’’ سرخ سلام ‘‘ کا ایک دیو مالائی کردار (حصہ اول)

زاہدہ حنا  اتوار 14 نومبر 2021
zahedahina@gmail.com

[email protected]

تاریخ میں بعض کردار دیو مالائی شکل اختیار کر جاتے ہیں۔ حسن ناصر بھی ان ہی کرداروں میں سے ایک ہیں۔ 13 نومبر 1960 کو سرکاری طور پر بتایا گیا کہ انھوں نے عقوبت خانے کی کال کوٹھری میں چھت سے لٹک کر خود کشی کرلی ہے ، ان کی شہادت بد ترین تشدد کے نتیجے میں ہوئی۔

حکام کی جانب سے اپنے جرم کو چھپانے کے لیے اسے خودکشی کا نام دیا گیا۔ اس وقت معروف دانشور، محقق اور یونیورسٹی آف ٹیکسس، آسٹن کے پروفیسرکامران اصدر علی کی تحقیقی کتاب ’’سرخ سلام ‘‘ کا اعلیٰ اردو ترجمہ میرے سامنے ہے۔ ’’مکتبہ دانیال‘‘ کی جانب سے شایع کردہ یہ کتاب بجا طور پر ایک علیحدہ کالم کی متقاضی ہے۔ یہ سطریں میں 13 نومبر کو لکھ رہی ہوں لہٰذا میں چاہوں گی کہ کامران اصدر علی نے اپنی کتاب کے ایک کردار حسن ناصر کے بارے میں جو لکھا ہے اس میں آپ کو شریک کروں۔

کامران لکھتے ہیں ’’ حسن ناصر 1928میں برطانوی ہندوستان کی نوابی ریاست حیدرآباد میں ایک مسلمان شیعہ اشرافیہ خاندان میں پیدا ہوئے تھے۔ نوجوان حسن ناصر 1948 کے موسم گرما کے اوائل میں پاکستان آئے اور کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان میں شامل ہوگئے۔ پاکستان کے سفر پر روانہ ہونے سے پہلے بمبئی میں ان کی ملاقات سجاد ظہیر سے ہوئی تھی۔ اس حوالے سے مختلف آراء پائی جاتی ہیں کہ حسن ناصر کیوں اورکیسے پاکستان آئے تھے۔

کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ تعلیم کی غرض سے لندن جاتے ہوئے وہ کراچی میں ٹھہرے تھے جہاں انھوں نے کمیونسٹ تحریک میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔ سبط حسن یاد کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ حسن ناصر سے ان کی پہلی ملاقات بیرون ملک سے ان کی واپسی کے موقع پر مئی 1948میں بمبئی میں ہوئی تھی۔ حسن ناصر ، سبط حسن اور جی۔ ادھیکاری کے درمیان رابطہ کار تھے جو کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (سی پی آئی ) کے ایک سینئر رہنما تھے۔

ادھیکاری نے سبطِ حسن کو پاکستان جاکر سجاد ظہیر کی معاونت کرنے کی ہدایت کی تھی حسن ناصر سے سبطِ حسن کی دوسری ملاقات ان کی کراچی آمد پر جولائی 1948 میں ہوئی تھی۔ حسن ناصر اس وقت تک سجاد ظہیر کے ایک بااعتماد معتمد بن چکے تھے۔ انھوں نے سبط حسن کو لاہور روانہ ہونے کے لیے کہا جہاں سجاد ظہیر ان کے منتظر تھے۔

حسن ناصرکی ابتدائی زندگی کے بارے میں بہت کم تحریری مواد موجود ہے جوکچھ حد تک پراسراریت میں گھری ہوئی ہے (جیسا کہ حیدرآباد میں ان کے گھرکا نام دھوپ چھاؤں) یہ ممکن ہے کہ حیدرآباد کے ایک نوجوان ہونے کے حوالے سے حسن ناصر کو جنوبی ہندوستان میں جاری تلنگانہ تحریک نے متاثر کیا ہوگا اور وہ ایک طالب علم کے طور پر کمیونسٹ تحریک میں شریک ہوگئے ہوں گے۔

اس بات کا بھی امکان ہے کہ پارٹی کے لیے ٹریڈ یونین تحریک میں کام کرنے کے لیے وہ بمبئی منتقل ہو گئے ہو نگے۔ کلکتہ کانگریس کے بعد ، پارٹی نے دوسرے مسلمان کامریڈوں کی طرح انھیں بھی پاکستان جاکر سجاد ظہیر کے کام میں مدد فراہم کرنے کی ہدایت کی ہوگی۔

پاکستان میں اپنی آمد کے بعد ، حسن ناصر سی پی پی کے رکن بن گئے ، وہ کراچی ڈسٹرکٹ آرگنائزنگ کمیٹی کے پہلے چندکل وقتی کارکنوں میں سے ایک تھے۔ 1949تک وہ سندھ کی جانب سے سی پی پی کی سینٹرل کمیٹی کے رکن بن چکے تھے۔ اس وقت حسن ناصرکی عمر صرف 20 سال تھی اور وہ پارٹی کے اندرونی حلقے میں فعال ہوچکے تھے۔

حسن ناصر ٹریڈ یونین تحریک اور انجمن ترقی پسند مصنفین کے لیے کام کرنے کے علاوہ نیا زمانہ کی تقسیم کی نگرانی بھی کرتے تھے جو پارٹی کا رسالہ تھا۔ سی پی آئی اور سجاد ظہیر سے بمبئی کے دنوں سے پہلے تعلق کے باعث وہ سی پی پی سینٹرل کمیٹی کے لاہور آفس سے کراچی کمیٹی کی طرف سے تعلق رکھنے والے سب سے قریبی فرد تھے۔

یہ وہ وقت تھا جب مزدور طبقہ شدید ریاستی جبر اور دباؤ کی صورتحال سے دوچار تھا۔ ان کو پہلی مرتبہ راولپنڈی سازش کیس کے بعد گرفتارکیا گیا تھا لیکن ایک سال کے اندر انھیں رہا کردیا گیا تھا۔ انھوں نے 1952۔1951 میں اپنی حراست کا ایک حصہ لاہور قلعہ میں گزارا تھا۔ انھیں 1954 میں اس وقت دوبارہ گرفتار کیا گیا جب کمیونسٹ پارٹی پر بالآخر پابندی عائد کردی گئی تھی۔ گرفتاری کے بعد انھیں جلاوطن کردیا گیا تھا۔ غالب ترین امکان یہی ہے کہ انھوں نے جلاوطنی کا یہ وقت ہندوستان میں گزارا تھا۔

1955 میں وہ دوبارہ پاکستان آگئے۔ 1950 کی دہائی میں انھیں مزید کئی بار بھی گرفتار کیا گیا ہوگا اور جس کے دوران وہ کراچی سینٹرل جیل میں قید رہے تھے ، لیکن آخری بار ان کو اگست 1960میں گرفتار کیا گیا۔ اپنی گرفتاری سے قبل حسن ناصر جنرل ایوب خان کی جانب سے اکتوبر 1958 میں پورے ملک میں مارشل لاء کے نفاذ کے بعد زیادہ تر زیر زمین رہ کر اپنی گرفتاریوں سے بچ رہے تھے۔

حسن ناصر1948 کی گرمیوں کے دوران کراچی پہنچے تھے۔ یہ شہر اس وقت پاکستان کا پہلا دارالحکومت تھا سماجی اور معاشرتی تبدیلیوں کے تیز رفتار عمل سے گزر رہا تھا۔ اس وقت شہر کی آبادی تقریباً چار لاکھ پچاس ہزار نفوس پر مشتمل تھی۔ سندھی بولنے والوں کی تعداد 60 فیصد تھی جن میں سے 51 فیصد افراد ہندو جب کہ 42 فیصد مسلمان تھے۔ تقسیم کے بعد ہندوستان سے آنے والے تقریباً 600,000 ’مہاجروں‘ کے بعد شہر کی آبادیاتی صورتحال یکسر تبدیل ہوکر رہ گئی۔ کراچی میں اردو بولنے والے اکثریت میں ہوگئے اور اس شہر کے رہائشیوں کی اکثریت بھی مسلمانوں کی ہوگئی۔

1940کی دہائی کے آخری برسوں میں شہر میں ہندوستان کے مختلف حصوں سے آنے والوں کا تانتا بندھا ہوا تھا۔ کراچی کے محنت کش طبقے کی تقسیم بھی ہندوستان کے صوبوں مثلاً یوپی، سی پی، حیدرآباد، بہار، کیرالہ، کرناٹک وغیرہ سے آنے والے لوگوں کے حوالے سے کی جانے لگی تھی۔ تاہم، کمیونسٹ پارٹی مزدوروں کے مختلف گروہوں میں اپنا اثر رکھتی تھی۔ مثال کے طور پر بیڑی مزدور یونین کی باگ ڈور پہلے سی پی آئی کے پاس تھی جو تقسیم کے بعد سی پی پی کے پاس چلی گئی۔ بیڑی کے زیادہ تر مزدوروں کا تعلق جنوبی ہندوستان سے تھا اور وہ شہر کے ایک علاقے سولجر بازار میں رہا کرتے تھے۔ اس زمانے میں مزدوروں کے ایک جگہ پر اتنی بڑی تعداد میں موجودگی کی وجہ سے یہ علاقہ ’’اسٹالن گراڈ ‘‘ کے نام سے بھی مشہور تھا۔

محمد علی ملباری ان مزدوروں میں ایک تھے جو حسن ناصر سے بہت قربت رکھتے تھے۔ محمد علی کا تعلق ہندوستان کے صوبہ کرناٹک سے تھا۔ بمبئی اور لائلپور میں مزدوری کے دوران بعض سکھ کامریڈوں کے ذریعے وہ مزدور طبقے کی سیاست میں شامل ہوگیا۔ آزادی سے چند سال قبل محمد علی ملباری کراچی آگیا جہاں بالآخر اس نے کمیونسٹ پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی۔ وہ ایک تربیت یافتہ اور تجربہ کار بیڑی مزدور تھا لہٰذا اس نے سولجر بازار میں پہلے سے آباد بیڑی مزدوروں میں اپنا ایک مقام بنا لیا۔

1960 کی دہائی میں دیے گئے ایک انٹرویو میں محمد علی ملباری نے 1948-1949 میں حسن ناصر کے ساتھ اپنی پہلی ملاقات کے بارے میں بتایا تھا۔ یہ ملاقات اس وقت ہوئی تھی جب حسن ناصر، محمد علی کے رہائشی کوارٹروں میں مزدوروں کو مارکسزم کی تعلیم دینے آیا کرتے تھے۔ آگے چل کر وہ حسن ناصر کے قریب آگیا اور اس نے کئی سال ان کی تعلیمی و سیاسی سرپرستی میں گزارے۔ وہ تقریباً عاجزانہ لہجے میں کہتا ہے کہ حسن ناصر نے ایک پرولتاریہ پارٹی کے قیام کے لیے خود کو وقف کردیا تھا۔ حسن ناصر کراچی میں لگ بھگ دس سال رہے۔

انھوں نے اپنا زیادہ تر وقت زیر زمین (روپوشی) اور سیکیورٹی اداروں سے مسلسل بچنے میں گزارا تھا۔ محمد علی یاد کرتے ہوئے بتاتا ہے کہ حسن ناصرکا کوئی مستقل گھر نہیں تھا اور ان کے کھانے پینے اور سونے جاگنے کا نظام بے ضبط اور بے قاعدہ تھا۔ محمد علی کے مطابق ’’ وہ گلی محلوں میں ملنے والی سادہ ترین غذا کھا لیا کرتے تھے، انھیں پارک کی بینچ ، پارٹی آفس کے فرش یا مزدوروں کے کوارٹروں میں، جہاں بھی تھوڑی سی جگہ ملتی وہ وہیں سو جایا کرتے تھے۔ ‘‘

1950 کی دہائی کے اوائل میں حسن ناصر اپنی قید کے دوران نہ صرف قیدیوں بلکہ جیل کے عملے تک میں بھی کافی مقبول تھے۔ انٹرویوکے دوران محمد علی ملباری نے یاد کرتے ہوئے کہا کہ اُسے 1950کی دہائی کے ابتدائی دنوں میں گرفتارکرکے جب کراچی سینٹرل جیل بھیجا گیا اور وہاں کے غیر سیاسی قیدیوں کو یہ معلوم ہوا کہ میں حسن ناصرکا دوست ہوں تو انھوں نے مجھ سے اضافی عزت اور احترام سے پیش آنا شروع کردیا۔

قیدیوں کے علاوہ جیل کے محافظ بھی ان کا پورا خیال رکھا کرتے تھے۔ جیل کے افسران اسے جسمانی مشقت کے لیے نہیں کہتے تھے کیونکہ انھیں معلوم تھا کہ حسن ناصر نے مجھے یہ سمجھا رکھا ہے کہ اس نوعیت کے احکامات کی کس طرح مزاحمت کی جانی چاہیے۔

(جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔