معاف کردیا جائے

عثمان دموہی  اتوار 14 نومبر 2021
usmandamohi@yahoo.com

[email protected]

افغانستان پر امریکی حملے کی اصل قیمت پاکستان نے ادا کی ہے اور بھارت نے خوب فائدے اٹھائے ہیں۔ طالبان اور امریکا کی لڑائی ان کا اپنا مسئلہ تھا لیکن امریکا نے جس طرح پاکستان کو اپنی جنگ میں استعمال کیا ، اس کا خمیازہ پاکستان اس وقت بھگت رہا ہے اور آگے بھی ایک طویل عرصے تک بھگتتا رہے گا۔

امریکا نے اب طالبان کو تسلیم کرلیا ہے اور درپردہ ان کی حکومت بھی بنوا دی ہے لیکن دنیا کو دکھانے کے لیے ابھی دشمنی بھی جاری ہے۔ طالبان سے جنگ ختم کرنے میں امریکا کا اپنا مفاد تھا۔ وہ افغان جنگ میں اربوں ڈالر ضایع کرکے اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ اس جنگ کا کوئی فائدہ نہیں۔

عراق پر قبضہ کرنے سے تو اسے مفت کا تیل ہاتھ لگ گیا تھا مگر افغانستان میں اسے کیا ملا کچھ بھی نہیں البتہ اگر وہ اس جنگ کو مزید طول دیتا رہتا تو اسے اپنے فوجیوں کی مزید لاشیں اٹھانے اور اشرف غنی اور اس کی کرپٹ کابینہ پر ڈالروں کی برسات کرنے کے سوا چارہ نہیں تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ افغان جنگ سے اگر کسی کو فائدہ پہنچا تھا تو وہ بھارت تھا جس نے وہاں مضبوطی سے اپنے پنجے گاڑ دیے تھے۔

اشرف غنی اور اس کے حواریوں سے مل کر پاکستان کے خلاف ایسا ماحول پیدا کردیا تھا کہ وہاں پاکستان کو ایک بڑے دشمن ملک کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ بھارت داعش اور دیگر تنظیموں کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردی کا مضبوط جال بچھانے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ اشرف غنی سے پہلے کرزئی کو بھی بھارت نے شیشے میں اتار لیا تھا۔ پھر کرزئی اور اشرف غنی دونوں ہی بھارتی عنایات تلے دب کر بھارت کا بھرپور ساتھ دے رہے تھے۔

مودی نے بھارت میں اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان پر حملہ کرنے کا پلان بنا لیا تھا۔ مودی نے آر ایس ایس سے وعدہ کر رکھا ہے کہ وہ اپنے دور اقتدار میں پاکستان کو ختم کرکے دم لے گا۔ اس پلان کے مطابق اس نے افغان فوجیوں کو ٹریننگ دینے کی ذمے داری خود سنبھال لی تھی ، مودی نے منصوبے کے تحت افغان فوجیوں کو طالبان سے زیادہ پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کے لیے انھیں مخصوص تربیت دینا شروع کی تھی۔

مودی کا پلان تھا کہ وہ پہلے گلگت بلتستان پر حملہ کرکے اسے پاکستان سے چھیننے کی کوشش کرے گا ، ایسے وقت میں مغرب کی جانب سے پاکستان پر افغان فوجیوں سے حملہ کرایا جائے گا۔ پاکستان دو طرفہ مار برداشت نہیں کر پائے گا اور بالآخر گلگت بلتستان کو بھارت کے حوالے کرنے میں ہی اپنی عافیت سمجھے گا مگر بھارت کے اس پلان کو چین نے لداخ میں بروقت اپنی فوجیں داخل کرکے ناکام بنا دیا تھا ، ادھر پاکستان نے بھی مودی کے تیور دیکھ کر اپنے دفاع کا پورا انتظام کرلیا تھا۔

بھارت افغانستان کو اپنے مفاد میں بدستور استعمال کر رہا تھا مگر افغانستان امریکیوں کے لیے گلے کی پھانس بن چکا تھا ، وہ اپنا مفاد اس میں دیکھ رہے تھے کہ افغانستان سے جلد ازجلد جان چھڑا لی جائے۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ افغانستان پر ان کے قبضے کا اصل فائدہ بھارت اٹھا رہا ہے اس سے افغانستان میں اس کا بول بالا ہو رہا ہے جب کہ امریکا بدستور اپنے فوجیوں کی لاشیں اٹھانے میں لگا ہوا ہے۔ ان کا مقرر کردہ اشرف غنی ان کے بجائے بھارت سے مفادات کو آگے بڑھا رہا تھا وہ امریکا سے کہیں زیادہ بھارت کا دم بھر رہا تھا۔

ادھر امریکی عوام افغانستان پر ہونے والے بھاری بھرکم اخراجات کا بوجھ اٹھا کر تنگ آ چکے تھے۔ انھیں بھی یہ بات ناگوار گزر رہی تھی ان کی آڑ میں بھارت اپنا الو سیدھا کر رہا ہے۔ دراصل بھارت کو افغانستان میں من مانی کرنے اور اسے اپنے مفاد میں استعمال کرنے کا راستہ ہموار کرنے والے جونیئر بش اور پھر اوباما تھے۔ وہ دونوں ہی بھارت کی سوا ارب کی منڈی کی چکا چوند میں بھارت کے طرف دار بن چکے تھے۔

بھارت نے افغان عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے وہاں ایک بڑا ڈیم اور ان کی پارلیمنٹ کی عمارت تعمیر کرکے ان پر اپنے احسان کا بوجھ لاد دیا تھا۔ بھارت نے ایرانی چاہ بہار بندرگاہ سے افغانستان تک ایک بڑی سڑک تعمیر کی تھی مگر یہ صرف اپنے مفاد کے لیے۔ وہ اس سڑک کے ذریعے اپنا تجارتی سامان افغانستان اور وسطی ایشیائی ممالک تک پہنچانا چاہتا تھا۔

ٹرمپ ایک زیرک امریکی صدر تھا اس نے افغانستان میں امریکا کی بے مقصد جنگ سے بھارت کے فائدہ اٹھانے کا نوٹس لیا وہاں سے امریکی فوجیوں کو واپس بلانے کے پروگرام کو عملی شکل دی اور طالبان سے دوحہ میں مذاکرات شروع کرائے۔

بھارت کو ٹرمپ کا یہ اقدام ذرا نہ بھایا اس لیے کہ امریکی و نیٹو افواج کے افغانستان سے نکلنے کے بعد وہ طالبان کے رحم و کرم پر ہوتا اور اسے بالآخر افغانستان سے نکلنا ہوتا۔ ٹرمپ نے اپنے دور میں طالبان سے سنجیدہ مذاکرات ضرور شروع کرائے تھے مگر فوجوں کا انخلا اس کے دور میں نہ ہو سکا اور پھر یہ کام نئے صدر جوبائیڈن کے حصے میں آیا۔

امریکی و نیٹو افواج کے انخلا کے بعد بھارت کو بھی افغانستان سے نکلنا پڑا پھر کابل پر طالبان کے حملے کے بعد اشرف غنی اور اس کے حواریوں کو بھی افغانستان سے بھاگنا پڑا۔ اب اس انقلاب نے مودی کی راتوں کی نیند حرام کردی ہے ، کیونکہ وہ تو افغانستان میں مستقل قیام کا ارادہ رکھتا تھا اور وہاں سے پاکستان میں دہشت گردی جاری رکھنے اور افغان فوج کو پاکستان پر حملے کے لیے استعمال کرنے کا پلان بنا چکا تھا۔

افغان سرزمین پر داعش اور دیگر کئی دہشت گرد تنظیموں کی وہ کفالت کر رہا تھا۔ اب وہاں سے نکلنے کے بعد بھی ان تنظیموں سے اس کا رابطہ ہے ، بعض تنظیمیں پاکستان کے اندر تباہی مچانے میں سب سے آگے تھیں وہ اب بھی ان کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردی جاری رکھنا چاہتا ہے مگر اب حالات بدل چکے ہیں ، طالبان کے افغانستان میں اقتدار میں آنے کے بعد ان تنظیموں کا اصل کردار جو اسے امریکی فوجوں کے خلاف ادا کرنا تھا وہ ختم ہو چکا ہے، چنانچہ طالبان نے ان کی پاکستان کے خلاف کارروائیوں کا نوٹس لے لیا ہے۔

اب یہ تنظیمیں بھی بدلے ہوئے حالات کے مطابق خود کو ڈھالنا چاہتی ہیں وہ پاکستان میں اپنی دہشت گردانہ کارروائیوں کو ختم کرکے پاکستانی معاشرے میں پہلے کی طرح مدغم ہونا چاہتی ہیں۔انھوں نے پاکستانی حکومت سے اس سلسلے میں رابطہ کرکے ہتھیار پھینکنے کا معاہدہ کرلیا ہے۔ یہ ایک ہمت افزا پیش رفت ہے اسے ضرور پذیرائی ملنی چاہیے ، ورنہ بھارت انھیں پھر استعمال کرے گا اور ملک میں اے پی ایس جیسے سانحات کا سلسلہ جاری رہے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔