اسلام آباد اب ایک غیر محفوظ شہر ہے

نصرت جاوید  جمعـء 7 فروری 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

شاید یہ بات میرے چند بڑے ہی محترم اور بے حد عزیز کالم نگاروں کو پسند نہ آئے مگر میں یہ دعویٰ کرنے سے پھر بھی نہیں رکوں گا کہ ہمارے سیاستدانوں اور خاص کر حکومت میں موجود افراد نے اخبارات پڑھنا بالکل چھوڑ دیا ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو غالباََ وہ آخری سیاست دان تھیں جو کم از کم انگریزی اخبارات کی چھپی ایک ایک سطر پڑھا کرتی تھیں۔ نواز شریف صاحب کے بارے میں کسی دور میں یہی دعویٰ اُردو اخبارات کے حوالے سے بھی کیا جا سکتا تھا۔ پرویز مشرف کی توجہ انگریزی میں لکھنے والے چند مخصوص کالم نگاروں کی تحریروں پر مبذول رہا کرتی تھی۔ وہ ان کے مثبت یا منفی سمجھے جانے والے فقروں پر فوری اور شدید ردعمل کا اظہار بھی کر دیا کرتے تھے۔ آصف علی زرداری صاحب ایوان صدر پہنچے تو اپنی حکومت کے دنوں میں ٹی وی اسکرینوں پر آ کر حکومت میں بیٹھے لوگوں کو بارہا حکم دیتے رہے کہ وہ اخبارات پڑھنا اور ٹیلی وژن دیکھنا چھوڑ دیں۔ اگرچہ بہت سارے مفکرین صحافت کو تاریخ کاFirst  Draft ٹھہراتے ہیں مگر زرداری صاحب کا دعویٰ تھا کہ وہ ’’کل صبح کے اخبار کے لیے‘‘ ہیڈ لائن فراہم کرنے کے بجائے تاریخ کے لیے کچھ دور رس کام کر رہے ہیں۔ انھوں نے اپنے دور میں جو ’’تاریخ‘‘ بنائی شاید میری عمر اس کا جائزہ لینے کا موقعہ نہ دے۔ خیر بلا سے ہم نے نہ دیکھا تو اور دیکھیں گے کہہ کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔

یہاں تک لکھنے کے بعد میرے ذہن میں لیکن یہ خیال آ گیا ہے کہ ہماری قسمتوں کی مالک بنی اشرافیہ اگر اخبار نہیں پڑھتی تو میرے قاری یہ پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ اپنے لکھے ہوئے کے بارے میں ایسی بے حسی دریافت کرنے کے باوجود میں اتنی باقاعدگی سے یہ کالم کیوں لکھتا ہوں۔ اس کا پہلا جواب تو یہ ہے کہ مجھے یہ کالم لکھنے کے پیسے ملتے ہیں اور ہر مہینے ایک معقول رقم کا باقاعدگی سے ملنا مجھے یوں بھی بہت اچھا لگتا ہے کہ مجھے صحافت کے علاوہ اور کوئی کام نہیں آتا۔ اس بنیادی فائدے سے کہیں زیادہ اہم بات یہ بھی ہے کہ اکثر مجھے پاکستان کے دور دراز قصبوں میں کئی ’’عام‘‘ سے لگنے والے ہم وطن ملتے ہیں تو از خود اپنا تعارف کروانے کے بعد میرے کسی کالم کا حوالہ دیتے ہوئے میرے خیالات کی حمایت یا مخالفت میں ایک جاندار بحث شروع کر دیتے ہیں۔ ان کا غصہ یا ستائش آپ کو احساس دلاتا ہے کہ لکھنا ہرگز ایک کار ضیاع نہیں یہ تو بلکہ لوگوں کو مزید سوچنے اور کوئی نہ کوئی رائے بنانے پر اُکساتا ہے۔ آپ کی محنت اور لگن کو اس سے بڑا اعزاز کیا دیا جا سکتا ہے۔

مثال کے طور پر حال ہی میں اپنے گھر در آنے والے نامعلوم افراد کی بابت لکھا تو ای میلز اور ٹیلی فونز کا سیلاب برپا ہو گیا۔ قریبی دوستوں کی جانب سے تسلی اور حوصلہ بخشنے سے کہیں زیادہ تعداد ان لوگوں کی تھی جنہوں نے اپنے گھروں میں ہونے والی چوری اور ڈاکہ زنی کے واقعات کی تفصیل سنا کر مجھے اس بات سے آگاہ کیا کہ میں جو خود کو اپنے تئیں بڑا پھنے خان رپورٹر شمار کیا کرتا ہوں اس حقیقت کو بہت دیر بعد دریافت کر پایا کہ اسلام آباد اب ایک غیر محفوظ شہر ہے۔ جو کہانیاں مجھ تک پہنچیں انھوں نے تو مجھے یہ طے کرنے پر مجبور کر دیا کہ آبادی کے تناسب سے ہمارے ہاں دیدہ دلیر مجرموں کی تعداد اب بھی بہت کم ہے۔ شہریوں کی اکثریت اگر خود کو کسی نہ کسی حد تک محفوظ سمجھتی ہے تو اس کی وجہ ہمارا ریاستی نظام نہیں۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ معاشرے میں تمام تر برائیوں کے باوجود ہمارا سماجی نظام اور اس کی قدریں ابھی تک کافی طاقت کے ساتھ موجود ہیں۔ غریب اور بے روزگار نوجوانوں کی اکثریت اب بھی کسی نہ کسی صورت ’’رزقِ حلال‘‘ کمانے کی خواہش مند ہے۔ اس نے برازیل کے سابقہ دارالحکومت یا کسی زمانے میں نیویارک کے Suburbs میں بسنے والے ان نوجوانوں کا چلن نہیں اپنایا جو اسٹریٹ کرائم یا سنگین جرائم کے علاوہ زندہ رہنے کا کوئی اور طریقہ ہی نہیں جانتے تھے۔ اپنے معاشرے کی اخلاقی قدروں کی کافی حد تک برقراری کے ساتھ ہی ساتھ مجھے یہ بھی علم ہو گیا کہ پاکستان کے تمام شہروں اور قصبوں میں گھروں کی حفاظت کو یقینی بنانے والے نظام اور آلات کی فراہمی والا کاروبار بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے۔ اس کاروبار کی بدولت کئی حوالوں سے کچھ معقول رقم خرچ کرنے کے بعد آپ گھر میں بیٹھے خود کو کافی محفوظ سمجھ سکتے ہیں۔

مجھے آنے والی ای امیلز اور ٹیلی فون کالز کے بعد سمجھ میں یہ بھی آیا کہ کراچی، لاہور، پشاور اور فیصل آباد جیسے شہروں میں رہنے والے اس ماحول سے بہت عرصہ ہوا گزارہ کرنا سیکھ چکے ہیں جو اس ہفتے کے آغاز سے میں اسلام آباد میں نمودار ہوتا محسوس کر رہا ہوں۔ ان شہروں کے رہنے والوں کو ہماری ریاست اور حکمرانوں نے کوئی تحفظ فراہم نہیں کیا۔ ہر فرد کو اپنی حفاظت کے لیے خود ہی کچھ نہ کچھ کرنا پڑا۔ سوال یہ ہے کہ اگر شہریوں کو اپنی جان و مال کی حفاظت خود ہی کرنا ہے تو وہ ریاست کو ٹیکس وغیرہ کیوں دیں۔ اسی لیے تو مجھے وہ ’’ماہرین معیشت‘‘ اب بہت عجیب باتیں کرتے سنائی دینا شروع ہو گئے ہیں جو اپنے ہر دوسرے مضمون میں اس بات کا رونا روتے ہیں کہ پاکستان میں ٹیکس دینے والوں کی شرح ہمارے ہی جیسے بہت سارے ممالک کے مقابلے میں بھی بہت کم ہے۔

پنجابی کا ایک محاورہ بڑی شدت سے یہ بات سمجھانے کی کوشش کرتا ہے کہ کوئی شخص اصل حقائق کو صرف اس صورت جان سکتا ہے اگر اسے کسی بُرے وقت کا سامنا کرنا پڑے یا وہ کسی کٹھن راہ پر چل نکلے۔ میرے ساتھ ایک بُرا واقعہ ہوا تو میں نے بے شمار نئے حقائق اور گھروں کی حفاظت کے لیے ایجاد کردہ نت نئے انتظامات کے بارے میں جان لیا۔ ہمارے حکمرانوں کو ان چیزوں کا احساس تک نہ ہو گا۔ وہ حکومت میں بیٹھے ہوں یا باہر ان کے قلعہ نما مکانات ہوتے ہیں اور حفاظت کے نام پر اکٹھا کیے ملازموں کا ایک ہجوم۔ انھیں کیا پڑی ہے کہ اپنی گوناگوں مصروفیات میں سے کچھ وقت نکال کر یہ جاننے کی کوشش کریں کہ Communities  Gated سے باہر رہنے والے عام پاکستانی کو روزمرہّ زندگی میں اپنے جان و مال کے تحفظ کے حوالے سے کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسی لیے تو ان کی توجہ ان دنوں ٹیلی ویژن اسکرینوں پر چھائی ان کمیٹیوں کے اراکین کی آنیوں جانیوں پر ہے جو ’’شریعت کے نفاذ‘‘ کے لیے کوئی موثر انتظام ڈھونڈنے کے بعد ملک میں امن و سکون بحال کر سکیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔