فیشن ڈیزائنز کے بھی کاپی رائٹس ہونے چاہئیں

میاں اصغر سلیمی  اتوار 14 نومبر 2021
پاکستانی نژاد فرانسیسی فیشن ڈیزائنر محمود بھٹی کی ایکسپریس سے خصوصی نشست۔ فوٹو: فائل

پاکستانی نژاد فرانسیسی فیشن ڈیزائنر محمود بھٹی کی ایکسپریس سے خصوصی نشست۔ فوٹو: فائل

وہ کم سن تھا اور باپ کی شفقت سے بھی محروم تھا، چاروں طرف بھوک، افلاس اور مجبوریوں نے ڈیرے ڈال رکھے تھے، کئی بار ایسا ہوتا کہ کئی کلومیٹر پیدل چل کر داتا دربار جاتا اور وہاں سے لنگر کھا کر پیٹ کی آگ بجھاتا، دْبلا پتلا اس قدر کہ پینٹ بھی اس کے دْبلے پتلے جسم کا مذاق اْڑاتی ہے، دس سال کی عمر میں وہی بچہ بیس سالہ نوجوان کے خواب دیکھنا شروع کر دیتا ہے، کنگ باکسر محمد علی کو اپنا آئیڈیل بناتا ہے، اسی غربت اور مفلسی کے عالم میں وہ کسی نہ کسی طرح فرانس پہنچنے میں کامیاب ہوجاتا ہے اور محنت مزدوری کرتے کرتے بہت بڑا فیشن ڈیزائنر بننے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔

پاکستان میں فیشن انڈسٹری کی ابتدا کرتا ہے، کئی فلاحوں اداروں کی سرپرستی کرتا ہے، لاہور میں جدید ترین ہسپتال بناتا ہے، اس کی فیشن انڈسٹری اور فلاحی کاموں کو دیکھتے ہوئے حکومت پاکستان کی طرف سے سب سے بڑے سول ایوارڈ ستارہ امتیاز سے نوازا جاتا ہے، وہ اسی پر ہی بس نہیں کرتا بلکہ اسے دنیا کے 10 اور ممالک سے اعلی اعزازات سے نوازا جاتا ہے،اب صورت حال یہ ہے کہ دنیا کے 80 ممالک میںاس کے دفاتر ہیں،اپنی ہمت، انتھک محنت اور کوششوں سے زمین کی پستیوں سے آسمان کی بلندیوں کو چھونے والا وہ بچہ کوئی اور نہیں بلکہ فیشن کی دنیا کے آئیکون کہلائے جانے والے فیشن ڈیزائنر محمود بھٹی ہیں۔

محمود بھٹی کہنے کو تو ایک بڑا فیشن برینڈ ہے جس نے فرانس سے لے کر پوری دْنیا میں جدید فیشن متعارف کروائے اور پاکستان کے حوالے سے دیکھا جائے تو فیشن سکول سے فیشن یونیورسٹی کی بنیادوں میں بھی محمود بھٹی کے کیے کام دکھائی دیتے ہیں۔ خوبصورت نین نقش، گفتار میں کردار میں محمود بھٹی دوستوں میں قہقہے بکھیرتا اپنے ماضی کو آج بھی یاد رکھے ہوئے ہے۔فیشن کی دنیا کے بے تاج بادشاہ محمود بھٹی چند روز کے لئے فرانس سے پاکستان آئے تو ایکسپریس نے ان سے تفصیلی نشست کا اہتمام کیا جس کی تفصیل ذیل میں کچھ یوں ہے۔

محمود بھٹی کے مطابق بچپن میں والدین ایک حادثے کا شکار ہو گئے اور میں جن کے پاس اپنا بچپن گزار رہا تھا ان کے پانچ بچے تھے اور چھٹا میں تھا۔ اسی دوران میں نے ایک بات محسوس کرنا شروع کردی کہ میں ان پانچ بچوں میں سے مختلف ہوں کہ ان کو والدین کی طرف سے جو محبتیں میسر تھیں وہ میرے پاس سے بھی ہو کر نہیں گزر رہی تھیں،سمن آباد سنٹرل ماڈل ہائی سکول میری پہلی درسگاہ تھی،دس سال کی عمر میں بچپن گزر رہا ہوتا ہے، میں دیکھا کرتا کہ جو کپڑے، جوتے یا تہواروں پر رنگ برنگے لباس دوسرے بچوں کو ملتے تھے، میں ان سے محروم ہوں۔ یہاں تک کہ گھر سے لے کر باہر تک ایک ٹوٹی چپل میرے پاؤں میں ہوتی۔

اب میرے اندر کی خواہشات بہت تھیں مگر میرے پاس پیسے نہیں تھے، بچپن ہی سے عظیم باکسر محمد علی میرے ذہن پر سوار تھے،میں نے ان کے بے شمار مقابلے دیکھے، جب میں بڑا ہوا، محمد علی کی فتح، اس کا نام ،شہرت اور بلندیوں کو چھونے والا نام جو آہستہ آہستہ میرے اندر اترتا گیا۔ جس طرح کوئی کسی کا لیڈر یا آئیڈیل نہیں ہوتا، میرے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔ میں عمر کے ساتھ ساتھ محمد علی کو پڑھتا گیا۔ اس کے مکُے میں جو بلا کی سی طاقت تھی اس طاقت کو محسوس کرنے لگا، یہاں ایک بات میری سمجھ میں آگئی تھی کہ مجھے جو کرنا ہے خود کرنا ہے۔

اکیلے ایک بڑی جنگ لڑنے کا عزم میرے اندر اْتر چکا تھا مگر اس زمانے میں نہ وقت میرے ساتھ اور نہ پیسہ تھا، پھر میں نے خود کو عزت دینا شروع کردی کہ جب میں اپنے آپ کی عزت نہیں کراؤں گا مجھے کوئی عزت نہیں دے گا لہٰذا ایک نئی زندگی کی شروعات کی۔ مجھے یہ بھی علم تھا کہ یہ دْنیا بہت چھوٹی، بہت مختصر صرف اتنے ہی فاصلے پر جس کے درمیان موت اور زندگی ہو۔میں نے پہلی پینٹ قمیض اور کوٹ لنڈے بازار سے خریدا تھا اور مجھے ان کے کلرز آج بھی یاد ہیں۔

محمود بھٹی سمجھتے ہیں کہ انسان کو کبھی بھی اپنا ماضی نہیں بھولنا چاہیے کیونکہ وہ اس کو نہ صرف اس کی اوقات دکھاتا رہتا ہے بلکہ اگر وہ انسان سمجھ دار ہے تو پھر زندگی کو ماضی کے رویوں میں زندہ رکھتا ہے۔کوٹ کے بازو بہت لمبے تھے، میرا قد تو نارمل تھا مگر جسم بہت دْبلا پتلا تھا، میرے پاس پینٹ کے لیے بیلٹ کے پیسے نہیں تھے لہٰذا میں ایک رسی کے ساتھ اس کو باندھ لیا کرتا تھا،پھر قمیض اور کوٹ پہن لیتا۔مجھے پیرس جانے کے لیے پیسوں کی بہت ضرورت تھی۔ میں نے ادھر ادھر سے پکڑ کر پہلے پیسے اکٹھے کیے، پھر پاسپورٹ بنوایا، پھر ٹکٹ خریدا اور جب پیرس جانے کے لیے جہاز میں بیٹھا، اس زمانے میں ویزے بڑی آسانی سے ملتے تھے۔

فرانس جانے کے لیے 200 ڈالر میری جیب میں تھے اور میں ڈرا اورسہما سہما جہاز میں بیٹھ گیا۔ نہ مجھے بیلٹ باندھنا اور نہ چمچ کے ساتھ کھانا آتا تھا کہ دائیں یا بائیں ہاتھ سے کھانا ہے۔ سوچا گوروں کے دیس آ کر میری ترقی کو پر لگ جائیں گے لیکن ایسا نہ ہو سکا، گزر بسر کرنے کے لئے دوسرے پاکستانیوں کی طرح میں نے پٹرول پمپوں سمیت چھوٹے موٹے کام کئے، آج سوچتا ہوں کہ یہی تو زندگی ہے کہ آپ کے پاس کچھ نہ ہو اور آپ محنت کریں اور طے کرلیں کہ میں نے بڑا بننا ہے تو پھر اس کی جدوجہد اس کو کامیابی کی طرف لے جاتی ہے۔

پہلا کام فرانس میں سڑکوں کی صفائی کا کیا تاکہ روٹی کا سلسلہ شروع ہو سکے اور دو سال تک میں چھوٹے چھوٹے کام کرتا رہا۔ وہیں پرمیں نے کپڑوں کی ڈیزائننگ کا کام کرنا شروع کردیا، وہ اس طرح کہ میں وہاں ڈیزائننگ کی دکانوں پردیکھا کرتا کہ یہ کیسے ڈیزائن بناتے ہیں اور پھر ان کو سیتے ہیں، تقریباً دو سال تک یہ سلسلہ چلا۔ پھر میں نے پیرس میں اپنا آفس بنالیا۔مکمل یورپین ڈیزائن بنانے میں وہاں پاکستانیوں کو نہیں ملا کرتا تھا۔ مجھے علم تھا کہ اگر میں ان کے ساتھ مکس ہو جاتا تو کبھی ترقی نہ کرپاتا۔

میرا ماننا ہے کہ آپ جس ملک میں رہتے ہیں وہاں کے ماحول کو اپنائے بغیر کامیابی کے راستے طے نہیں کرسکتے لہٰذا میں نے جاتے ہی فرانس کے کلچر کو اپنا لیا اور مجھے ایسا کرنا بھی چاہیے تھا۔ میںجس علاقے میں کام کرتا تھا وہاں یہودی زیادہ تھے۔ ان سے میں باقاعدہ کپڑا اْدھار لیتا اور پھر یہ اْدھار ہی میرا ان کے سامنے بڑا اعتماد بن گیا۔ اس لیے کہ میں واپسی کا جو وقت دیتا اس سے ایک دن پہلے ادائیگی کردیتا۔ پھر ایک وقت ایسا آیا کہ وہ بزنس کروڑوں پر چلا گیا۔

محنت، لگن، اعتماد، لین دین کے معاملے میں فیئرنس اور ترقی کرنے کے لیے دن رات کام کا کرنا ان قوموں میں ایک بڑی بات یہ ہے کہ وہ محنت کرتے وقت دینا بھول جاتے ہیں، ماحول بھول جاتے ہیں، دوستیاں اور رشتے بھول جاتے ہیں، کام کے وقت صرف کام، ان کا بڑا فریضہ بن جاتا ہے ، بدقستمی سے ہمارے ہاں ایسا نہیںہے۔مجھے فخر ہے کہ پاکستان میں فیشن ڈیزائنرز کا اسکول میں نے بنوایا تھا، پاکستان میں فیشن انڈسٹری کی بنیاد رکھنے پر مجھے ستارہ امتیاز بھی ملا۔ میرا سٹاف بچوں کو تربیت دیتا تھا۔

میں نے اپنی جیب سے مشینیں لے کر دیں، اب وہ فیشن سکول ایک بڑی یونیورسٹی میں تبدیل ہوچکا ہے۔ جب میں فرانس سے یہاں آیا تو مجھے کہا گیا کہ یہ درزی ہے جبکہ میں ایک فیشن ڈیزائنر ہوں، درزی بْرا کام نہیں، یہی درزی آپ کو پہناوے پہناتا ہے۔ فیشن ڈیزائنر وہ ہوتا ہے جو کسی دوسرے کو کاپی نہ کرے اور اپنی تخلیق سے رنگوں کو لباس میں ڈھالے۔ ماحول کو ساتھ لے کر چلے۔

فرانس میں مقیم پاکستانی نڑاد فیشن ڈیزائنر محمود بھٹی کی رائے میں فیشن ڈیزائن کے کاپی رائٹس ہونے چاہیں، یہ نہیں ہو نا چاہیے کہ انٹرنیٹ پر کوئی تصویر دیکھی اور کاپی کر لی، اگر کاپی کریں گے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا، فیشن ڈیزائن میں چوری کا عنصر نہیں ہونا چاہیے، مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ پاکستان اب بہت تبدیل ہو گیا ہے، لوگوں میں شعور آتا جا رہا ہے، نوجوان نسل فیشن سے بہت دلچسپی رکھتی ہے اور جدید فیشن اپنا رہی ہے، پاکستان کا امیج اب نئی نسل کو تبدیل کرنا چاہیے لیکن اس حوالے سے حکومت کا بھی بہت بڑا کردار ہے۔

محمود بھٹی کے مطابق اوورسیز پاکستانیز اور نوجوان نسل ہمارا بہترین مستقبل ہیں، پاکستان میں بہت زیادہ ٹیلنٹ ہے، نوجوان نسل کو چاہئے کہ وہ انٹرنیشنل سطح پر اپنے کام کو متعارف کروائیں، میں نے ایک ادارہ 2006میں ایک چھوٹی سی عمارت سے شروع کیا تھا آج اسے اتنا تناور دیکھ کر دل خوش ہوگیا ،پاکستان انسٹیٹوٹ آف فیشن اینڈ ڈیزائن سے ٹاپ کرنے والے طلباء کو ہر سال 5لاکھ روپے کا سکالر شپ دوں گا۔

محمود بھٹی کی رائے میں وزیر اعظم عمران خان بھی سمجھتے ہیں کہ اوورسیز پاکستانی اس ملک کا سب سے بڑا اثاثہ ہیں لیکن قبضہ مافیانے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے نام میں دم کر رکھا ہے، میں نے یتیم بچوںکیلئے ایک خطیر رقم سے ملتان روڈ پر پراپرٹی خریدی تھی لیکن جب میں نے اس کام شروع کروانا چاہاتو اس پر قبضہ کرلیا گیا، میں نے اس پر حکم امتناعی حاصل کرلیا لیکن بعدازاں مجھ پر درجنوں کیسزبنوادیئے گئے جو آج میں عدالتوں میں بھگت رہاہے، ایسے اقدامات سے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی دل آزادی اور حوصلہ شکنی ہورہی ہے۔

وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے سے گھبرارہے ہیں، مجھ سے باہر رہنے والے کہتے ہیں کہ اگرپاکستان میں آپ کی پراپرٹی محفوظ نہیں تو پھر ان عام اوورسیز کا کیابنے گاجو اتنی مشکلات جھیل کر پاکستان میں زرمبادلہ بھیج رہے ہیں اور انویسٹ کرناچاہتے ہیں خدایا اس کیلئے سسٹم کو بہترکیاجائے وزیر اعظم عمران خان نے میرے کیس میں کافی دلچسپی لی ہے وہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کیلئے خوش آئنداور امید کی کرن ہیں۔

محمود بھٹی کے مطابق امیں نے اپنی زندگی کا سفر صفر سے شروع کیا، میرے پاس کچھ نہیں تھا، داتا دربار پر لنگر کھانے جاتا تھا،کالج میں جاتا تھا تو میرے کپڑے پرانے ہوتے تھے، جب میں فرانس گیا تو میرے پاس کچھ نہیں تھا، اللہ کا شکر ہے کہ آج میرے پاس بہت کچھ ہے، میرا زندگی کا فلسفہ یہی ہے کہ انسان کو کسی بھی صورت اپنا ماضی نہیں بھولنا چاہیے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔