افغانستان کے لیے غذائی اور طبی امداد

ایڈیٹوریل  اتوار 14 نومبر 2021
اگر ملکی عوام کو روزمرہ اشیا سستی ملیں گی تو پاکستان کے لیے پڑوسی ملک کو آسودگی میں مدد دے کر خوشی ہوگی۔فوٹو : فائل

اگر ملکی عوام کو روزمرہ اشیا سستی ملیں گی تو پاکستان کے لیے پڑوسی ملک کو آسودگی میں مدد دے کر خوشی ہوگی۔فوٹو : فائل

پاکستان نے سردیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے افغان عوام کے ساتھ کھڑے ہونے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے گندم، چاول سمیت دیگر غذائی اشیاء، ہنگامی طبی سامان اور پناہ گاہ کی اشیاء بھیجنے کااعلان کیا ہے جب کہ بھارت سے گندم کی نقل و حمل میں سہولت کی افغان درخواست پر ہمدردانہ غورکیا جائے گا۔

وزیراعظم آفس کے اعلامیہ کے مطابق عمران خان سے ٹرائیکا پلس کے خصوصی نمایندگان برائے افغانستان کی ملاقات ہوئی جس میں وزیراعظم نے ٹرائیکا پلس (امریکا، چین، افغانستان اور دیگر) میکانزم کی اہمیت کو اجاگر کیا۔وزیراعظم نے کہا دنیا صورتحال کی سنگینی تسلیم کرے، افغان عوام کی مشکلات کم کرنے کے لیے منجمد اثاثوں کی بحالی سمیت فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔

افغانستان میں صورتحال کی سنگینی کا ادراک دنیا جلد کرے، ریاضاتی اصول کی بھول بھلیوں سے کام لیا تو مسائل افغان بحران سے باہر ہوجائیں گے اور انسانی المیہ کے جنم لینے کے ساتھ ساتھ سیاسی مسائل کی پیچیدگیاں بھی خطے میں چیلنجز کو مشکل ٹاسک بناسکتی ہیں۔

دنیا اس وقت افغانستان کو اپنے جمہوری سسٹم کے پیمانے سے دیکھ رہی ہے، وہ طالبان سے ایسے مطالبات کررہی ہے جو اس کے مفاداتی ایجنڈے کی تکمیل کرسکتے ہوں اور طالبان کے لیے ان مطالبات کو مکمل کرنا ممکن بھی ہو، غالبا یہی وجہ ہے کہ امریکا اور دیگر یورپی اور مغربی ممالک طالبان سے معاملات کرتے ہوئے ان تحفظات سے خود کو الگ نہیں رکھ سکتے جو عالمی سیاست کے جبر کے تحت دنیا کی بھی مجبوری ہے، اسی معمہ کو سمجھنے کی ضرورت ہے، جب کہ پاکستان افغانستان کے مسئلہ کے حل کے لیے انسانی بحران کے خدشہ پر بار بار زور دے رہا ہے وہ افغانستان کے مالی، سیاسی اور انسانی گمبھیرتا کے گرد گھومتا ہے۔

طالبان کو ایک داخلی سیاسی گرداب کا سامنا ہے، وہ اپنے سسٹم کو باقی دنیا سے الگ تھلگ سمجھتے ہوئے سیاسی معاملات کے حل کی خواہش رکھتے ہیں اور اس بنیادی حقیقت کی تفہیم پر ان کی نگاہ نہیں ہے کہ اقتدار کا حصول مسئلہ کا حل نہیں، اصل چیلنج افغانستان کا ریاستی ڈھانچہ، عبوری انتظامیہ سے ماورا اقدامات، انسانی سماجی، سیاسی اور معاشی نظام کی بنیاد کو مستحکم طریقے سے دنیا کے سامنے پیش کرنے کا ہے، دنیا اسی انتظار میں ہوگی کہ طالبان نظام کی اولیت سے زیادہ اپنے سسٹم کو دنیا کے لیے قابل قبول بنانے کا کیا ہدف پیش نظر رکھے ہوئے ہیں۔

پاکستان کو ادراک ہے کہ انسانی بحران افغانستان کی دہلیز پر کھڑا ہے اور پاکستان خود بھی مختلف النوع معاشی، سیاسی اور سماجی مسائل کے گرداب میں الجھا ہوا ہے، اسے بے پناہ مسائل نے للکارا ہے، مہنگائی، بیروزگاری اور مالیاتی مسائل سمیت قرضوں کے بوجھ نے وزیراعظم عمران خان کی حکومت کو سنگین مسائل سے دوچار کیا ہے۔

طالبان قیادت پاکستان کی پوزیشن سے واقف ہے، اس کے مسائل سے آشنائی رکھتی ہے لیکن صائب راستہ عالمی طاقتوں کو افغانستان کی سیاست کے بنیادی المیہ کے حل کی طرف لانا ہے، وقت تیزی سے گزر رہا ہے ، سردیوں کے دن قریب آرہے ہیں۔

افغان عوام کو انسانی مصائب اور موسمیاتی خطرات کو بھی سہنے کا حوصلہ پیدا کرنا ہے، دنیا کو بلاشبہ افغانستان کے مسئلہ کو حل کرنے کے لیے ایک بڑے بریک تھرو اور غیر معمولی پیش رفت کی ضرورت ہے، پاکستان کی کوشش ہے کہ دنیا وسائل اور بنیادی سہولتوں کی فراہمی میں افغان عوام کی مدد میں جوش وجذبہ اور انسانی ہمدردی کا مظاہرہ کرنے میں مثالی معاونت کا مظاہرہ کرے اوردرپیش چیلنجز کے حل میں افغانستان کے عوام کی بھرپور مدد کرے۔

پاکستان کی اقتصادی صورتحال بھی مسلسل گرتی جارہی ہے، سیاسی استحکام کی کوششیں کسی بریکنگ پوائنٹ پر نہیں آرہیں، معاشی مسیحاؤں نے قوم کو یک گونا اطمینان دلایا ہوتا تو پاکستان افغانستان کی امداد میں مزید پیش قدمی کرسکتا تھا لیکن پاکستان روپے کی قدر میں گراوٹ کا عمل مسلسل پانچویں روز بھی جاری رہا اور جمعے کو پاکستانی روپیہ 175 روپے 73 پیسے کی سطح پر آگیا۔

گزشتہ روز انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں گراوٹ کا عمل جاری رہا اور ایک ڈالر 175روپے 73 پیسے کی سطح پر آگیا جس کی بنیادی وجوہات میں درآمد کنندگان کی جانب سے ڈالرز کی خریداری جب کہ برآمدکنندگان کی جانب سے ڈالر فروخت نہ کرنا ہے اور وہ ابھی آئی ایم ایف مذاکرات کے حوالے سے حتمی فیصلے کے منتظر ہیں۔

جمعے کو روپے کی قدر ڈالر کے مقابلے میں مزید صفر اعشاریہ88 گری۔ اس سے قبل گزشتہ ماہ کی26 تاریخ کو روپے کی قدر175روپے27 پیسے تک گئی تھی جو کم ترین سطح تھی۔ ڈالر کے انٹربینک ریٹ 175روپے سے متجاوز اور اوپن مارکیٹ ریٹ 178روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا۔ کاروباری دورانیے میں ڈالر کا انٹربینک ریٹ 176روپے سے بھی تجاوز کرگیا تھا تاہم اختتامی لمحات میں ڈیمانڈ گھٹنے سے انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کی قدر 1.63روپے کے اضافے سے 175.73روپے کی نئی بلند ترین سطح پر بند ہوئی۔

اسی طرح اوپن کرنسی مارکیٹ میں بھی ڈالر کی قدر1.50روپے کے اضافے سے178روپے کی نئی بلند ترین سطح پر بند ہوئی، آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے بے یقینی کی وجہ سے روپے کی قدر گری ہے۔

ادھر بین الاقوامی بلین مارکیٹ میں فی اونس سونے کی قیمت 14ڈالر کی کمی سے 1849ڈالر کی سطح پر پہنچنے کے باعث مقامی صرافہ مارکیٹوں میں بھی جمعہ کو فی تولہ اور فی دس گرام سونے کی قیمتوں میں بالترتیب 450روپے اور 385روپے کی کمی واقع ہوئی جس کے نتیجے میں کراچی، حیدرآباد، سکھر، ملتان، لاہور، فیصل آباد، راولپنڈی، اسلام آباد، پشاور اور کوئٹہ کی صرافہ مارکیٹوں میں فی تولہ سونے کی قیمت گھٹ کر 128650روپے اور فی دس گرام سونے کی قیمت گھٹ کر 110297روپے ہوگئی۔

ایم ایس سی آئی کی جانب سے پی ایس ایکس کو ڈاؤن گریڈ کرکے فرنٹیئر مارکیٹ انڈیکس میں شامل کرنے کے اعلان سے غیرملکیوں کے ساتھ مقامی سرمایہ کاروں کی جانب سے سرمائے کے انخلا کے باعث جمعہ کو بھی پاکستان اسٹاک ایکس چینج میں مندی کے بادل چھائے ہوئے ہیں جس سے انڈیکس کی 46000پوائنٹس کی نفسیاتی حد بھی گرگئی ہے۔

ماہرین کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کی جانب سے اعلان کردہ پیکیج کے فنڈز ریلیز نہ ہونے کے ساتھ آئی ایم ایف پروگرام میں مسلسل تاخیر اور اسٹیٹ بینک کی خودمختاری سمیت دیگر سخت شرائط کی وجہ سے سرمایہ کاری کے تمام شعبے مضطرب ہیں جس کی وجہ سے مارکیٹ میں کاروباری حجم بھی گھٹتا جا رہا ہے۔ مندی کے سبب 68.40فیصد حصص کی قیمتیں گرگئیں جب کہ سرمایہ کاروں کے 81ارب 31کروڑ4 لاکھ 13ہزار 972روپے ڈوب گئے۔

کاروبار کے اختتام پر کے ایس ای100انڈیکس 599.03 پوائنٹس کی کمی سے 45749.15 پوائنٹس کی سطح پر بند ہوا کاروباری حجم جمعرات کی نسبت 28.58فیصد کم رہا اور مجموعی طور پر 19کروڑ 24لاکھ 66ہزار 529 حصص کے سودے ہوئے ۔

دوسری جانب ملک میں مہنگائی کی شرح میں اضافہ کی رفتار مزید تیز ہو گئی، حالیہ ہفتے کے دوران مہنگائی میں اضافہ کو ٹاپ گیئر لگ گیا اور ایک ہفتے کے دوران مہنگائی کی شرح میں مزید1.81فیصد اضافہ ہوا جب کہ سالانہ بنیادوں پر مہنگائی کی شرح میں اضافہ17.37فیصد تک پہنچ گیا۔

تفصیلات کے مطابق نئے مالی سال 2021-22 کے پانچویں ماہ(نومبر)کا آغاز بھی مہنگائی کی شرح میں اضافہ سے ہوا تھا اور اب گیارہ نومبر کو ختم ہونیوالے ہفتے میں بھی مہنگائی کی شرح میں 1.81فیصد اضافہ ہوا ہے جب کہ اس سے قبل چار نومبر کو ختم ہونے والے ہفتے میں بھی مہنگائی کی شرح میں0.67فیصد اضافہ ہوا تھا۔

وفاقی ادارہ شماریات کی جانب سے جاری کردہ مہنگائی کی ہفتہ وار رپورٹ کے مطابق حالیہ ہفتے30اشیائے ضروریہ مہنگی،6سستی ہوئیں جب کہ15کی قیمتیں مستحکم رہی ہیں، وفاقی ادارہ شماریات کی مہنگائی بارے ہفتہ وار رپورٹ میں بتایا گیا کہ اس ہفتے میں سادہ روٹی، آلو، پیاز، انڈے، ٹماٹر،گڑ، دال مسور، مٹن، بیف، صابن، سرسوں کا تیل، چائے، جلانے والی لکڑی،انرجی سیور،ویجی ٹیبل گھی، ایل پی جی،بجلی،پٹرولیم مصنوعات ،کھلا تازہ دودھ اور دہی سمیت مجموعی طور پر30اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ہوا اور آٹا لہسن، چینی،دال ماش،دال مونگ اوردال چنا پر مشتمل6 اشیاء سستی ہوئی ہیں15 اشیائے ضروریہ کی قیمتیں مستحکم رہی ہیں۔

ضرورت ایک مستحکم مارکیٹ اور عوام کو اشیائے خور ونوش کی فراہمی میں آسودگی مہیا کرنے کی ہے، اگر ملکی عوام کو روزمرہ اشیا سستی ملیں گی تو پاکستان کے لیے پڑوسی ملک کو آسودگی میں مدد دے کر خوشی ہوگی اور اس دباؤ سے بھی اسے نجات ملے گی کہ پاکستان کو افغانستان کی فکر ہے مگر وہ ملکی معیشت اور مہنگائی کی روک تھام کے لیے غیر معمولی معاشی سرگرمی دکھائے، اس کام میں معاشی مسیحاؤں کو نمایاں کارکردگی دکھانا پڑیگی، یعنی ایک تیر میں دو شکار کرنا پڑیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔