرنا سیکھیے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔