پابجولاں

ایم جے گوہر  اتوار 14 نومبر 2021

وزیر اعظم عمران خان اور ان کے مشیر و وزیر اس بات پر مصر ہیں کہ مہنگائی صرف پاکستان میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں ہو رہی ہے۔ مزید یہ کہ دیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں مہنگائی کا تناسب قدرے کم ہے اور حکومت عام آدمی کے مسائل سے پوری طرح آگاہ ہے اور قیمتوں کو کنٹرول کرنے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے۔

وزارت خزانہ کے ترجمان کے مطابق تمام اعشاریے مثبت سمت میں ہیں، اشیائے خور و نوش کی قیمتیں قابو میں آنا شروع ہو گئی ہیں ، گزشتہ چار ماہ سے پوری دنیا میں مہنگائی میں اضافہ ہو رہا ہے۔

عالمی ادارہ ایف اے او (فوڈ اینڈ ایگریکلچرآرگنائزیشن) کے مطابق ستمبر، اکتوبر میں کھانے پینے کی اشیا میں 39 فیصد اضافہ ہوا ہے، ڈیری مصنوعات میں 2.6 فیصد اضافہ ہوا ہے جب کہ کھانے کے تیل کی قیمت اس وقت عالمی مارکیٹ میں اپنی بلند ترین سطح پر ہیں۔ وزارت خزانہ کے ترجمان کا یہ بھی موقف ہے کہ کورونا وبا کے باعث پوری دنیا مشکلات میں ہے ، صرف پاکستان میں میڈیا پر اس کا غلط تاثر دیا جا رہا ہے۔

مشیر خزانہ بھی فرماتے ہیں کہ پاکستان میں ضرورت سے زیادہ چینی موجود ہے۔ اعداد و شمار جھوٹ نہیں بولتے ، ملک تمام شعبوں میں ترقی کر رہا ہے۔ اب تو ہم ضرورت سے زیادہ مکئی، چاول اورکپاس پیدا کررہے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ اگر ملک میں ضرورت سے زیادہ چینی موجود ہے تو پھر وہ نایاب کیوں ہے؟ طلب و رسد کے قانون کے مطابق جب اشیا طلب سے زیادہ موجود ہوں تو قیمت تواترکے ساتھ نیچے سے نیچے آتی چلی جاتی ہے اور ایک عام آدمی اسے باآسانی خرید سکتا ہے، اگر وزیر خزانہ کی بات کو درست مان لیا جائے تو پھر ملک کے چاروں صوبوں میں چینی کی قیمتیں 150 سے 160 روپے فی کلو تک کیوں پہنچ گئی ہیں؟

ہر صوبے میں 20 سے 40 روپے تک کے فرق سے چینی مل رہی ہے اور وہ درجہ سوم کی یعنی باریک چینی جب کہ درجہ اول کی موٹی چینی کہیں دستیاب نہیں۔ ملک کے تمام یوٹیلیٹی اسٹور حکومت کے کنٹرول میں ہیں وہاں بھی چینی دستیاب نہیں اور اگر کہیں مل بھی رہی ہے تو اس کی قیمت سو روپے سے زائد ہے، گزشتہ ماہ چینی کی فی کلو قیمت 110 روپے تک تھی لیکن ایک ماہ کے اندر روزانہ کی بنیاد پر چینی کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا رہا جو اب 150 اور 160 روپے فی کلو تک پہنچ گیا ہے اس غیر معمولی اضافے میں عالمی مہنگائی کا کیا دخل ہے؟

پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ چینی کی پیداوار کے لحاظ سے دنیا کا 11واں بڑا ملک ہے یہاں تقریباً 80 سے زائد شوگر ملیں ہیں جو سالانہ کرشنگ سیزن کے دوران 60 ملین میٹرک ٹن یعنی 1600 ارب کلو گرام چینی تیار کرتی ہیں۔ اتنی بڑی مقدار میں چینی کی تیاری کے باوجود چینی دستیاب نہیں اور کہیں ہے بھی تو اس کی قیمت عام آدمی کی دسترس سے باہر ہے۔ پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کی رائے کے مطابق چینی کے موجودہ بحران کی ذمے داری حکومت پر عائد ہوتی ہے۔

ایسوسی ایشن کے سینئر وائس چیئرمین اسکندر خان کا کہنا ہے کہ انھوں نے وزیر اعظم کو چند ماہ قبل ہی چینی بحران سے آگاہ کر دیا تھا۔ لہٰذا مل مالکان اس بحران اور قیمتوں میں ہوش ربا اضافے کے ذمے دار نہیں ہیں۔ انھوں نے حکومت کو یہ بھی مشورہ دیا تھا کہ شوگر انڈسٹری کے خلاف کریک ڈاؤن کے بجائے دوستانہ ماحول فراہم کیا جائے۔ جب کہ حکومت کا موقف ہے کہ شوگر ملز نے عدالتوں سے حکم امتناعی حاصل کر رکھا ہے اس لیے حکومت کچھ کرنے سے قاصر ہے، اب انھوں نے پنجاب حکومت کو ہدایت کی ہے کہ وہ عدالتوں سے حکم امتناعی حاصل کرنے والی شوگر ملوں کے خلاف ’’اسٹے آرڈر‘‘ ختم کرائیں۔

حکومت کی غلط حکمت عملی، شوگر مافیا کی اجارہ داری اور مڈل مین اور ہول سیلر کی ملی بھگت کا نتیجہ ہے کہ چینی کا بحران پیدا ہوا اور قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں۔ حکومت کو سنجیدگی سے اس بحران سے نمٹنا ہوگا۔

بات صرف چینی بحران پر ختم نہیں ہوتی بلکہ پٹرولیم مصنوعات سے لے کر عام آدمی کے روزمرہ استعمال کی اشیا خور و نوش آٹا، چاول، دالیں، گھی، تیل، انڈے، دودھ، دہی، گوشت، سبزی اور دوائیں ہر شے کی قیمت میں ہر ماہ نہیں بلکہ روزانہ کی بنیاد پر اضافہ ہو رہا ہے جس نے عام آدمی کی قوت خرید کو بری طرح متاثرکیا ہے، جس رفتار سے گرانی میں اضافہ ہو رہا ہے ، اس نسبت سے تنخواہ دار طبقے کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں ہوتا اور نہ دیہاڑی دارکی اجرت بڑھتی ہے ، جس کا لازمی نتیجہ غربت میں اضافہ ہے۔

خط غربت سے نیچے افراد کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اس پہ مستزاد بے روزگاری میں کمی نظر نہیں آ رہی ہے۔ حکومت نے 120 ارب روپے کے جس ریلیف پیکیج کا اعلان کیا ہے ، وہ کروڑوں غریبوں کے لیے ناکافی ہے۔ حکومت آئی ایم ایف کے شکنجے میں بری طرح پھنس چکی ہے 6 ارب ڈالرکی رقم حاصل کرنے کے لیے اپنے غریب عوام پر آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے وقفے وقفے سے پٹرول ، ڈیزل ، مٹی کے تیل سمیت بجلی اورگیس کی قیمتوں میں اضافہ کر کے عام آدمی کی زندگی کو عذاب میں مبتلا کر دیا گیا ہے۔

نتیجتاً عوام الناس میں حکومت کے خلاف بے چینی اور اضطراب میں اضافہ ہو رہا ہے جو اپوزیشن کو اپنی احتجاجی تحریک کے لیے گویا ایندھن فراہم کر رہا ہے، جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پی ڈی ایم نے حکومت کے خلاف ’’لانگ مارچ‘‘ کا اعلان کردیا ہے۔ پہلے مرحلے میں چاروں صوبوں کے دارالحکومتوں میں ’’احتجاجی ریلیاں‘‘ نکالی جائیں گی بعدازاں لاہور سے اسلام آباد تک ’’ لانگ مارچ ‘‘ کیا جائے گا۔ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اور دیگر جماعتوں نے اس سے قبل بھی لانگ مارچ اورگزشتہ دسمبر میں حکومت کے خاتمے کے اعلانات کیے تھے ، لیکن وہ پورے نہ ہوسکے۔

مبصرین و تجزیہ نگار پی ڈی ایم کے لانگ مارچ کو سیاسی پوائنٹ اسکورنگ اور عدم استحکام سے تعبیرکررہے ہیں۔ حکومتی اکابرین کا موقف ہے کہ ماضی قریب کی طرح اس مرتبہ بھی پی ڈی ایم کا احتجاج پانی کا بلبلہ ثابت ہوگا۔ بہرحال مہنگائی کا ’’ بارگراں ‘‘ اٹھانا عوام کے لیے ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔ مہنگائی کے عفریت کو ’’ پابجولاں‘‘ کرنے کے لیے حکومت کو ٹھوس اقدامات اٹھانا ہوں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔