زمین کی ہزاروں کلومیٹر گہرائی میں بننے والا مادّہ ہیرے کے اندر سے دریافت

ویب ڈیسک  پير 15 نومبر 2021
تصویر میں بوٹسوانہ سے ملنے والا ایک ہیرا ہے جس میں نایاب ترین معدن کیلشیئم سلیکیٹ پیرووسکائٹ دریافت ہوئی ہے جسے ڈیوموآئٹ کا نام دیا گیا ہے۔ فوٹو: بشکریہ نیوسائنٹسٹ

تصویر میں بوٹسوانہ سے ملنے والا ایک ہیرا ہے جس میں نایاب ترین معدن کیلشیئم سلیکیٹ پیرووسکائٹ دریافت ہوئی ہے جسے ڈیوموآئٹ کا نام دیا گیا ہے۔ فوٹو: بشکریہ نیوسائنٹسٹ

کیلیفورنیا: دنیائے سائنس سے ایک دلچسپ خبر یہ آئی ہے کہ کئی دہائیوں قبل ایک معدن کی پیشگوئی کی گئی تھی جو اب زمین کی 660 کلومیٹر گہرائی سے دریافت ہوئی ہے۔

ایک ہیرے کے اندر اس معدن کے آثار ملے ہیں جو اس سے قبل پہلے کبھی نہیں دیکھے گئے تھے۔ اس معدن کو ’ڈیوموآئٹ‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اگرچہ اس کی ملتی جلتی قسم دنیا میں ملتی ہے لیکن ڈیوموآئٹ زمین کی گہرائی میں بلند درجہ حرارت اور دباؤ کے تحت تشکیل پاتی ہے۔

افریقی ملک بوٹسوانہ سے ملنے والے اس ہیرے کے اندر سیاہ معدن کے چھوٹے ٹکڑے پھنسے ہیں اور ایک عرصے سے ان کی تلاش جاری تھی۔ تحقیقی ٹیم کے سربراہ اور جامعہ نواڈا میں ارضیاتی کیمیا کے سربراہ اولیور شونر نے اسے ڈیوموآئٹ کا نام دیا ہے۔ یہ کیلشیئم سیلیکیٹ CaSiO3 پر مشتمل ہوتی ہے لیکن اس میں یورینیئم، تھوریئم اور پوٹاشیئم کے تابکار ہم جا (آئسوٹوپس) موجود ہوسکتے ہیں۔

نظری طور پر 1967 میں اس معدن (منرل) کی پیشگوئی کی گئی تھی۔ ماہرین نے اس کا مقام زمین کی گہرائی یعنی مینٹل کو قرار دیا گیا جہاں درجہ حرارت بلند اور دباؤ غیرمعمولی ہوتا ہے۔ مینٹل زمینی قشر(کرسٹ) اورقلب (کور) کے درمیان پایا جاتا ہے۔ اس طرح ڈیوموآئٹ کو سمجھ کر خود ہم زمینی ساخت، پلیٹ ٹیکٹونکس اور ارضیات کو جان سکتے ہیں۔

ماہرین کا خیال ہے کہ یہ معدن خاص حالات کے تحت 660 سے 2700 کلومیٹر گہرائی میں تشکیل پاتی ہے جہاں حرارت اور دباؤ کا راج ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے ایک ہیرے کے اندر دیکھا گیا ہے جو بلند درجہ حرارت پراپنا وجود برقرار رکھتا ہے۔

اگرچہ کیلشیئم سلیکیٹ پیرووسکائٹ تجربہ گاہ میں بنایا گیا ہے لیکن قدرتی طور پر پہلی مرتبہ اسے دیکھا گیا ہے۔

واضح رہے کہ 1987 میں اس ہیرے کو بوٹسوانہ کی ایک کان سے برآمد کیا گیا تھا لیکن وہ مختلف ہاتھوں سے ہوتا ہواں کیلیفورنیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی پہنچا جہاں کئی برس تک اس پر تحقیق کی گئی اور 11 نومبر کو اس کا اعلان ایک تحقیقی مقالے کی صورت میں کیا گیا ہے۔

پہلے اسے لیزر سے چھیدا گیا تو اندر کیلشیئم کے آثار ملے۔ پھر معلوم ہوا کہ یہ کیلشیئم سلیکیٹ ہے اور آخرکار معلوم ہوا کہ یہ کرسٹل حقیقت میں کیلشیئم سلیکیٹ پیرووسکائٹ ہے۔ زمینی مینٹل کا پانچ سے سات فیصد حصہ اسی معدن پر مشتمل ہوسکتا ہے۔

واضح رہے کہ یہ دریافت سیکڑوں میل کی گہرائی میں نہیں ہوئی ہے بلکہ ہیرے کی ایک کان سے ملی ہے اور خیال ہے کہ یہ کسی عمل کی بدولت اوپر تک پہنچا ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔