تبدیلی آگئی ہے

جمیل مرغز  پير 15 نومبر 2021
jamilmarghuz1@gmail.com

[email protected]

آج حقیقی تبدیلی کی بات کریں گے۔ڈاکٹر علی شریعتی نے مومن کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’مومن کی ایک پہچان یہ بھی ہے کہ وہ اپنے عہدکے تقاضوں کو سمجھتا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ “Changing rules for the changed needs,Unchanging rules for the un changing needs” ۔’’بدلتے حالات کے مطابق نئے خیالات اور طریقے ‘ پرانے حالات کے مطابق پرانے طریقے اور سوچ اختیار کرنا مومن کی نشانی ہے‘‘۔لیکن ہماے مذہبی حلقے ابھی تک اس حالت میں ہیں ‘جس کو احمد ندیم قاسمی صاحب نے خوب صورت اندازمیں بیان کیا ہے‘کہ۔

؎یہ ارتقاء کا چلن ہے‘ کہ ہر زمانے میں

پرانے لوگ ‘نئے آدمی سے ڈرتے ہیں

ہمارے مذہبی علماء‘بجلی کی روشنی میں ‘پنکھے کی ٹھنڈی ہواکے نیچے ‘ پرانے زمانے کی خوبیاں اور نئے زمانے اور مغربی تہذیب کی برائیاں کرتے نہیں تھکتے ‘یہ پرانے لوگ ابھی تک نئے آدمی سے ڈرنے کے باوجود ‘اتنا نہیں سمجھتے کہ وہ بھی نئے آدمی کا چلن اختیار کر رہے ہیں‘بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ آہستہ نہیں بلکہ تیزی کے ساتھ پرانے غلط عقیدے مثلاً مغربی‘ہندو ‘جاپانی‘آرتھوڈکس ‘افریقی‘ لاطینی ‘امریکی‘بدھ ازم ‘جین مت تہذیبیں ختم ہو رہی ہیں یا فیصلہ کن مراحل سے گزر رہی ہیں‘ زمانہ تیزی سے بدل رہا ہے۔

ان سب رواجوں‘ عقیدوں ‘ثقافتوں اور تہذیبوں کو نئے زمانے کے حقائق بڑی آہستگی سے نگل رہے ہیں یا پس منظر میں دھکیل رہے ہیںاور وقت کے ساتھ ساتھ اس عمل میں تیزی آ رہی ہے۔ ان تبدیلیوں کے ساتھ اسلامی دنیا بھی بڑی تبدیلیوں کی زد میں ہے۔ میں 1950 میں پیدا ہوا اور اس دوران آج تک دنیا بدلتے دیکھتا رہا ہوں‘یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان 70سالوں میں صدیوں کا سفر طے ہو گیا‘بے شمار چیزیں اور عقائد معدوم ہو گئے ہیں‘اگر ماضی کا کوئی انسان قبر سے اٹھ کر  آگیا تو اپنے گھر کا راستہ پہچان نہیں سکے گا۔

کچھ عرصہ قبل سڑکیں نہیں تھی‘ بلکہ کچے راستے تھے جن پر ٹانگے‘گدھے‘گھوڑے اور پرانے ٹم ٹم والی گاڑیاں چلتیں‘ذرایع آمدورفت میں دیکھیں تو گھوڑے اور خچر تو کیا آپ کو ٹانگہ بھی کہیں نظر نہیں آئے گا‘یہ الگ بات کہ کسی ستم ظریف نے سوشل میڈیا پر لکھا ہے کہ ’’ٹانگہ ایسوسی ایشن نے اپنے ایک اجلاس میں عمران خان کا شکریہ ادا کیا ہے‘کہ انھوں نے پٹرول اتنا مہنگا کر  دیا ہے کہ تانگوں کا کاروبار دوبارہ چل پڑا ہے‘‘۔

چنیوٹ کی باڈی والی فورڈ بسیں مشہور تھیں‘اب توپک اپ‘ سوزوکی‘فلائنگ کوچ اور ریل گاڑیوں کے بجائے ‘بلٹ ٹرین‘رکشے اور ائر کنڈیشنڈ بسیں دوڑتی ہوئی نظر آرہی ہیں‘آج بڑی سڑکیں ہیں لیکن چمچماتی گاڑیوں اور رکشوں کی وجہ سے اتنا رش ہوتا ہے کہ سڑک کراس کرنا مشکل ہوتا ہے ‘پھر موٹر وے کے اپنے مزے ہیں‘ذرایع آمد ورفت کی ترقی بہت تیز ہے ‘میرے دادا کوئی 50سال قبل حج پر جارہے تھے‘گاؤں سے ریل گاڑی میں تین دن کے سفرکے بعد کراچی پہنچ گئے۔

دس دن کراچی میں رکے اور بحری جہاز کے ذریعے مہینوں کے بعد جدہ پہنچے‘ 2018میںمیری امی عمرے پر جا رہی تھی‘ نو گھنٹے کے بعد مدینہ سے ان کا فون آگیا‘وہ کہہ رہی تھی کہ بیٹا مجھے تو پتہ بھی نہیں لگا اور جہاز مدینے پہنچ گیا ‘پیغام رسانی گھوڑوںاور خچروں کے بعد پرانے ٹیلی فون اور ٹیلی گراف تک آگئی ‘اب ٹیلی گراف ‘ٹیلی پرنٹر‘ٹیلیکس‘پیجر اور پھر فیکس کے بعد سیل فون ہمارے ہاتھ میں ہے۔ مشرق وسطی اوردوسرے ممالک میں روزگار کی تلاش میں جو لوگ جاتے وہ مہینوں بعد ایک خط بھیجتے ‘پھر ٹیپ ریکارڈر آگیا اورکیسٹوںکے ذریعے خیریت کاپتہ چلتا وہ بھی مہینوں بعدکیونکہ کیسٹ بھی ڈاک کے ذریعے آتا‘اب مسافری کا مزا ختم ہوگیا کیونکہ انٹرنیٹ کے  ذریعے ہر وقت سامنے بیٹھ کر بات ہوتی ہے۔

گندم کی فصل کٹنے کے بعد ان کو بیلوں کے ذریعے روند کر دانے الگ کیے جاتے تھے‘ اسی طرح مکئی کی فصل کو بھی بڑے بڑے لکڑی کے ڈنڈوں سے مارمار کر دانے الگ کیے جاتے ‘لوگ جمع ہوتے اور خوشیاں مناتے ‘اس اجتماعی عمل میں بہت سے کسان دوست شامل ہوتے اور اس کو غوبل کہتے ‘کھانے میں دیسی گھی کے پراٹھے لسی اور مکھن وغیرہ ہوتے ‘ان خوشگوار محفلوں کو تھریشر اور ٹریکٹر کھا گئی ‘اب تو پڑوسی کو بھی پتہ نہیں لگتا کہ کب گندم آئی اور کب تھریشر ہو گئی۔غم اورخوشی کے موقع پر ہرکاروں کو گاؤں گاؤں بھیجا جاتا تاکہ لوگوں کو غم یا شادی وغیرہ کی دعوت دے سکیں۔

عید کے موقع پر عید کارڈ آتے‘ اب سارے کام موبائل نے سنبھال لیے ہیں‘شادی کارڈ بھی واٹس اپ کے ذریعے آتے ہیں‘ پرانے پروفیشن خواب و خیال لگتے ہیں۔ یہ سب کچھ اتنی جلدی ختم ہوگئے کہ انسانوں کو اندازہ بھی نہیں ہوا۔ اب یہ صاف ظاہر ہے کہ آیندہ صدی تک سائنس اور ٹیکنالوجی ‘ان عقیدوں‘ تہذیبوں اور ثقافتوں کے ساتھ کیا کچھ کر سکتی ہے‘ سائنس اور ٹیکنالوجی خود بخود پیدا نہیں ہوتی بلکہ ان کا خالق بھی وہی ہے جونظام ہستی چلا رہا ہے۔

میرے ایک دوست کا ملازم بہت سادہ ہے اور باتیں بڑی مزے کی کرتا ہے ‘نورے نام ہے ۔ایک دن کہنے لگا کہ صاحب جی ایک سوال پوچھوں۔ میں نے کہا کہ پوچھو ۔وہ کہنے لگا کہ ہم موٹروںاورجہازوں میں سفر کرتے ہیںاورآرام سے ایک جگہ سے دور دراز علاقوں تک بہ آسانی پہنچ جاتے ہیں‘گرمیوں میں پنکھے اورائر کنڈیشنڈ استعمال کرکے ٹھنڈے رہتے ہیں‘ سردیوںمیں ہیٹر اورگیس کے ذریعے گرم ہوتے ہیں‘ حالات سے باخبر رہنے کے لیے ٹی وی اور پیغام رسانی کے لیے موبائل فون استعمال کرتے ہیں‘یہ تمام چیزیں انگریزوںنے بنائی ہیں۔

ہمارے بڑے کہتے ہیں کہ ہم سچے ہیں‘میں سوچتا ہوں کہ کہیں وہ سچے نہ ہوں‘جو انسانوں کی آسانی کے لیے اتنی اچھی اچھی چیزیں بناتے ہیں۔اسی طرح سائنس اورٹیکنالوجی نے عقائد  کو بھی بد ل دیا ہے‘ ابھی کل کی بات ہے کہ تصویر حرام تھی‘ٹی وی فحاشی کا مرکز تھا ‘ لاؤڈ سپیکر شیطانی آلہ تھا‘ عورتوںکو دیکھنا گناہ عظیم تھا ‘آج علماء کرام ٹی وی کی خواتین اینکروںکے پاس بیٹھ کر بات کرتے ہیں‘اگر ٹی وی یا اخبار میں تصویر نہ آئے تو احتجاج کرتے ہیں۔

اب ہمارے سامنے دو راستے ہیں‘اول سائنس اور ٹیکنالوجی کو یکسر مسترد کرکے صحراؤں‘جنگلوں کی طرف نکل جائیںاور اپنی الگ دنیا آباد کریں اور دوسری صورت‘ عصر حاضر کے تقاضوں کو سمجھیں کیونکہ یہ ممکن نہیں کہ ان سے استفادہ بھی کریں اور اس کا انکار بھی‘ اس امر سے انکار ممکن نہیں کہ اگر جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کو اپنانا ہے ‘تو اس سے جڑی تہذیب و ثقافت سے بھی مفر ممکن نہیں۔

شاہد ہم نے کبھی نہ سوچنے‘سمجھنے اور سیکھنے کا فیصلہ کیا ہے‘حالانکہ انتہائی مجبوری کے عالم میں انتہائی لیٹ اپنی بہت سی پرانی رسومات ہم چھوڑ چکے ہیں‘مثلاً لاؤڈ سپیکر سے لے کر فوٹو گراف تک ‘انجکشن سے لے کر خون اور اعضاء کے ڈونیٹ کرنے تک‘میڈیکل کالجز میں ڈائی سیکشن اور پھر پرنٹنگ پریس تک ‘اسلام میں صرف چار قسم کے ٹیکسوں کا ذکر ہے عشر‘خراج‘جزیہ اور زکواۃ، ان میں سے کوئی ٹیکس بھی ہم نہیں دیتے بلکہ مختلف قسم کے انگریزی ٹیکس ہمارے اوپر لادے گئے ہیں کیایہ سب غیر اسلامی اور غیر شرعی ہیں ؟

جیسے اونٹوں‘ گھوڑوں‘خچروں اور گدھوں کے زمانے پرانے ہوگئے اور آج اگر چاروں اسلامی ٹیکس بھی ہوں تو کیا یہ ایٹم بم‘ مہنگے ترین جہاز خریدنے ‘بڑے چھوٹے ڈیم بنانے‘ موٹرویز بنانے ائر پورٹس بنانے وغیرہ کے لیے کافی ہوں گے۔کل جب سرسید احمد خان مسلمانوں کو ماڈرن زندگی کی طرف بلا رہے تھے تو ان کے خلاف کیا کیا فتوے نہیں لگائے گئے ‘لارڈ میکالے کو آج بھی گالیاں دی جاتی ہیں لیکن آج ہر ایک انگریزی اسکولوںاور یورپ کی تعلیم کا دلدادہ ہے‘ لیکن ان کے مطابق جو اسکول اورکالج کام کر رہے ہیں وہاں پر بڑے بڑے علماء کے بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔

علمائے کرام اگر اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں اور اپنے جسم اور گھر میں دیکھیں تو ہر طرف ان کو مغربی تہذیب کے نمونے نظر آئیں گے ‘ہمارے گھر سیمنٹ کے بنے ہیں ‘وہاں پر بجلی اور اس پر چلنے والے فریج‘ائر کنڈیشنڈ ‘ ہیٹر ‘ٹی وی‘استری ‘پنکھے‘کمپیوٹر ‘پانی گرم کرنے والے گیزر ‘کھانا گرم کرنے والے مائیکرواوون‘بستر پر بچھانے والے فوم ‘دنیا بھر سے رابطہ رکھنے والی موبائل ٹیلی فون یا عام ٹیلی فون اور وقت دیکھنے والی گھڑی غرض کون سی ایسی چیز زیر استعمال ہے جو ہم نے ایجاد کی ہو یا بنائی ہو‘حتی کہ جائے نماز اورتسبیح بھی چائنا کے اور آب زم زم کی بوتل فرانس کی استعمال ہو رہی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔